حقیرایجنٹوں کی بد کرداریاں

منصور مکرم

محفلین
images
افغانستان میں امریکی شکست جنگ عظیم دوم کے بعد وقوع پذیر ہونے والا ایک بڑا واقعہ ہی نہیں یہ اس جنگ کا بھی خاتمہ ہے جس کے نتیجہ میں دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوئی ۔ ایک سوشلزم جس کی قیادت سویت یونین کے پاس تھی اور دوسراسرمایہ دارانہ نظام جس کی قیادت ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے پاس رہی اور ان دونوں قوتو ں نے اپنے موت کے پروانے پر افغانستان کے باسیوں اور اس کی مضبوط جہادی تحریکوں سے خود دستخط کروائے ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ بھی دنیا بھر میں اپنا احترام کھوتا جارہا ہے جو دوسری جنگ عظیم کی تباہی کے نتیجہ میں قیام عمل میں لائی گئی تھی تاکہ دنیامیں طاقت کے توازن کو برقرار رکھا جاسکے ،بڑی طاقتوں کو مجبور کریں کہ وہ ان قوانین اور معاہدات کی پابندی کریں اور جوممالک جنگ کی آگ کو بھڑکانا چاہتے ہيں یا امن عالم میں نقص پیدا کر رہے ہیں ان کو ڈرا دھمکا کر قابو کیا جاسکے اس پر بھی باز نہ آئے تو ان کے خلاف لشکرکشی کر کے حق دار کو اس کا حق دلایا جاسکے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ تنظیم بھی اب مکمل طور پر امریکا کی سیاسی اور عسکری پالیسیوں توثیق کی مہر ثبت کرنے والا ایک ربرسٹمپ بن چکا ہے اور اس کی گرفت سے صرف طاقتوریاامریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے والے ممالک ہی محفوظ رہ سکتے ہیں ۔

امریکا کی افغانستان میں شکست یقینی نظر آرہی ہے ، اس کے اتحادی نیٹو ممالک فرار کی جانب بڑھ رہے ہیں جبکہ امریکا دھمکیوں کے ذریعہ سے انہیں اس فرار سے باز رکھنے کی کوشش کررہا ہے ۔ یہ دھمکیاں بعض ممالک کی حدتک کار گر ہیں اس لئے کہ ان ممالک کے اقتصادی معاملات پیچیدہ ہوچکے ہیں اور خودکشی کی حدتک پہنچ چکے ہیں جس کا سبب بھی امریکا ہی ہے جو ان کا سرپرست اعلی اور حلیف ہے ۔

افغانستان میں غاصب افواج کے ایجنٹ اپنی حالیہ زندگی کو غنیمت کا لمحہ تصور کررہے ہیں اور وہ اس بہتی گنگا میں خوب اشنان کررہے ہیں کیوں کہ ان کو معلوم ہے کہ ان کے ان مفادات کے دن بہت چھوٹے ہیں ۔ان ایجنٹوں کے زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کے اس حرص سے امریکہ نے خوب فائدہ اٹھایا اورکابل میں اقوام متحدہ کی عمارتوں کے قریب ایک پوش علاقے میں جس کی وہ کئی سالوں سے حفاظت کی خدمت انجام دے رہا ہے وہاں ان ایجنٹوں کو ٹھکانہ فراہم کیا گیا۔ اب جب آقاؤں کا انجام سامنے نظر آنے لگا ہے توسامراج کے جوتے صاف کرنے کے سبب بننے والے اکثر اہل ثروت نے اپنا لوٹا ہوا سرمایہ باہر منتقل کرنا شروع کردیا ہے ۔تاریخ کے اس اہم موڑ پر افغان عوام کے ان نام نہاد نمائندوں کے سامنے قومی ، ملکی اور عوامی مفادات اور افغان سرزمین سے زیادہ دنیاوی عیش وعشرت ،شراب وشباب کے چسکے ،دولت کی ریل پیل اورغیرملکی شہریت عزیز ہے۔ مظلوم افغانوں کی دولت لوٹ کر لے جاتے ہوئے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پکڑ سے محفوظ ہوگئے ہیں حالانکہ آخرت کا یوم الحساب اورجزا کا دن ابھی باقی ہے ۔

مشاہدہ میں یہ بات آرہی ہے کہ کافی عرصہ سے کابل ائیر پورٹ سے لاکھوں ڈالروں سے بھرے ہوئے بڑے بڑے بریف کیس افغانستان سے بلا روک ٹوک دیگر ممالک منتقل ہورہے جن میں ہندوستان ، یورپ ، خلیجی ممالک ، امریکا ، آسٹریلیا اور بہت سے دیگر ممالک شامل ہیں ۔اسلحہ ، ہیروئن ، ملکی نوادرات وغیرہ اسمگلنگ اور افغانوں کے قیمتی خون کے سودے کر کے کمائی جانے والی رقم سبھی اس لوٹ کھسوٹ میں باہر کو منتقل ہورہے ہیں ۔

خود فروشی اور ملت فروشی انتہائی حقیر اور گھٹیا صفات ہیں ۔ جو لوگ اس جرم کے مرتکب ہیں وہ بہت گھٹیا اور نیچ لوگ ہیں ،ان کا مستقبل تاریک ہے ۔اب ان کی طرف ان کے آقاؤں کی بھی توجہ نہیں رہی ،اس لئے کہ فرار کا وقت آپہنچا ہے اور ہر ایک کو اپنی جان کے لالے پڑے ہیں ۔ جو لوگ غاصب قوتوں کے ہمنوا بنے اور انہوں نے دین اور وطن کاسوداکیا،جانتے ہیں کہ عدل کا فیصلہ ان کا منتظر ہے ، ان کے شرمناک کرتوتوں کی ان کو سزا ملنے والی ہے لہذاوہ ہر طریقے اور وسیلے سے فرار کا راستہ تلاش کر رہے ہیں ۔
نیٹوممالک کے ذرائع ابلاغ نے ان قابض افواج کے معاونین میں اسے ایک گروہ یعنی بدکردار مترجمین کے حق میں بڑی شدت سے بات کرنا شروع کردی ہے اور وہ ”قابض افواج کے سرکردہ ممالک سے “ ان کے فغانستان سے انخلاءاور نیٹو اتحاد ی ممالک میں ان کی پناہ گزین کی طرح پناہ دینے پر بآواز بلند مطالبات کیے جارہے ہیں ،نیٹو ذرائع ابلاغ کی تصریحات کے مطابق ان کی تعداد کچھ بڑی نہیں ہے ، ان کا کہنا ہے کہ صرف 255 افغانی مترجمین نے غیر ملکی افواج کے ساتھ جنگی محاذوں اور دشوار گزار علاقوں میں کام کیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مترجمین اکثرجنگی محاذوں کے علاوہ دیگر مقامات پر اپنی خدمات سے قابض افواج کو بہرہ مند فرمارہے ہیں جن میں جاسوسی ، لوگوں کے متعلق معلومات اکٹھا کرنا ،سروے کرانا ، غیر ملکی افواج کے قبضہ کے لئے رائے عامہ کو ہموار کرنا اور مجاہدین کے خلاف نفرت پھیلانا ۔ کچھ تو ان میں سے عیسائی مشنریوں کے بھی کاسہ لیس بنے ہوئے ہیں جن کا ہدف غریب فقراءاور مغربی ممالک میں پناہ کی خاطر جانے کا ارادہ کرنے والوں کو مرتد بنانے کا ہے ۔

نیٹو ذرائع ابلاغ کا کہنا یہ ہے کہ ایساف اتحاد جو کہ افغانستان کے اندر قبضہ کی جنگ میں ایک سرگرم رکن ہے، یہ اپنے ساتھ کام کرنے والے ان مترجمین کے لئے انخلاءکی چند ترکیبات پر کام کررہا ہے ۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ ساری ترتیبات غیر سنجیدہ ہیں یہاں تک کہ نیٹو کے ذرائع ابلاغ کے پاس بھی اس کی کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ برطانیہ نے یہ کہا کہ اس کے پاس ان مترجمین کے انخلاءسے متعلق ابھی کوئی پلان نہیں جو ان کے ساتھ مصروف عمل ہیں ۔
چند لوگ ذاتی طور پرافغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب تو ہوگئے ہیں ، وہ تین حضرات جو برطانیہ پہنچنے میں کام یاب ہوئے اور انہوں نے پناہ طلب کرنے کی درخواست دے دی ان میں سے ایک نے اعلانیہ طور پربرطانوی وزیرِ اعظم دیوڈ کیمرون کو لکھا کہ ” مجھے امید ہے کہ آپ ہمیں اپنے جسم کا ایک حصہ سمجھتے ہوں گے میں خود کو برطانیہ میں افغانستان سے زیادہ پرامن محسوس کرتا ہوں لہٰذا میری مدد کریں “۔

نیٹو ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ 30 مترجمین نے صحافیوں کے متعلق طالبان کی دھمکیوں کے بعد اپنے کام اور اپنی ملازمتیں چھوڑدی ہیں اور گذشتہ سال استغفے دے دئیے ہیں ۔ نیٹو ذرائع ابلاغ اس بات کو نظر انداز کر رہے ہیں ان کاکہنا ہے کہ یہ دھمکیاں دراصل قابض افواج کو دی گئی تھیں جبکہ مترجمین اس کے ضمن میں آجاتے ہیں ۔باجود یہ کہ مجاہدین کے عسکری ذرائع ان صحافیوں کو دشمن کی فوج کا حصہ سمجھتے ہیں مگرانہوں نے انکشاف کرتے ہوئے کہاہے کہ بعض بیانا ت میں یہ ذکر کیا ہے کہ قابض افواج کے ساتھ کام کرنے والے مترجمین ذاتی اسلحہ رکھتے ہیں ، فوجی گاڑیوں میں بھی سفر کرتے ہیں جیسا کہ اس بیان میں کہا بھی گیا ہے ۔اسی طرح نیٹو اورقابض عسکری ذرائع اپنی افواج کے مقتولین اور زخمیوں کی تعداد کم بتلاتی ہے وہ ان مترجمین کے نقصانات کو بھی بہت ہی کم ذکر کرتے ہیں ۔برطانوی ترجمان کا کہنا ہے: یہ بہت اچھا ہوگا برطانوی ہمیں پناہ دیں اور قابض افواج کے انخلاءکے بعد طالبان کی پکڑ سے محفوظ رکھیں ۔ وہ فطری طور پر قابض قوتوں سے قریب ہیں ۔ ہم برطانوی افواج کے افغانستان سے نکلنے کے بعد یہاں نہیں رہ سکتے ۔ اس لئے کہ حکومت کے لئے تو ہم جاسوس اور طالبان کے لئے غدار کہلائینگے۔

قابض افواج کے ساتھ کام کرنے والے ترجمانوں کا جاسوس یا غدار ہونا یہ افغانستان میں بالکل عام سی بات ہوگئی ہے ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کی خدمات کی قیمت اداکرنا طالبان کے بس میں نہیں ۔ یہ بات مشہور ہے کہ طالبان نے پورے ملک کے اندر اپنے ادارے قائم کئے ہوئے ہیں خصوصاً فوج ، پولیس اور امن کے ادراے ، طالبان کی شہروں دیہاتوں اور دارالحکومتوں میں کامیابی کا سبب بھی یہی ہے ۔اس بات میں شک نہیں ہے کہ مترجمین کے درمیان ایسے عناصر موجود ہیں جنہوں نے ملک کے مفاد میں چند خدمات انجام دیں اور معلومات کا تبادلہ کیا جو کہ بہت سی کاروائیوں میں کامیابی کی وجہ بنا۔حقیقتاً یہ لوگ قابض ملکوں میں غداروں کی طرح بھاگنے پر مجبور نہیں ہوں گے بلکہ یہ لوگ اپنی قوم کی اس جدوجہد آزادی میں ایک اہم کرادار ادا کرنے کی وجہ سے تاریخ کے ہیروز میں شمار ہوں گے ۔

ماخوذ از: شہامت اردو ڈاٹ کام
 
Top