صلاح الدین خان گورچانی
محفلین
سنا ہے کہ سچ کو بات کرنے کی تمیز نہیں ، جھوٹ بہت میٹھا بولتا ہے۔
لیکن افسوس کہ!
بِک سکی نہ بازارِ مصلِحت میں کبھی میری صداقت میرے اَناَ کی طرح
اگرچے مجھے قلم اُٹھانے کا موقع شاز و نادر ہی ملا لیکن میری کوشش یہی رہی کہ قلم کی نوک سے کچھ ایسے لالا ئو گوھر اُگلے جائیں جس سے میرے نوجوان کے دل میں پلتے ہوئے ناخالص جذبات کے دھارے کا رُخ اِسلام کی طرف اسطرح موڑا جائے کہ ایک بیٹی کی عصمت کو اپنے خون سے زیادہ قیمتی جاننے والے عرب و عجم کے ریگزاروں میں پلنے والے اُن اُمیین کی داستانیں میرے نوجوانوں کے دِل میں اسطرح پیوست ہو جائیں کہ میرا نوجوان فاطمہ کی بیٹی کا سر ننگا دیکھے تو اُسکا لہو مغربی تہذیب پر کھول اُٹھے اور ایک بار پھر مسلمانوں کی غیرت کو صاحبِ تمثیل کتابوں کے اُوراق میں خندہ زن کر دیں۔
ذرا سوچئیے گا ضرور میرے دوستو!
کہ ہم چینی ، گڑ یا گوشت کے چند کلو کسی کاغذ یا کسی تھیلی میں بند کر کے لاتے ہیں ۔کہ کہیں اس پر مکھیاں نہ بیٹھ جائیں مگر کیا بنتِ حوا کی عصمت گوشت کے چند سیر سے بھی ارضاں ہے ۔جسے بن ڈھکے بازار کی زینت بنا دیتے ہو!
بس اتنا کہوں گا
کہ چھو نہ سکتی تھی کبھی جسکو فرشتوں کی نظر
آج وہ بنتِ حوا رونقِ بازار نظر آتی ہے۔۔۔
از۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صلاح الدین
ذرا سوچئیے گا ضرور میرے دوستو!
کہ ہم چینی ، گڑ یا گوشت کے چند کلو کسی کاغذ یا کسی تھیلی میں بند کر کے لاتے ہیں ۔کہ کہیں اس پر مکھیاں نہ بیٹھ جائیں مگر کیا بنتِ حوا کی عصمت گوشت کے چند سیر سے بھی ارضاں ہے ۔جسے بن ڈھکے بازار کی زینت بنا دیتے ہو!
بس اتنا کہوں گا
کہ چھو نہ سکتی تھی کبھی جسکو فرشتوں کی نظر
آج وہ بنتِ حوا رونقِ بازار نظر آتی ہے۔۔۔
از۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صلاح الدین