حلوائی کے 'حکیم' بیٹے کا انتظار [احمد حاطب صدیقی غصے میں۔ :) ]

محمداحمد

لائبریرین
حلوائی کے 'حکیم' بیٹے کا انتظار
احمد حاطب صدیقی

کبھی ہوا ہے، نہ ہوگا، کہ ہم ’غلطی ہائے مضامین‘ پر کالم لکھیں، جن لوگوں کے لیے لکھا گیا ہے وہ پڑھ بھی لیں اور پڑھتے ہی اپنا املا درست کرلیں، تلفظ ٹھیک کرلیں اورتعلیم یافتہ لوگوں کی طرح قاعدے کی زبان لکھنے اور بولنے لگیں۔ قواعد و انشا کی کتابوں سے تو کتب خانے بھرے ہوئے ہیں۔ اساتذہ کا کلام اورصاحبِ اُسلوب ادیبوں کی تصانیف بھی جا بجا میسر ہیں۔ ادبی چاشنی سے ترتراتی ہوئی رس بھری زبان لکھنے والے آج بھی ایسی شستہ اُردو لکھ رہے ہیں کہ سیکھنے والے ان سے سبھی کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ پھرکیا وجہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ پر ایک سے ایک بھونڈی زبان بولنے والا بڑبڑ، بڑبڑ بولے جارہا ہے اور صریح اغلاط سے پُر فقرے لکھنے والا صحافی می نویس و می نویس و می نویس کیے جارہا ہے؟ ہمیں تو اس کا سبب یہی نظر آتا ہے کہ بس ایک شے کی کمی ہے۔ وہی شے جس کو بیان کرنے کے لیے طبقۂ عوام میں عام طور پر ایک کہاوت کہی جاتی ہے کہ ’’خدا نے آسمان سے چار کتابیں اُتاریں اور پانچواں ڈنڈا‘‘۔ صاحب! کیا بلیغ بات کہی گئی ہے۔

لغات میں ایک اسمِ کیفیت پایا جاتا ہے ’ہڈ حرام‘۔ اس میں ’ہڈ‘ مخفف ہے ہڈی کا۔ ہڈی بالعموم پالتو کتے کے آگے ڈالی جاتی ہے۔ کتا وفادار جانور ہے، لیکن اگر کسی وجہ سے مالک کی مرضی کے مطابق کام کرنے میں سستی دکھائے یا اپنی نااہلی سے مطلوبہ کام نہ کر پائے تو ’ہڈ حرام‘ کہلاتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے کوئی شخص کسی کا نمک کھا کر اُس سے بے وفائی کرے تو اُسے ’نمک حرام‘ کا لقب مل جاتا ہے۔ ’ہڈ حرام‘ کو دشنام کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے، لہٰذا لغت میں ’ہڈ حرام‘ کے معانی ’بدخصلت، مفت خورا، حرام خور،کام چور، نکما، کاہل، سست، آرام طلب اور ناکارہ‘ وغیرہ دیے گئے ہیں۔ یہ تمام صفات ہمیں اپنے سرکار دربار میں فرداً فرداً یکجا نظر آجاتی ہیں۔ کوئی عادت پختہ ہوجائے تو فقط سمجھانے بجھانے سے نہیں جاتی، اور اگر ’ہڈ حرامی‘ کی عادت پڑ جائے تو وہ پند و نصائح یا تعزیری قوانین سے کبھی ختم نہیں ہوپاتی۔ کتابیں پڑھانے یا تربیتی تقریریں سنانے سے بھی منہ کو لگی ہوئی یہ کم بخت عادت نہیں چھٹتی۔ ’ہڈ حرامی‘ کا علاج صرف ’ڈنڈا‘ ہے۔

قصہ مشہور ہے کہ ایک بادشاہ نے ایسا شفا خانہ قائم کیا جس میں مفت علاج کے علاوہ مریضوں کے مفت قیام اور مفت طعام کی سہولت فراہم تھی۔ انواع و اقسام کی نعمتیں اور دیگر مراعات بھی میسر تھیں۔ شفاخانہ مفت کے مریضوں سے بھر گیا۔ بعض مریضوں نے وہیں مدتِ عمر گزار دی۔ بڑے بڑے حاذق حکیموں کے علاج سے بھی صحت یاب نہ ہوسکے۔ بادشاہ کو پریشانی لاحق ہوگئی۔ اس نے اعلان کروایا کہ جو حکیم ان عمر بھر کے روگیوں کا روگ دور کردے گا اُسے انعام و اکرام اور خلعتِ فاخرہ سے نوازا جائے گا۔ بڑے بڑے نام ور اور ماہر اطبا آئے مگر ’منہ پِٹا کر‘ چلے گئے۔ آخر کو کہانی میں ایک حلوائی کا بیٹا داخل ہوتا ہے۔ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ فقط چند ساعتوں میں سارے مریض ٹھیک کردے گا۔ بادشاہ نے کہا ’’چل بھئی تُو بھی قسمت آزما لے‘‘۔ حلوائی کے فرزند نے ایک بڑا سا کڑھاؤ منگوایا، منوں تیل اور ٹنوں لکڑیاں۔ سب کچھ آگیا تو لکڑیاں جلا کر آگ دہکائی گئی۔ آگ پر کڑھاؤ چڑھایا گیا۔ کڑھاؤ میں تیل کھولایا گیا۔ تیل اچھی طرح جوش مارنے لگا تو پہلا مریض بلایا گیا۔ مریض چلنے پھرنے سے قاصر تھا، سو پلنگ پر لاد کر لایا گیا۔ حلوائی کے پُوت نے پوچھا: ’’باباجی! آپ کب سے شفاخانے میں داخل ہیں؟‘‘ معلوم ہوا ’’چالیس برس سے‘‘۔ پوچھا: ’’ ٹھیک نہیں ہوئے؟‘‘ جواب ملا: ’’نہیں، یہ تکلیف ہے، وہ تکلیف ہے، یہاں درد ہے، وہاں درد ہے‘‘۔ معالج نے مایوسی سے سر ہلایا اور کارندوں سے کہا: ’’یہ بابا لاعلاج ہے۔ اسے ڈنڈا ڈولی کرکے لے جاؤ، کھولتے تیل کے کڑھاؤ میں پھینک آؤ‘‘۔ یہ سنتے ہی لاعلاج بابا یکلخت چھلانگ مار کر پلنگ سے کودا اور ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا: ’’نہیں، نہیں۔ حکیم جی! میں بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں، بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں‘‘۔ حکیم جی نے حکم دیا: ’’شفا خانے کے ہر کمرے میں جاؤ، ہر مریض کو بتاؤ کہ ’میں بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں‘ پھر شفاخانے سے باہر نکل جاؤ‘‘۔ یوں اُس نے واقعی چند ساعتوں میں سارے مریض ٹھیک کردیے۔

ٹھیک اسی طرح اُن تمام لوگوں کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے جنھوں نے ٹھیک نہ ہونے کی قسم کھا رکھی ہے، خواہ وہ سرکاری ’ہڈ حرام‘ ہوں یا غیر سرکاری۔ ذرائع ابلاغ میں اس صفت سے کام لینے کا رواج اتنا بڑھ چکا ہے کہ اُردو کے عام الفاظ جاننے کی کوشش کرنے میں بھی جان نکلتی ہے۔ کام چوری، نکماپن، کاہلی، سستی اور آرام طلبی ایسی کہ اس قسم کی سرخیاں آئے دن پڑھنی پڑتی ہیں: ’’ایڈمنسٹریشن کے لیے آئین پر عمل کرنے کے سوا کوئی چوائس نہیں‘‘۔ ارے بھائی! جس نے بھی یہ سرخی بنائی ہوگی اُس نے یہی سمجھا ہوگا کہ لفظ ‘Choice’ استعمال کرنے کے سوا کوئی ’چارہ‘ نہیں۔ ’ایڈمنسٹریشن‘ کو ’انتظامیہ‘ لکھنے کے لیے لغت دیکھ لینے میں بھی شاید سستی اور کاہلی ہی آڑے آئی ہوگی۔ اس قسم کی سستی اور کاہلی دُور کرنے کو سمجھانے بجھانے اور کالم لکھنے سے کام نہیں چلے گا۔ اس کے لیے اے صاحبو! ’ڈنڈا‘ اشد ضروری ہے۔

ایک خبر ہے۔ ہے تو بہت پُرانی، مگر شاید ہمارے ماہرینِ ابلاغیات کے لیے نئی ہو۔2اپریل 2023ء کو اٹلی کی پارلیمنٹ میں ایک مسودۂ قانون پیش کیا گیا جس کی رُو سے اطالوی زبان میں انگریزی زبان کے الفاظ استعمال کرنے کو قابلِ سزا جرم ٹھیرایا گیا۔ اس قانون کی خلاف ورزی پر ایک لاکھ یورو جرمانہ بھی مقرر کیا گیا۔ ایسے ہی قوانین چین، جاپان اور فرانس میں بھی موجود ہیں۔ہمارے ابلاغی ادارے جن ممالک کی نقل کرتے ہیں آخر اُن ممالک کی ’لسانی حکمتِ عملی‘ کی نقالی کیوں نہیں کرتے؟دنیا کی کوئی مہذب قوم اپنے ذرائع ابلاغ کویہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ قومی زبان کو غلط سلط یا جس طرح چاہیں، بولا کریں، لکھا کریں۔ہر قوم اپنی زبان کے معیار کو برقرار رکھتی ہے۔ بی بی سی، وائس آف امریکہ،سی این این اور الجزیرہ سمیت دیگر عرب نشریاتی اداروں یا ایران،چین، جاپان، جرمنی، فرانس سمیت کسی ملک کے نشریاتی اداروں کو ہمارے ذرائع ابلاغ کی سی بے لگام آزادی حاصل نہیں۔انھیں اپنی زبان کی صحت، لہجے کی درستی، لغت، روز مرہ اور محاوروں کی پاس داری کا پابند رکھا جاتا ہے۔پابندی لگانے والے ادارے تو ہمارے ہاں بھی ہیں، مگر وہ صرف اس حکم کی پابندی کرواتے ہیں کہ فلاں کی تصویر نہ آنے پائے، فلاں کا نام نہ لیا جائے، نام لینے کے بجائے اُسے فلاں کا ابا یا فلاں جماعت کا بانی کہہ کر پکارا جائے۔بس یہیں تک ہے ہمارے پابندی لگانے والے اداروں کے پرِ مرغِ تخیل کی رسائی۔

عوام میں انگریزی نشریات مقبول نہیں۔ نشریاتی ادارے مجبور ہیں اُردو نشریات پیش کرنے پر، مگر اپنے نشریاتی اداروں کے نام انگریزی میں رکھ کر اپنے آپ کو سامراج کا پختہ کار غلام ثابت کرنا بھی شاید ان کی شدید مجبوری ہے۔ انھیں اپنی قومی زبان میں کوئی نام سوجھتا ہی نہیں۔ اسی سے ان کی سوجھ بوجھ کا اندازہ لگا لیجے۔بار باربتانے کے باجود ذرائع ابلاغ پر ابھی تک ’’اقدامات اُٹھائے‘‘ جا رہے ہیں، حالاںکہ ہزار بار سمجھایا کہ ’’قدم اُٹھایا‘‘ جاتا ہے اور ’’اقدامات کیے‘‘ جاتے ہیں۔ آئے دن ’’مَن-شِیات‘‘ پکڑی جا رہی ہیں، شاید ’’مُنَش-شِیات‘‘ پکڑنے میں خبر خواں خواتین و حضرات کو بھی محنت کرنی پڑتی ہو،توسستی اورکاہلی چھوڑ کر کون مُنِشِّیات کا صحیح تلفظ جاننے کے پھیر میں پڑے۔اسی طرح پرخچے (پَرَخ-چے) کے ’’پَر- خچ چے‘‘ اُڑائے جا رہے ہیں۔’ہراوَل دستہ‘ اکثر خبر خوانوں کے نزدیک ’ہر- اوّل- دستہ‘ ہے۔ ’ عوام‘ اب تک ’واحد مؤنث‘ سے جمع مذکر نہیں ہوسکے۔لہٰذا عوام اب پاک سرزمین کا نظام نہیں چلاتے کیوں کہ’ عوام ڈرتی ہے‘۔ اُردو نشریات والوں نے اپنی نشریات میں ‘Stay with us’ اور ‘Welcome back’کہنے کو عادت بنا لیا ہے تو سی این این اور فاکس نیوزوالوں کو بھی اپنی انگریزی نشریات میں مروتاً ’ہمارے ساتھ رہیے‘ اور ’نشریات میں دوبارہ خوش آمدید‘ جیسی اُردو بول کر اپنے ناظرین کو پگلا دینا چاہیے۔مزے کی بات یہ ہے کہ انگریزی بولتے وقت تلفظ کی درستی کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے۔جانے کس کے ڈر سے۔

برقی ذرائع ابلاغ کو ضابطے کا پابند رکھنے والا سرکاری ادارہ (PEMRA)ہو یا ہمارے ورقی و برقی ذرائع ابلاغ،لگتا ہے کہ سب کے سب حلوائی کے اُسی ’حکیم‘ بیٹے کے منتظر ہیں جو کسی دن آئے گا اور مفت خوروں، کام چوروں،نکموں، کاہلوں، سستی کے ماروں، آرام طلبوں اور ناکاروںکومحض چند ساعتوں میں چست و چالاک اور چونچال کرجائے گا۔

بشکریہ : فرائیڈے اسپیشل
 

ماہی احمد

لائبریرین
حلوائی کے 'حکیم' بیٹے کا انتظار
احمد حاطب صدیقی

کبھی ہوا ہے، نہ ہوگا، کہ ہم ’غلطی ہائے مضامین‘ پر کالم لکھیں، جن لوگوں کے لیے لکھا گیا ہے وہ پڑھ بھی لیں اور پڑھتے ہی اپنا املا درست کرلیں، تلفظ ٹھیک کرلیں اورتعلیم یافتہ لوگوں کی طرح قاعدے کی زبان لکھنے اور بولنے لگیں۔ قواعد و انشا کی کتابوں سے تو کتب خانے بھرے ہوئے ہیں۔ اساتذہ کا کلام اورصاحبِ اُسلوب ادیبوں کی تصانیف بھی جا بجا میسر ہیں۔ ادبی چاشنی سے ترتراتی ہوئی رس بھری زبان لکھنے والے آج بھی ایسی شستہ اُردو لکھ رہے ہیں کہ سیکھنے والے ان سے سبھی کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ پھرکیا وجہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ پر ایک سے ایک بھونڈی زبان بولنے والا بڑبڑ، بڑبڑ بولے جارہا ہے اور صریح اغلاط سے پُر فقرے لکھنے والا صحافی می نویس و می نویس و می نویس کیے جارہا ہے؟ ہمیں تو اس کا سبب یہی نظر آتا ہے کہ بس ایک شے کی کمی ہے۔ وہی شے جس کو بیان کرنے کے لیے طبقۂ عوام میں عام طور پر ایک کہاوت کہی جاتی ہے کہ ’’خدا نے آسمان سے چار کتابیں اُتاریں اور پانچواں ڈنڈا‘‘۔ صاحب! کیا بلیغ بات کہی گئی ہے۔

لغات میں ایک اسمِ کیفیت پایا جاتا ہے ’ہڈ حرام‘۔ اس میں ’ہڈ‘ مخفف ہے ہڈی کا۔ ہڈی بالعموم پالتو کتے کے آگے ڈالی جاتی ہے۔ کتا وفادار جانور ہے، لیکن اگر کسی وجہ سے مالک کی مرضی کے مطابق کام کرنے میں سستی دکھائے یا اپنی نااہلی سے مطلوبہ کام نہ کر پائے تو ’ہڈ حرام‘ کہلاتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے کوئی شخص کسی کا نمک کھا کر اُس سے بے وفائی کرے تو اُسے ’نمک حرام‘ کا لقب مل جاتا ہے۔ ’ہڈ حرام‘ کو دشنام کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے، لہٰذا لغت میں ’ہڈ حرام‘ کے معانی ’بدخصلت، مفت خورا، حرام خور،کام چور، نکما، کاہل، سست، آرام طلب اور ناکارہ‘ وغیرہ دیے گئے ہیں۔ یہ تمام صفات ہمیں اپنے سرکار دربار میں فرداً فرداً یکجا نظر آجاتی ہیں۔ کوئی عادت پختہ ہوجائے تو فقط سمجھانے بجھانے سے نہیں جاتی، اور اگر ’ہڈ حرامی‘ کی عادت پڑ جائے تو وہ پند و نصائح یا تعزیری قوانین سے کبھی ختم نہیں ہوپاتی۔ کتابیں پڑھانے یا تربیتی تقریریں سنانے سے بھی منہ کو لگی ہوئی یہ کم بخت عادت نہیں چھٹتی۔ ’ہڈ حرامی‘ کا علاج صرف ’ڈنڈا‘ ہے۔

قصہ مشہور ہے کہ ایک بادشاہ نے ایسا شفا خانہ قائم کیا جس میں مفت علاج کے علاوہ مریضوں کے مفت قیام اور مفت طعام کی سہولت فراہم تھی۔ انواع و اقسام کی نعمتیں اور دیگر مراعات بھی میسر تھیں۔ شفاخانہ مفت کے مریضوں سے بھر گیا۔ بعض مریضوں نے وہیں مدتِ عمر گزار دی۔ بڑے بڑے حاذق حکیموں کے علاج سے بھی صحت یاب نہ ہوسکے۔ بادشاہ کو پریشانی لاحق ہوگئی۔ اس نے اعلان کروایا کہ جو حکیم ان عمر بھر کے روگیوں کا روگ دور کردے گا اُسے انعام و اکرام اور خلعتِ فاخرہ سے نوازا جائے گا۔ بڑے بڑے نام ور اور ماہر اطبا آئے مگر ’منہ پِٹا کر‘ چلے گئے۔ آخر کو کہانی میں ایک حلوائی کا بیٹا داخل ہوتا ہے۔ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ فقط چند ساعتوں میں سارے مریض ٹھیک کردے گا۔ بادشاہ نے کہا ’’چل بھئی تُو بھی قسمت آزما لے‘‘۔ حلوائی کے فرزند نے ایک بڑا سا کڑھاؤ منگوایا، منوں تیل اور ٹنوں لکڑیاں۔ سب کچھ آگیا تو لکڑیاں جلا کر آگ دہکائی گئی۔ آگ پر کڑھاؤ چڑھایا گیا۔ کڑھاؤ میں تیل کھولایا گیا۔ تیل اچھی طرح جوش مارنے لگا تو پہلا مریض بلایا گیا۔ مریض چلنے پھرنے سے قاصر تھا، سو پلنگ پر لاد کر لایا گیا۔ حلوائی کے پُوت نے پوچھا: ’’باباجی! آپ کب سے شفاخانے میں داخل ہیں؟‘‘ معلوم ہوا ’’چالیس برس سے‘‘۔ پوچھا: ’’ ٹھیک نہیں ہوئے؟‘‘ جواب ملا: ’’نہیں، یہ تکلیف ہے، وہ تکلیف ہے، یہاں درد ہے، وہاں درد ہے‘‘۔ معالج نے مایوسی سے سر ہلایا اور کارندوں سے کہا: ’’یہ بابا لاعلاج ہے۔ اسے ڈنڈا ڈولی کرکے لے جاؤ، کھولتے تیل کے کڑھاؤ میں پھینک آؤ‘‘۔ یہ سنتے ہی لاعلاج بابا یکلخت چھلانگ مار کر پلنگ سے کودا اور ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا: ’’نہیں، نہیں۔ حکیم جی! میں بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں، بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں‘‘۔ حکیم جی نے حکم دیا: ’’شفا خانے کے ہر کمرے میں جاؤ، ہر مریض کو بتاؤ کہ ’میں بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں‘ پھر شفاخانے سے باہر نکل جاؤ‘‘۔ یوں اُس نے واقعی چند ساعتوں میں سارے مریض ٹھیک کردیے۔

ٹھیک اسی طرح اُن تمام لوگوں کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے جنھوں نے ٹھیک نہ ہونے کی قسم کھا رکھی ہے، خواہ وہ سرکاری ’ہڈ حرام‘ ہوں یا غیر سرکاری۔ ذرائع ابلاغ میں اس صفت سے کام لینے کا رواج اتنا بڑھ چکا ہے کہ اُردو کے عام الفاظ جاننے کی کوشش کرنے میں بھی جان نکلتی ہے۔ کام چوری، نکماپن، کاہلی، سستی اور آرام طلبی ایسی کہ اس قسم کی سرخیاں آئے دن پڑھنی پڑتی ہیں: ’’ایڈمنسٹریشن کے لیے آئین پر عمل کرنے کے سوا کوئی چوائس نہیں‘‘۔ ارے بھائی! جس نے بھی یہ سرخی بنائی ہوگی اُس نے یہی سمجھا ہوگا کہ لفظ ‘Choice’ استعمال کرنے کے سوا کوئی ’چارہ‘ نہیں۔ ’ایڈمنسٹریشن‘ کو ’انتظامیہ‘ لکھنے کے لیے لغت دیکھ لینے میں بھی شاید سستی اور کاہلی ہی آڑے آئی ہوگی۔ اس قسم کی سستی اور کاہلی دُور کرنے کو سمجھانے بجھانے اور کالم لکھنے سے کام نہیں چلے گا۔ اس کے لیے اے صاحبو! ’ڈنڈا‘ اشد ضروری ہے۔

ایک خبر ہے۔ ہے تو بہت پُرانی، مگر شاید ہمارے ماہرینِ ابلاغیات کے لیے نئی ہو۔2اپریل 2023ء کو اٹلی کی پارلیمنٹ میں ایک مسودۂ قانون پیش کیا گیا جس کی رُو سے اطالوی زبان میں انگریزی زبان کے الفاظ استعمال کرنے کو قابلِ سزا جرم ٹھیرایا گیا۔ اس قانون کی خلاف ورزی پر ایک لاکھ یورو جرمانہ بھی مقرر کیا گیا۔ ایسے ہی قوانین چین، جاپان اور فرانس میں بھی موجود ہیں۔ہمارے ابلاغی ادارے جن ممالک کی نقل کرتے ہیں آخر اُن ممالک کی ’لسانی حکمتِ عملی‘ کی نقالی کیوں نہیں کرتے؟دنیا کی کوئی مہذب قوم اپنے ذرائع ابلاغ کویہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ قومی زبان کو غلط سلط یا جس طرح چاہیں، بولا کریں، لکھا کریں۔ہر قوم اپنی زبان کے معیار کو برقرار رکھتی ہے۔ بی بی سی، وائس آف امریکہ،سی این این اور الجزیرہ سمیت دیگر عرب نشریاتی اداروں یا ایران،چین، جاپان، جرمنی، فرانس سمیت کسی ملک کے نشریاتی اداروں کو ہمارے ذرائع ابلاغ کی سی بے لگام آزادی حاصل نہیں۔انھیں اپنی زبان کی صحت، لہجے کی درستی، لغت، روز مرہ اور محاوروں کی پاس داری کا پابند رکھا جاتا ہے۔پابندی لگانے والے ادارے تو ہمارے ہاں بھی ہیں، مگر وہ صرف اس حکم کی پابندی کرواتے ہیں کہ فلاں کی تصویر نہ آنے پائے، فلاں کا نام نہ لیا جائے، نام لینے کے بجائے اُسے فلاں کا ابا یا فلاں جماعت کا بانی کہہ کر پکارا جائے۔بس یہیں تک ہے ہمارے پابندی لگانے والے اداروں کے پرِ مرغِ تخیل کی رسائی۔

عوام میں انگریزی نشریات مقبول نہیں۔ نشریاتی ادارے مجبور ہیں اُردو نشریات پیش کرنے پر، مگر اپنے نشریاتی اداروں کے نام انگریزی میں رکھ کر اپنے آپ کو سامراج کا پختہ کار غلام ثابت کرنا بھی شاید ان کی شدید مجبوری ہے۔ انھیں اپنی قومی زبان میں کوئی نام سوجھتا ہی نہیں۔ اسی سے ان کی سوجھ بوجھ کا اندازہ لگا لیجے۔بار باربتانے کے باجود ذرائع ابلاغ پر ابھی تک ’’اقدامات اُٹھائے‘‘ جا رہے ہیں، حالاںکہ ہزار بار سمجھایا کہ ’’قدم اُٹھایا‘‘ جاتا ہے اور ’’اقدامات کیے‘‘ جاتے ہیں۔ آئے دن ’’مَن-شِیات‘‘ پکڑی جا رہی ہیں، شاید ’’مُنَش-شِیات‘‘ پکڑنے میں خبر خواں خواتین و حضرات کو بھی محنت کرنی پڑتی ہو،توسستی اورکاہلی چھوڑ کر کون مُنِشِّیات کا صحیح تلفظ جاننے کے پھیر میں پڑے۔اسی طرح پرخچے (پَرَخ-چے) کے ’’پَر- خچ چے‘‘ اُڑائے جا رہے ہیں۔’ہراوَل دستہ‘ اکثر خبر خوانوں کے نزدیک ’ہر- اوّل- دستہ‘ ہے۔ ’ عوام‘ اب تک ’واحد مؤنث‘ سے جمع مذکر نہیں ہوسکے۔لہٰذا عوام اب پاک سرزمین کا نظام نہیں چلاتے کیوں کہ’ عوام ڈرتی ہے‘۔ اُردو نشریات والوں نے اپنی نشریات میں ‘Stay with us’ اور ‘Welcome back’کہنے کو عادت بنا لیا ہے تو سی این این اور فاکس نیوزوالوں کو بھی اپنی انگریزی نشریات میں مروتاً ’ہمارے ساتھ رہیے‘ اور ’نشریات میں دوبارہ خوش آمدید‘ جیسی اُردو بول کر اپنے ناظرین کو پگلا دینا چاہیے۔مزے کی بات یہ ہے کہ انگریزی بولتے وقت تلفظ کی درستی کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے۔جانے کس کے ڈر سے۔

برقی ذرائع ابلاغ کو ضابطے کا پابند رکھنے والا سرکاری ادارہ (PEMRA)ہو یا ہمارے ورقی و برقی ذرائع ابلاغ،لگتا ہے کہ سب کے سب حلوائی کے اُسی ’حکیم‘ بیٹے کے منتظر ہیں جو کسی دن آئے گا اور مفت خوروں، کام چوروں،نکموں، کاہلوں، سستی کے ماروں، آرام طلبوں اور ناکاروںکومحض چند ساعتوں میں چست و چالاک اور چونچال کرجائے گا۔

بشکریہ : فرائیڈے اسپیشل
جو کھیل تعلیمی نظام میں کھیلے جا رہے اور ننھے دماغوں کو جیسے الجھایا جا رہا وہ تو خون کھولاتا ہے۔۔۔
 
Top