حق گو منصف ۔۔ نزہت وسیم

ام اویس

محفلین
سنو اسلاف کا قصہ
سنو انصاف کا قصہ
خلافت کا زمانہ تھا
زمانہ یہ سہانہ تھا

خوشی کا دور دورہ تھا
کسی کا خوف تھوڑا تھا
دین کی حکمرانی تھی
علم کی قدر دانی تھی

فن و حرفت کا چرچا تھا
امن قائم ہر اِک جا تھا
نظامِ عدل پکا تھا
سفارش تھی نہ سکّہ تھا

خلیفہ شان والا تھا
بڑی ہی آن والا تھا
تھا نام ہارون رشید اس کا
جہاں تھا معترف اس کا

عدالت کام تھا جن کا
ابو یوسف تھا نام ان کا
وہ علم اور آن والے تھے
بہت ایمان والے تھے

اصول جتنے بھی تھے ان کے
شریعت سے نہ باہر تھے
کوئی ادنٰی تھا یا اعلی
عدالت سے نہ تھا بالا

کیا تھا اس عدالت میں
مقدمہ اک خلیفہ نے
مقدمے کی یہ صورت تھی
گواہی کی ضرورت تھی

خلیفہ نے گواہ بھیجا
جو کہ اس کی نظر میں تھا
بڑا قابل وزیر اپنا
فضل نامی مشیر اپنا

گواہی مسترد کردی
نہ قاضی نے وقعت کچھ دی
خلیفہ نے سبب پوچھا
کہا " خادم ہے یہ تیرا

شریعت میں غلاموں کی
نہیں وقعت گواہی کی
تقاضا ہے عدالت کا
نہیں اس میں دخل میرا"

خلیفہ نے یہ بتلایا
" مصاحب خاص ہے میرا
غلامی میں نہیں میری
غلط فہمی ہے یہ تیری"

کہا سُن کر یہ قاضی نے
" ہے کانوں سے سنا میں نے
بھرے دربار میں اس نے
کہا تھا یہ وضاحت سے

"غلام ہوں آپ کا آقا"
نہیں ایسا ، تو ہے جھوٹا
اور جھوٹے کی گواہی بھی
کبھی مانی نہیں جاتی "

اگرچہ تھا کہا یونہی
تھا مقصد بس خوشامد ہی
مگر یہ تو حقیقت تھی
گواہی اب ناممکن تھی

سنا کر حکم قاضی نے
بنا ججھکے خلیفہ سے
حقیقت یہ عیاں کر دی
مثال ایسی بیاں کردی

کہ قاضی با شریعت ہو
فقط الله سے ڈرتا ہو
تو ادنٰی ہو کہ ہو اعلٰی
نہیں انصاف سے بالا

قضاة نمبر ۔ ماہنامہ بقعۂ نور
جولائی 2017
 
Top