سر پھرا آدمی اور ادھ کھلا دروازہ
ڈاکٹر رؤف امیر مرحوم کے اولین شعری مجموعے پر ایک تعارفی مضمون
۔(مذکورہ کتاب کی تعارفی تقریب میں پیش کیا گیا ۔ غالباً 1995)۔
رؤف امیر سے میری خاصی پرانی شناسائی ہے، اس کی شخصیت اور فن سمیت۔ تاہم یہ شناسائی کچھ ایسی ہے جیسے میں ایک ادھ کھلے دروازے کے اُدھر کھڑا ہوں اور موصوف کی ذات اور شاعری کے صحن میں مجھے سب کچھ تو نہیں البتہ بہت کچھ دکھائی دے رہا ہے اور اس سے زیادہ کچھ وہ ہے جو میری نظروں سے اوجھل ہے۔ گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ، کبھی آگ کبھی پانی، کبھی آنکھیں فرشِ راہ اور کبھی شناسائی سے منکِر، کبھی یوں گھل مل جانا کہ ’درمیاں سے ہوا نہ گزرے‘ اور کبھی ’سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا‘۔
رؤف امیر کی شخصیت ہی نہیں شاعری کے متعلق بھی میرا یہی احساس رہا ہے۔ اور آج بھی جب اُس کے بارے میں سوچتا ہوں تو اکثر الجھ جاتا ہوں کہ اُسے کیا نام دوں۔ اچھا ہوا کہ اُس نے خود کو ’سر پھرا آدمی‘ کہہ کر میری یہ مشکل آسان کر دی۔ سچ بھی یہی ہے کہ ادب اور بالخصوص شعر سے وابستہ ہر شخص، میرے سمیت، کسی نہ کسی حد تک ضرور سر پھرا ہوا کرتا ہے۔ یوں نہ ہوتا تو آج ادب کہاں رہ سکتا تھا۔
اُس کا شعری مجموعہ ’درِ نیم وا‘ میرے لئے کسی حیرت کا باعث نہیں بنا۔ حلقہ تخلیقِ ادب (ٹیکسلا) میں اُس کے ساتھ رسمی اور غیر رسمی ملاقاتیں اور ایک دوسرے کے گھر پر لمبی لمبی رات گئے تک چلنے والی نشستیں جہاں لفظوں اور لہجوں کو گرمایا کرتی تھیں، وہیں دلوں کو بھی گرما دیا کرتیں۔ میں نے ڈانگری والے محمد رؤف امیر خانوی کو رؤف امیر بنتے دیکھا اور گاؤں والے رؤف امیر کو گاؤن والا پروفیسر بنتے بھی۔ رؤف امیر تب بھی غزل کہتا تھا، اب بھی غزل کہتا ہے۔اس کی شاعری اس وقت بھی بھرپور تھی، گاؤں کی زندگی کی طرح اور آج بھی بھرپور ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، ہم ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی غزلیں کہا کرتے تے۔ اسے کوئی مسابقت کا جذبہ کہہ دے یا متابعت کا، کہ تب غزلیں کہنے کو جی چاہتا تھا۔ بسا اوقات ایک دن میں دو، دو، تین تین غزلیں بھی کہیں۔ میں اس شعر زار میں رؤف امیر کے بہت بعد وارد ہوا ہوں اس طرح ایک تسلیم ناکردہ قسم کا احترام بہر طور اُس کے لئے موجود رہا ہے۔ تسلیم نا کردہ سے میرا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ میں نے اسے شاعر تسلیم نہیں کیا۔ تسلیم کیا! مگر اِس فرق کے ساتھ کہ میں، اختر شادؔ اور صدیق ثانیؔ اُس کے سامنے اس کے شعروں کی غلطیاں گنواتے اور اس کی پیٹھ پیچھے اُس کی شاعری کو سراہتے۔ ایک طرف غیبت کا یہ منفرد انداز تھا اور دوسری طرف رؤف امیر کا رویہّ تھا جو رؤف امیر ہی کا ہو سکتا ہے، شعر کے ساتھ بھی اور شاعروں کے ساتھ بھی۔.... ذاتی حوالوں سے بات چلتی رہی تو بہت دور چلی جائے گی۔ جو کچھ رؤف امیر نے حلقہ تخلیق ادب ٹیکسلا کے ساتھ رہ کر لکھا وہ حلقہ کے ریکارڈ پر تو تھا ہی، اُس کا بیشتر حصہ اس کتاب میں بھی شامل ہے اور کئی مصرعے تبدیل شدہ ہیں۔ وہ خود کہا کرتا ہے: میں اپنے شعروں کو پالش کرتا رہتا ہوں۔
شعر کیا ہے؟ اِس پر بہت کچھ کہا جاتا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے۔ میرے نزدیک شعر اپنی ذات کے اظہار کا ایک باوقار سلیقہ ہے۔ موضوع اور صنف کے علاوہ اِس کی لفظیات، واردات، قافیہ ، وزن، ترکیب سازی، تخیل،اور ردیف تک کا تعلق براہ راست شاعر کے اپنے تجربے، تجزیے اور شخصیت سے ہوتا ہے بلکہ ایک طرح سے شعر اپنے شاعر کی ذات کا پرتو ہوتا ہے۔ رؤف امیر کی شخصیت میں جو رنگا رنگی ملتی ہے وہ اس کتاب میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اُس نے اپنی ذات کے حوالے سے بات کی ہے۔ اپنی ذات کے حوالے سے بات کرنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی، اور جب آپ کا اپنا مقام (ادبی، سماجی یا کسی بھی اور حوالے سے) آپ کو محتاط رویہ اختیار کرنے پر مجبور کرے تو یہ کام مشکل تر ہے۔ رؤف امیر اس مشکل مرحلے سے کچھ اِس طرح گزرتا ہے کہ:
بکھیر دیتے ہیں رات کو خواب میرا پیکر
میں بکھرے پیکر کو صبح اٹھ کر سنوارتا ہوں
امیر کس کو خبر تھی مری کہ یہ بچہ
بڑا ہوا تو بہت با شعور نکلے گا
اپنے ظرفِ نظر پہ ہے موقوف
جام آدھا بھرا ہے یا خالی
ارد گرد کے لوگ بھی اپنے حوالے میں شامل ہوتے ہیں۔ ماں باپ، بہن بھائی، بیوی بچے، رشتہ دار، دوست، دشمن سب مل کر ایک ماحول کی تشکیل کرتے ہیں۔ رشتوں کی اِس دھوپ چھاؤں میں ایک حساس آنکھ کا ردِّ عمل رؤف امیر کے ہاں اِس طرح ملتا ہے:
نہیں تھی ان کو کوئی آنکھ دیکھنے والی
مگر یہ بات نہیں جنگلوں میں پھول نہ تھے
اور یہ ساری غزل:
وہ کس لئے نہ رہے سچ کے نور سے عاری
کہ جس دیار میں رہتے ہوں دل کے کالے لوگ
انہی لوگوں میں کچھ ایسے ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے انسان کے قریب تر ہوتے ہیں۔ خون اور نسل کے رشتوں کی اہمیت مسلّمہ ہے اور یہ آج کے دور کا المیہ ہے کہ اکثر رنجشیں، بلکہ عداوتیں، انہی قرابت داروں سے ہوا کرتی ہیں۔ وجہ غالباً یہ ہے کہ انسان اپنے قرابت داروں سے دانستہ یا نا دانستہ طور پر کچھ امیدیں وابستہ کر لیتا ہے کہ خون، نسل اور فطرت سے فرار ممکن نہیں ہوا کرتا۔ اپنے قریبی رشتہ داروں، ہم نشینوں، دوستوں اور ایسے افراد کے ساتھ جو دھڑکنوں کے قریب رہتے ہیں، ایسا رویہ ممکن نہیں کہ اُن کی باتوں کو یا ان کے رویوں کو نظر انداز کر دیا جائے۔ انسان کسی اپنے کی کہی ہوئی ایک بات سے مر جائے تو بھی بعید نہیں۔رؤف امیر نے ان تعلقات کو دو سطحوں پر دیکھا ہے؛ ایک عمومی معاشرتی رویے کے طور پر اور دوسرے اپنے ذاتی حوالے سے اپنے تجربات کی روشنی میں جس کا عکس کتاب میں شامل نظم ’گھر آنگن‘ میں ملتا ہے۔ وہی احساس پوری شدت کے ساتھ غزلوں میں بھی آیا ہے:
میں آپ اپنے گلے لگ کے بین کرتا ہوں
رؤف امیر مرے وِیر مرے سارے خواب
ہم اگر دل کو کھلا رکھیں محبت سے رہیں
پھر تو یہ چھوٹا سا آنگن بھی مرے بھائی بہت
تو جو سچا ہے تو آواز لرزتی کیوں ہے
تجھ سے کیوں لہجے پہ قابو نہیں پایا جاتا
اس پر مستزاد شاعر کا وہ احساس ہے جو ’ناراض ہے ‘ ردیف والی پوری غزل میں نکھر کر سامنے آتا ہے:
کوئی ایسا وصف ہے مجھ میں جو اوروں میں نہیں
ورنہ مجھ سے کیوں ہر اِک چھوٹا بڑا ناراض ہے
تعلقات اور احساس کی اس کشمکش نے رؤف امیر کے لہجے میں ایک درشتی اور کھردرے پن کو جگہ دی ہے جس میں بلا کی کاٹ ہے۔ اس کے ہاں ’عدو‘ ایک مضبوط علامت ہے جو میرے نزدیک رؤف امیر کے احساس کی اسی کاٹ کا حاصل ہے۔ عدو، جنگ، فتح اور شکست کے حوالے سے اس نے فکر انگیز اور خوبصورت شعر کہے ہیں:
سوچا تو میرے ہاتھ مرے پیر جیسے غیر
سمجھا تو میرے ساتھ مرے رو برو عدو
میرے پیارے عدو مجھ سے محتاط رہ
اے مری جان میں سر پھرا آدمی
امیر اب مجھے مرنے سے ڈر نہیں لگتا
بہت دنوں سے کئی قاتلوں میں رہتا ہوں
بٹے ہوں دل ہی جب خانہ بخانہ
صفیں شانہ بشانہ کیا بنانا
رؤف امیر نے اس تصور کو وسیع تناظر میں دیکھا ہے اور انہیں مثبت اور منفی رویوں کی جنگ تک لے گیا ہے۔ نیکی اور بدی کی کشمکش کے ازلی سلسلے کا انسانی سطح پر تجزیہ کیا جائے تو یہ انہی مثبت اور منفی رویوں کی جنگ ہے۔ دو رُخی، جھوٹ، مکر و فریب، خود غرضی، جبر اور ایسے دیگر منفی رویوں پر اُس نے بڑی فن کاری کے ساتھ نکتہ چینی کی ہے۔ اس نے سیاست گری کے رویوں پر کڑی گرفت کی ہے اور اعلیٰ انسانی اقدار کا پرچار کیا ہے۔اور، تلخ فکری کے اس ساریعمل میں شعر کے تقاضوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا:
وہ جن کے ہیں امیرؔ انداز ادنیٰ
انہی کا نام اعلیٰ پڑ گیا ہے
ثمر کیسا شجر پہ کوئی پتا بھی نہیں ہے
مگر ہم ہیں کہ شاخوں کو جھنجھوڑے جا رہے ہیں
رہیں گے یونہی اگر کھلی گفتگو پہ پہرے
تو اگلی نسلیں کریں گی باتیں پہیلیوں میں
یہاں ایک خوبصورت مطلع ذہن میں آ گیا ہے، آپ بھی دیکھتے چلئے:
مرے ہونٹوں پہ تالا پڑ گیا ہے
یہ کس پتھر سے پالا پڑ گیا ہے
وطن ایک خطۂ زمین سے آگے کی چیز ہوتا ہے۔ ہماری سرزمینِ وطن کی حیثیت ایک نظریے، منتہائے نظر اور مقصد کی ہے۔ قیام پاکستان کے مقاصد میں انسانی فلاح کے الوہی پروگرام پر عمل درآمد کرنا سرِ فہرست تھا۔ دو نسلیں گزر گئیں آج بھی ہم یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ اس پروگرام کی طرف کوئی پیش رفت ہوئی بھی ہے یا نہیں۔ اس وطن کے حصول کے لئے دی گئی قربانیاں جن میں جان سے زیادہ قیمتی عصمتیں شامل ہیں اُن کا حاصل کیا رہا؟ اور ہمارا مستقبل کیا ہے؟ اس طرح کے بے شمار سوال ہیں جو ہر ذی شعور کو کچوکے لگاتے رہتے ہیں۔ حب وطن ایک مسلمہ جذبہ ہے اور وطن میں پائی جانے والی ناہمواری کا ذکر اس جذبے کے خلاف نہیں۔ یہ وہ نازک موضوع ہے جس پر بات کرنا اُتنا ہی مشکل ہوتا ہے جتنی شدت احساس میں پائی جاتی ہے۔ ایک نکتہ اور بھی ہے کہ وطن کا تصور جب وطن ایک مشن کا نام ہو، ایک خطے کی سطح سے اوپر اٹھ کر پورے عالم انسانیت پر پھیل جاتا ہے۔ اس حوالے سے رؤف امیر کے افکار کچھ اس طرح ہیں:
ہمارے کعبے پہ کیسے قابض ہوا وہ دشمن
کہ جس کا ایمان بھی نہ فتحِ مبین پر تھا
کھلے ہیں پھول مگر غیر کے تسلط میں
برنگِ وادیٔ کشمیر مرے سارے خواب
اب نئے انداز سے ہے شہر یاروں کا سلوک
حل نہیں کوئی مگر خلقت کی شنوائی بہت
تم در و دیوار کے خوابوں میں کھوئے ہو امیر
نامکمل ہے عمارت کی ابھی بنیاد بھی
جنگ میں کوئی نہ پھر میرے مقابل ٹھہرے
کاش پھر سے مرا سویا ہوا بازو جاگے
رؤف امیر کی زیرِ نظر کتاب ’درِ نیم وا‘ دنیائے فکر و سخن کا ایسا ادھ کھلا دروازہ ہے جس کی اوٹ میں احساس کی تپش بھی ہے، محرومیوں کی آنچ بھی، اندیشوں کے سیاہ ناگ بھی، درد کی ٹیسیں بھی اور عزم و ہمت کی روشنی بھی:
نفرتوں کی ہواؤں کے آگے
ہم جلائیں گے پیار کے دیپک
یہ ایسے صاحبِ صلاحیت شاعر کی کوشش ہے جو بے شمار امکانات لئے ہوئے ہیں، جس کا اندازِ فکر عمیق اور جس کا لہجہ خلیق ہے۔ غزل کا مرکزی، آفاقی اور سدا بہار موضوع تعلقِ خاطر ہے۔ رؤف امیر کی غزل میں سے معانی کی روانی،تراکیب کی گہرسازی، لفظیات کی جادوگری، اختصار کی جامعیت، ایک پر تغزل اور پر وقار لہجہ، آس اور یاس کی دھوپ چھاؤں، گل ریزیاں اور دیگر خصوصیات کی حامل چند مثالیں:
رنگ کیا کیا نہ مہ و مہر و فلک نے بدلا
اک نہ بدلا تو مرے کوکبِ تقدیر کا رنگ
کہہ کے دکھلائیں غزل کوئی اُن آنکھوں جیسی
کیوں امیر، آپ کو دعویٰ ہے سخن دانی کا
اتنا اونچا امیر کیا اُڑنا
خاک آباد ہے خلا خالی
دھوپ دونوں کو جدا کر دے امیر
گل سے جتنی دیر میں شبنم کھلے
تیرے غم کا دل پر کوئی بوجھ نہیں
پلکیں کب آنکھوں پر بھاری لگتی ہیں
رؤف امیر ایک گاؤں سے آیا ہے۔ زبان اور لب و لہجہ میں شہری تہذیب سے فرق جو اُس کی عمومی گفتگو میں ہے اُس کی شاعری میں بھی ہے اور مزا دیتا ہے۔ سادہ زندگی، دور تک لہلہاتے کھلے کھیت اور کھلے دل، درخت اور باہمی تحفظ کا جذبہ، کھنکھناتے گھنگرو اور کھلکھلاتے قہقہے، شفاف نیلا آسمان اور بے کراں محبتیں، فطرت کے غیر مغشوش مظاہر جو دیہی زندگی کے بنیادی عناصر ہیں، اگرچہ اب ان کی گرم جوشی مائل بہ زوال ہے، معدوم بہر حال نہیں ہوئی۔ ایسے فطری ماحول کے پروردہ شاعر کی نظر مفطور سے فاطر کی طرف، مکاں سے لامکاں کی طرف، محدودیت سے لا محدودیت کی طرف اٹھتی ہے جو اُس کی ذات ایک عجیب و غریب ہلچل کا شکار ہو جاتی ہے۔ اور یوں، وہ شاعر اپنے لسانی رویوں کے ساتھ ساتھ اپنی فکری پرواز اور اندرونی کرب کا کچھ حصہ بھی ادب کو دان کر دیتا ہے:
امیر اپنے دل نادان کو اک حد میں رکھیں
بگڑتا ہی چلا جائے گا جتنا پیار دیں گے
کام سے لوٹا نہیں مزدور باپ
سو گئے بچے کہانی کے بغیر
ضرور ملنا ہے اے غمِ رزق اُن سے مجھ کو
بنے گی اک روز قبر گاؤں کے بیلیوں میں
اگر نہ خود تو امیر مزدوریاں کرے گا
تو کون تیری ضرورتیں پوریاں کرے گا
تتلیاں، شوق، لہو، باڑ، بلکتے بچے
رخم لے آئے ہیں رنگوں کو پکڑنے والے
اِس زمانے کی الجھی ہوئی ڈور کا
اک سرا ہے خدا، اک سرا آدمی
زمیں پہ بھیجا گیا مجھ کو زندگی دے کر
اور اب فلک سے سندیسے اجل کے آتے ہیں
ہے نا، سر پھرا آدمی! جو اِس دارِ فنا میں ابدی زندگی کا خواہاں ہے اور عدو سے پیار بھی کرتا ہے اور خود سے محتاط رہنے کی نصیحت بھی کرتا ہے:
میرے پیارے عدو مجھ سے محتاط رہ
اے مری جان، میں سر پھرا آدمی
٭٭٭٭٭٭٭