ام اویس
محفلین
ذاتی پسند بہت بڑی رکاوٹ ہے حق پسندی میں ۔۔۔۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم سب اپنی اپنی خواہشات کے پجاری بن گئے ہیں ۔ زندگی کا کوئی شعبہ دیکھ لیجیے جہاں اپنی پسند اور اپنی غرض سے کسی کی سوچ یا قانون کا ٹکراؤ ہوا وہیں اختلاف کی بنا رکھ دی ۔ اپنی بات بالکل درست اور دوسرے کی بات بالکل غلط قرار دے دی جاتی ہے ۔ حالانکہ الله تعالی صاف صاف حکم دیتا ہے کہ جب بھی کسی مسئلہ کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش آئے تو اس کا حل الله اور اس کے رسول نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات میں ڈھونڈو ۔
آج سچائی ، دیانت داری ، صلہ رحمی ، انصاف یہاں تک کہ عبادات کا معیار بھی ذاتی پسند اور ناپسند پر قائم ہے ۔
تعلیم کا انتخاب ہو یا معاش کمانے کی فکر ، نکاح و شادی کا معاملہ ہویا موت و میت کا مسئلہ عام زندگی کا کوئی معاملہ ہو یا خوشی کا کوئی خاص تہوار ہر معاملے میں ذاتی پسند و ناپسند کو اہمیت حاصل ہے ۔
اسلام کسی معاملے میں کیا حکم دیتا ہے اس کی پرواہ چھوڑ کر یہ فکر سر پر سوار رہتی ہے کہ معاشرے میں اس بات سے ہمارے مرتبے اور مقام کو کوئی نقصان نہ پہنچے ۔
حالانکہ ایک مسلمان جب کلمہ لا اله الا الله محمد رسول الله پڑھ لیتا ہے تو وہ اپنی روح اور جسم کے تمام تر اختیارات الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے احکام کے تابع کر دینے کا عہد کر لیتا ہے ۔ جب اس نے اپنے آپ کو الله کی بندگی میں دے دیا تو اب کسی بھی معاملے میں اس کا اختیار باقی نہیں ۔ عبادت کا مطلب ہی غلامی ہے ۔۔۔ اور غلام کی کیا جراءت کہ وہ مالک کے حکم کی سرتابی کرے ۔
یا تو انسان اپنی ذات کا غلام رہ سکتا ہے یا پھر اپنے معبود حقیقی الله جل شانہ کا ۔۔۔ اس لیے بندہ کو صرف دعوی غلامی زیب نہیں دیتا ۔۔۔ اسے چاہیے کہ اپنے تمام تر معاملات خواہ وہ دنیاوی ہوں یا دینی ، خواہ وہ معاشی ہوں یا معاشرتی ، خواہ وہ گھریلو ہوں یا بازار و کاروبار کے تمام تر کو الله کے حکم اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے تابع کرے ۔
صرف یہی وہ صورت ہے جس میں مسلمان اپنی خواہشات کے بت کی عبادت سے بری ہو سکتا ہے ۔ اور اپنے دعوٰی مسلمانی کو سچا ثابت کر سکتا ہے ۔ اور حق پرستی کے فریب کا پردہ چاک کر سکتا ہے
حقیقت یہ ہے کہ ہم سب اپنی اپنی خواہشات کے پجاری بن گئے ہیں ۔ زندگی کا کوئی شعبہ دیکھ لیجیے جہاں اپنی پسند اور اپنی غرض سے کسی کی سوچ یا قانون کا ٹکراؤ ہوا وہیں اختلاف کی بنا رکھ دی ۔ اپنی بات بالکل درست اور دوسرے کی بات بالکل غلط قرار دے دی جاتی ہے ۔ حالانکہ الله تعالی صاف صاف حکم دیتا ہے کہ جب بھی کسی مسئلہ کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش آئے تو اس کا حل الله اور اس کے رسول نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات میں ڈھونڈو ۔
آج سچائی ، دیانت داری ، صلہ رحمی ، انصاف یہاں تک کہ عبادات کا معیار بھی ذاتی پسند اور ناپسند پر قائم ہے ۔
تعلیم کا انتخاب ہو یا معاش کمانے کی فکر ، نکاح و شادی کا معاملہ ہویا موت و میت کا مسئلہ عام زندگی کا کوئی معاملہ ہو یا خوشی کا کوئی خاص تہوار ہر معاملے میں ذاتی پسند و ناپسند کو اہمیت حاصل ہے ۔
اسلام کسی معاملے میں کیا حکم دیتا ہے اس کی پرواہ چھوڑ کر یہ فکر سر پر سوار رہتی ہے کہ معاشرے میں اس بات سے ہمارے مرتبے اور مقام کو کوئی نقصان نہ پہنچے ۔
حالانکہ ایک مسلمان جب کلمہ لا اله الا الله محمد رسول الله پڑھ لیتا ہے تو وہ اپنی روح اور جسم کے تمام تر اختیارات الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے احکام کے تابع کر دینے کا عہد کر لیتا ہے ۔ جب اس نے اپنے آپ کو الله کی بندگی میں دے دیا تو اب کسی بھی معاملے میں اس کا اختیار باقی نہیں ۔ عبادت کا مطلب ہی غلامی ہے ۔۔۔ اور غلام کی کیا جراءت کہ وہ مالک کے حکم کی سرتابی کرے ۔
یا تو انسان اپنی ذات کا غلام رہ سکتا ہے یا پھر اپنے معبود حقیقی الله جل شانہ کا ۔۔۔ اس لیے بندہ کو صرف دعوی غلامی زیب نہیں دیتا ۔۔۔ اسے چاہیے کہ اپنے تمام تر معاملات خواہ وہ دنیاوی ہوں یا دینی ، خواہ وہ معاشی ہوں یا معاشرتی ، خواہ وہ گھریلو ہوں یا بازار و کاروبار کے تمام تر کو الله کے حکم اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے تابع کرے ۔
صرف یہی وہ صورت ہے جس میں مسلمان اپنی خواہشات کے بت کی عبادت سے بری ہو سکتا ہے ۔ اور اپنے دعوٰی مسلمانی کو سچا ثابت کر سکتا ہے ۔ اور حق پرستی کے فریب کا پردہ چاک کر سکتا ہے