حسان خان
لائبریرین
[حلقه]
دخترک خنده کنان گفت که چیست
رازِ این حلقهٔ زر
رازِ این حلقه که انگشتِ مرا
این چنین تنگ گرفتهست به بر
رازِ این حلقه که در چهرهٔ او
این همه تابش و رخشندگی است
مرد حیران شد و گفت:
حلقهٔ خوشبختیست، حلقهٔ زندگی است
همه گفتند: مبارک باشد
دخترک گفت: دریغا که مرا
باز در معنیِ آن شک باشد
سالها رفت و شبی
زنی افسرده نظر کرد بر آن حلقهٔ زر
دید در نقشِ فروزندهٔ او
روزهایی که به امیدِ وفای شوهر
به هدر رفته، هدر
زن پریشان شد و نالید که وای
وای، این حلقه که در چهرهٔ او
باز هم تابش و رخشندگی است
حلقهٔ بردگی و بندگی است
(فروغ فرخزاد)
تهران - بهار ۱۳۳۴هش
[حلقہ]
چھوٹی لڑکی نے ہنستے ہوئے کہا کہ کیا ہے
اس زرّیں حلقے کا راز
اس حلقے کا راز کہ جس نے میری انگشت کو
اس قدر تنگی سے آغوش میں لیا ہوا ہے
اس حلقے کا راز کہ جس کے چہرے میں
اتنی زیادہ تابش و رخشندگی ہے
مرد حیران ہوا اور کہا:
خوش بختی کا حلقہ ہے، زندگی کا حلقہ ہے
سب نے کہا: مبارک ہو
چھوٹی لڑکی نے کہا: افسوس کہ مجھے
ابھی بھی اس کے معنی میں شک ہے
کئی سال گزر گئے اور ایک شب
ایک افسردہ زن نے اُس زرّیں حلقے پر نظر کی
اُس کے فروزندہ نقش میں اُس نے دیکھے
وہ ایام جو شوہر کی وفا کی امید میں
ضائع ہو گئے تھے، ضائع۔۔۔
زن پریشان ہوئی اور نالہ زن ہوئی کہ وائے
وائے، یہ حلقہ - کہ جس کے چہرے میں
ابھی بھی تابش و رخشندگی ہے -
غلامی و بندگی کا حلقہ ہے
(فروغ فرخزاد)
تہران - ۱۹۵۵ء
× 'حلقہ' انگشتری کو بھی کہتے ہیں۔
دخترک خنده کنان گفت که چیست
رازِ این حلقهٔ زر
رازِ این حلقه که انگشتِ مرا
این چنین تنگ گرفتهست به بر
رازِ این حلقه که در چهرهٔ او
این همه تابش و رخشندگی است
مرد حیران شد و گفت:
حلقهٔ خوشبختیست، حلقهٔ زندگی است
همه گفتند: مبارک باشد
دخترک گفت: دریغا که مرا
باز در معنیِ آن شک باشد
سالها رفت و شبی
زنی افسرده نظر کرد بر آن حلقهٔ زر
دید در نقشِ فروزندهٔ او
روزهایی که به امیدِ وفای شوهر
به هدر رفته، هدر
زن پریشان شد و نالید که وای
وای، این حلقه که در چهرهٔ او
باز هم تابش و رخشندگی است
حلقهٔ بردگی و بندگی است
(فروغ فرخزاد)
تهران - بهار ۱۳۳۴هش
[حلقہ]
چھوٹی لڑکی نے ہنستے ہوئے کہا کہ کیا ہے
اس زرّیں حلقے کا راز
اس حلقے کا راز کہ جس نے میری انگشت کو
اس قدر تنگی سے آغوش میں لیا ہوا ہے
اس حلقے کا راز کہ جس کے چہرے میں
اتنی زیادہ تابش و رخشندگی ہے
مرد حیران ہوا اور کہا:
خوش بختی کا حلقہ ہے، زندگی کا حلقہ ہے
سب نے کہا: مبارک ہو
چھوٹی لڑکی نے کہا: افسوس کہ مجھے
ابھی بھی اس کے معنی میں شک ہے
کئی سال گزر گئے اور ایک شب
ایک افسردہ زن نے اُس زرّیں حلقے پر نظر کی
اُس کے فروزندہ نقش میں اُس نے دیکھے
وہ ایام جو شوہر کی وفا کی امید میں
ضائع ہو گئے تھے، ضائع۔۔۔
زن پریشان ہوئی اور نالہ زن ہوئی کہ وائے
وائے، یہ حلقہ - کہ جس کے چہرے میں
ابھی بھی تابش و رخشندگی ہے -
غلامی و بندگی کا حلقہ ہے
(فروغ فرخزاد)
تہران - ۱۹۵۵ء
× 'حلقہ' انگشتری کو بھی کہتے ہیں۔
آخری تدوین: