حقیقت سے کہاں پردہ اٹھایا جا رہا ہے ۔۔۔ جلیل عالی

نوید صادق

محفلین
غزل

حقیقت سے کہاں پردہ اٹھایا جا رہا ہے
یہ قصہ یوں نہیں جیسے بتایا جا رہا ہے

کھرچ ڈالے گئے سب حرف نوری تختیوں سے
فقط رنگوں میں گم رہنا سکھایا جا رہا ہے

کوئی ترتیبِ با معنی کہاں منظور اس کو
سو اپنی جا سے ہر شے کو ہٹایا جا رہا ہے

عدو سے سر نکلنے پر خجالت ہے کچھ ایسی
جبیں خم کر کے قد اس کا بڑھایا جا رہا ہے

سروکار اور ہی اپنا چکے ہیں اہلِ دل بھی
دماغ اس کا کسے؟ وہ آ رہا یا جا رہا ہے

ہوا جاتا ہے اپنے گھر میں بھی ہر شخص تنہا
یہ کیسا عالمی گاؤں بسایا جا رہا ہے

یہی ٹھہری جو رفتارِ ہوائے کج کلاہی
تو سمجھو سر سے سرداری کا سایہ جا رہا ہے

(جلیل عالی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ:ماہنامہ بیاض: فروری 2009ء
 
Top