اس دنوں میں حكیم اللہ محسود كی ہلاكت كے بعد طالبان كے در میاں كشیدگیوں كے بارے میں بہت سے رپورٹز جاری كئے گئے ہیں جن كو پڑھ كر ذھن میں بہت سے سوالات پیدا ہو جاتے ہیں . جس رپورٹز كو میں نے پڑہا ہے اس كے كچھ پوئنٹس میں پیش كرتا ہوں
حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد ملا فضل اللہ کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا نیا امیر مقرر کرنے پر طالبان کمانڈروں میں پرانی قبائلی دشمنیاں شدت اختیار کر گئیں ہیں . کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اللہ محسود کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد 7 نومبر کو نئے امیر کی تقرری کے لئے طالبان کی شوریٰ کا اجلاس ہوا، شوریٰ کی جانب سے جب نئے امیر کی حیثیت سے ملا فضل اللہ کے نام کا اعلان کیا گیا تو وہاں موجود کئی اہم کمانڈرز فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے شوریٰ سے اٹھ کر باہر نکل گئے، اجلاس سے جانے والے ایک طالبان کمانڈر نے ملا فضل اللہ کے نام پر وہاں موجود لوگوں سے کہا کہ ’’طالبان کی قیادت برباد ہوگئی‘‘ . شوریٰ کا بائیکاٹ نہ کرنے والے کمانڈرز نے ملا فضل اللہ کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا اور حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے عزم کو دہرایا
ملا فضل اللہ سے قبل کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی سربراہی محسود قبائل کے پاس ہی رہی ہے اور طالبان کے زیادہ تر کمانڈرز ملا فضل اللہ کے محسود قبائل سے تعلق نہ ہونے پر اسے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی امارت کا اہل نہیں سمجھتے، حکیم اللہ محسود کے وقت میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حکومت سے امن مذاکرات کی حامی بھری تھی تاہم ملا فضل اللہ نے امارت سنبھالنے کے بعد مذاكرات كی بات كو تكڑا دیا ہے اور اس بات پر محسود کمانڈرز ملا فضل اللہ کے امیر بننے پر خوش نہیں اور یہی وجہ ہے کہ طالبان قیادت میں بھی اندرونی طور پر بھی کشیدگی جاری ہے جو کسی بھی وقت منظر عام پر آسکتی ہے
آج ملا فضل اللہ ، ٹی ٹی پی كا رہنما ہو كر افغان صوبے نورستان میں موجود ہے جہاں وہ امریکی ڈرون حملوں سے محفوظ رہنا چاہتا ہے . مگر وہ كب تك وہاں رھے گا اور كب پاكستان آ كر اپنا عہدہ سمبھالے گا ، كسی كو كچھ پتہ نہیں ہے
حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد ملا فضل اللہ کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا نیا امیر مقرر کرنے پر طالبان کمانڈروں میں پرانی قبائلی دشمنیاں شدت اختیار کر گئیں ہیں . کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اللہ محسود کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد 7 نومبر کو نئے امیر کی تقرری کے لئے طالبان کی شوریٰ کا اجلاس ہوا، شوریٰ کی جانب سے جب نئے امیر کی حیثیت سے ملا فضل اللہ کے نام کا اعلان کیا گیا تو وہاں موجود کئی اہم کمانڈرز فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے شوریٰ سے اٹھ کر باہر نکل گئے، اجلاس سے جانے والے ایک طالبان کمانڈر نے ملا فضل اللہ کے نام پر وہاں موجود لوگوں سے کہا کہ ’’طالبان کی قیادت برباد ہوگئی‘‘ . شوریٰ کا بائیکاٹ نہ کرنے والے کمانڈرز نے ملا فضل اللہ کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا اور حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے عزم کو دہرایا
ملا فضل اللہ سے قبل کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی سربراہی محسود قبائل کے پاس ہی رہی ہے اور طالبان کے زیادہ تر کمانڈرز ملا فضل اللہ کے محسود قبائل سے تعلق نہ ہونے پر اسے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی امارت کا اہل نہیں سمجھتے، حکیم اللہ محسود کے وقت میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حکومت سے امن مذاکرات کی حامی بھری تھی تاہم ملا فضل اللہ نے امارت سنبھالنے کے بعد مذاكرات كی بات كو تكڑا دیا ہے اور اس بات پر محسود کمانڈرز ملا فضل اللہ کے امیر بننے پر خوش نہیں اور یہی وجہ ہے کہ طالبان قیادت میں بھی اندرونی طور پر بھی کشیدگی جاری ہے جو کسی بھی وقت منظر عام پر آسکتی ہے
آج ملا فضل اللہ ، ٹی ٹی پی كا رہنما ہو كر افغان صوبے نورستان میں موجود ہے جہاں وہ امریکی ڈرون حملوں سے محفوظ رہنا چاہتا ہے . مگر وہ كب تك وہاں رھے گا اور كب پاكستان آ كر اپنا عہدہ سمبھالے گا ، كسی كو كچھ پتہ نہیں ہے