محمود احمد غزنوی
محفلین
حسین بن منصور (الحلّاج) کے شاگرد جندب بن زاذان بیان کرتے ہیں کہ حسین نے انہیں ایک مراسلہ بھیجا جس میں لکھا کہ " بسم الله المتجلي عن كل شيء لمن يشاء, والسلام عليك يا ولدي. ستر الله عنك ظاهر الشريعة, وكشف لك حقيقة الكفر؛ فإن ظاهر الشريعة كفر, وحقيقة الكفر معرفة جلية. إني أوصيك أن لا تغتر بالله, ولا تأيس منه؛ ولا ترغب في محبته, ولا ترض أن تكون غير محب؛ ولا تقل بإثباته, ولا تمل إلى نفيه؛ وإياك والتوحيد. والسلام"۔
ترجمہ: "اللہ کے نام سے، جو جسے چاہتا ہے اسکے لئے ہر شئے سے جلوہ افروز ہوتا ہے۔ میرے بچے، تم پر سلامتی ہو۔ اور اللہ تجھے شریعت کے ظاہر سے مستور کرے اور تجھ پر کفر کی حقیقت کھولے، کیونکہ شریعت کا ظاہر کفر ہے اور کفر کی حقیقت ایک جلیل القدر معرفت ہے۔ میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کے حوالے سے تم کہیں مغرور(Delusioned) نہ ہوجاؤ اور نہ ہی اس سے مایوس۔ اور اسکی محبت کی حرص مت کرو اور نہ ہی اس بات پر راضی ہوجاؤ کہ تمہیں محب کے علاوہ کچھ اور بنایا جائے۔ اور نہ اسکے اثبات کی کوئی بات کرو اور نہ نفی کی۔ اور توحید سے خبردار رہو(یعنی بچ کر رہو)۔ والسلام"
یہ بسملہ ( بسم الله المتجلي عن كل شيء لمن يشاء۔ اللہ کے نام سے، جو جسے چاہتا ہے اسکے لئے ہر شئے سے جلوہ افروز ہوتا ہے)،جس سے حلاج نے اپنے کلام کا آغاز کیا ہے، بندوں کی طرف سےمعرفت کے حصول میں اللہ کی مشئیت کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ اور یہ اس بات کے برعکس ہے جو لوگوں کے ذہن میں عقائد کی تدریس کے نتیجے میں جاگزیں ہے۔ چنانچہ انکو یہ وہم گذرتا ہے کہ ان عقائد کے سیکھ لینے سے اور دیگر وسائل (جن میں سے ایک علمِ کلام بھی ہے) کی مدد سے اللہ کو جانا اور پہچانا جاسکتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عزتِ الٰہیہ اس بات کے منافی ہے کہ کوئی اللہ کو یوں پہچان سکے اور جان سکے۔ اللہ تو جسے چاہتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے، اپنی معرفت عطا کرتا ہے ۔ اور اس معرفت میں بندوں کا سرے سےکوئی اختیار نہیں ہے۔ اور حلاج(اللہ ان سے راضی ہو) یہی بات اپنے شاگرد کو سمجھانا چاہتے ہیں۔ گویا وہ ربانیت کے باب سے ترجمانی کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ " تُو میرے یا کسی اور کے کلام سے کچھ جان نہیں سکتا سوائے اس چیز کے جو اللہ تیرے علم میں لانا چاہے"۔ یہ الگ بات ہے کہ عبدِ ربانی کا کوئی ارداہ کرنا اورچاہنا بھی اللہ کی مشئیت میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب عبدِ ربانی کی ہمت اس بات کے ساتھ وابستہ ہوجاتی ہے کہ کسی کو کچھ معرفت حاصل ہو، تو اللہ اس بندے کیلئے معرفت کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ پس اب اس بندے پر واجب ہے کہ وہ آداب کی محافظت کرے اور اسباب کی طرف مشروع طریقوں سے ہی تمسک کرے۔
اور انکا یہ قول جس میں وہ فرماتے ہیں کہ "ستر الله عنك ظاهر الشريعة" (اللہ تجھے شریعت کے ظاہر سے مستور کرے )، تو اس سے انکی مراد یہ ہے کہ اللہ تیرے باطن کو شریعت کے ظاہر سے پردے میں رکھے۔ کیونکہ دین کا ظاہر تو شریعت ہے اور اسکا محل انسان کا ظاہر (Exterior) ہے۔ اور دین کا باطن حقیقت ہے ، اور اس حقیقت کا محل انسان کا باطن ہے۔ پس جب شریعت اپنے محل یعنی ظاہر سے تجاوز کرکے باطن بن جائے تو شرک ہوجاتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسےباطن اگر ظاہر کی طرف جانکلے تو زندقہ کہلاتا ہے۔ اور حلاج پر انکے اور بعد کے زمانوں کے فقہاء کےانکار(اگر اسکی سیاسی وجوہات سے صرفِ نظر کرلیا جائے) کی بنیاد بھی اس قبیل سے ہے۔ کیونکہ فقہاء،اصحابِ شریعت ہیں ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی۔ اور حلاج صاحبِ حقیقت ہیں ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی(کلام کی حیثیت سے)۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے کے نقیض (Contradictive) ہیں۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو حلاج اور فقہاءکے درمیان یہ نفرت اور بیگانگی نہ پائی جاتی۔ پس جب فقہاء نے حلاج پر ملتِ اسلام سے خروج کا حکم لگایا تو انکا ایسا کرنا علومِ حقیقت سے انکے جہل کے پہلوسے تھا جبکہ یہ حقیقت انہی کی شریعت کا باطن ہے۔ پس گویا وہ ایک پہلو سے اسکاانکار کرتے ہیں جبکہ ایک دوسرے پہلو سے اسکا اقرار کر رہے ہوتے ہیں لیکن اس بات سے واقف نہیں۔ اور جہاں تک حلاج کا تعلق ہے، تو اس پر اسکے باطن کےحال نے غلبہ کیا چنانچہ اسکا ظاہر اسکے باطن سے چھپ گیا اور جب عام لوگوں کی اس پر نظر پڑی تو انہیں اسکا یہ غلبہ حال نقص کی صورت میں دکھائی دیا۔ پس یہ نقص اطلاق کے معنوں میں نہیں بلکہ غلبہ حال کے معنوں میں ہے۔ اور کامل وہ ہوتا ہے جو طاہر اور باطن دونوں کو حاصل کرے اور اسکا حال اس آیت کے مصداق ہو کہ {بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَا يَبْغِيَانِ} [الرحمن: 20]. (اور ان دونوں سمندروں میں ایک پردہ حائل ہے جو انہیں ملنے نہیں دیتا)۔لیکن آدمی کو چاہئیے کہ اس مسئلے میں اپنی عقل و نظر سے علمی طور پر غور و خوض نہ کرے مبادا کہ ان اربابِ احوال کے ساتھ سوءِ ادب کا مرتکب ہوجائے جنکے نزدیک حسین بن منصورحلاج انکے اقطاب میں سے ہیں(اللہ ان سب سے راضی ہو)۔ کیونکہ حال کا حکم صاحبِ حال کے تئیں، علم سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ اسکی مثال ایسی ہے ہے جیسے کوئی گرما گرم کھانا منہ میں ڈال لے جبکہ صاحبانِ علم اسے ٹھنڈا کرکے منہ میں رکھتے ہیں۔ اور جسے اس بات کا تجربہ نہیں ہوا، وہ اسے سمجھ نہیں سکھتا۔ اور شیخ کا اس کلام سے مقصد یہ ہے کہ اسکا مرید باطن کے اعتبار سے شریعت کے حکم پر نہ رہے کیونکہ شریعت تفرقے(Duality, Diversity) کے مشہد سے ہے اور یہ تفرقہ اگر باطن میں بھی در آئے تو شرک ہوجاتا ہے۔ اور انسانِ کامل کا باطن جمع (Unity) کا محل ہے اور یہ جمع، شریعت کے ظاہرِ محض سے نہیں حاصل ہوتی۔ پس شیخ نے اپنے شاگرد کیلئے سوائے کمال کے اور کوئی چیز نہیں مانگی اور اسکے لئے اس شرک سے بچاؤ کا سوال کیا ہے جو مردانِ خدا کی ترقی کے راستے کی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
( عربی تحریر : شیخ عبدالغنی العمری)
(اردو ترجمہ : محمود احمد غزنوی)
( جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔)
http://www.alomariya.org/idaat_suite.php?id=39
ترجمہ: "اللہ کے نام سے، جو جسے چاہتا ہے اسکے لئے ہر شئے سے جلوہ افروز ہوتا ہے۔ میرے بچے، تم پر سلامتی ہو۔ اور اللہ تجھے شریعت کے ظاہر سے مستور کرے اور تجھ پر کفر کی حقیقت کھولے، کیونکہ شریعت کا ظاہر کفر ہے اور کفر کی حقیقت ایک جلیل القدر معرفت ہے۔ میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کے حوالے سے تم کہیں مغرور(Delusioned) نہ ہوجاؤ اور نہ ہی اس سے مایوس۔ اور اسکی محبت کی حرص مت کرو اور نہ ہی اس بات پر راضی ہوجاؤ کہ تمہیں محب کے علاوہ کچھ اور بنایا جائے۔ اور نہ اسکے اثبات کی کوئی بات کرو اور نہ نفی کی۔ اور توحید سے خبردار رہو(یعنی بچ کر رہو)۔ والسلام"
یہ بسملہ ( بسم الله المتجلي عن كل شيء لمن يشاء۔ اللہ کے نام سے، جو جسے چاہتا ہے اسکے لئے ہر شئے سے جلوہ افروز ہوتا ہے)،جس سے حلاج نے اپنے کلام کا آغاز کیا ہے، بندوں کی طرف سےمعرفت کے حصول میں اللہ کی مشئیت کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ اور یہ اس بات کے برعکس ہے جو لوگوں کے ذہن میں عقائد کی تدریس کے نتیجے میں جاگزیں ہے۔ چنانچہ انکو یہ وہم گذرتا ہے کہ ان عقائد کے سیکھ لینے سے اور دیگر وسائل (جن میں سے ایک علمِ کلام بھی ہے) کی مدد سے اللہ کو جانا اور پہچانا جاسکتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عزتِ الٰہیہ اس بات کے منافی ہے کہ کوئی اللہ کو یوں پہچان سکے اور جان سکے۔ اللہ تو جسے چاہتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے، اپنی معرفت عطا کرتا ہے ۔ اور اس معرفت میں بندوں کا سرے سےکوئی اختیار نہیں ہے۔ اور حلاج(اللہ ان سے راضی ہو) یہی بات اپنے شاگرد کو سمجھانا چاہتے ہیں۔ گویا وہ ربانیت کے باب سے ترجمانی کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ " تُو میرے یا کسی اور کے کلام سے کچھ جان نہیں سکتا سوائے اس چیز کے جو اللہ تیرے علم میں لانا چاہے"۔ یہ الگ بات ہے کہ عبدِ ربانی کا کوئی ارداہ کرنا اورچاہنا بھی اللہ کی مشئیت میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب عبدِ ربانی کی ہمت اس بات کے ساتھ وابستہ ہوجاتی ہے کہ کسی کو کچھ معرفت حاصل ہو، تو اللہ اس بندے کیلئے معرفت کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ پس اب اس بندے پر واجب ہے کہ وہ آداب کی محافظت کرے اور اسباب کی طرف مشروع طریقوں سے ہی تمسک کرے۔
اور انکا یہ قول جس میں وہ فرماتے ہیں کہ "ستر الله عنك ظاهر الشريعة" (اللہ تجھے شریعت کے ظاہر سے مستور کرے )، تو اس سے انکی مراد یہ ہے کہ اللہ تیرے باطن کو شریعت کے ظاہر سے پردے میں رکھے۔ کیونکہ دین کا ظاہر تو شریعت ہے اور اسکا محل انسان کا ظاہر (Exterior) ہے۔ اور دین کا باطن حقیقت ہے ، اور اس حقیقت کا محل انسان کا باطن ہے۔ پس جب شریعت اپنے محل یعنی ظاہر سے تجاوز کرکے باطن بن جائے تو شرک ہوجاتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسےباطن اگر ظاہر کی طرف جانکلے تو زندقہ کہلاتا ہے۔ اور حلاج پر انکے اور بعد کے زمانوں کے فقہاء کےانکار(اگر اسکی سیاسی وجوہات سے صرفِ نظر کرلیا جائے) کی بنیاد بھی اس قبیل سے ہے۔ کیونکہ فقہاء،اصحابِ شریعت ہیں ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی۔ اور حلاج صاحبِ حقیقت ہیں ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی(کلام کی حیثیت سے)۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے کے نقیض (Contradictive) ہیں۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو حلاج اور فقہاءکے درمیان یہ نفرت اور بیگانگی نہ پائی جاتی۔ پس جب فقہاء نے حلاج پر ملتِ اسلام سے خروج کا حکم لگایا تو انکا ایسا کرنا علومِ حقیقت سے انکے جہل کے پہلوسے تھا جبکہ یہ حقیقت انہی کی شریعت کا باطن ہے۔ پس گویا وہ ایک پہلو سے اسکاانکار کرتے ہیں جبکہ ایک دوسرے پہلو سے اسکا اقرار کر رہے ہوتے ہیں لیکن اس بات سے واقف نہیں۔ اور جہاں تک حلاج کا تعلق ہے، تو اس پر اسکے باطن کےحال نے غلبہ کیا چنانچہ اسکا ظاہر اسکے باطن سے چھپ گیا اور جب عام لوگوں کی اس پر نظر پڑی تو انہیں اسکا یہ غلبہ حال نقص کی صورت میں دکھائی دیا۔ پس یہ نقص اطلاق کے معنوں میں نہیں بلکہ غلبہ حال کے معنوں میں ہے۔ اور کامل وہ ہوتا ہے جو طاہر اور باطن دونوں کو حاصل کرے اور اسکا حال اس آیت کے مصداق ہو کہ {بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَا يَبْغِيَانِ} [الرحمن: 20]. (اور ان دونوں سمندروں میں ایک پردہ حائل ہے جو انہیں ملنے نہیں دیتا)۔لیکن آدمی کو چاہئیے کہ اس مسئلے میں اپنی عقل و نظر سے علمی طور پر غور و خوض نہ کرے مبادا کہ ان اربابِ احوال کے ساتھ سوءِ ادب کا مرتکب ہوجائے جنکے نزدیک حسین بن منصورحلاج انکے اقطاب میں سے ہیں(اللہ ان سب سے راضی ہو)۔ کیونکہ حال کا حکم صاحبِ حال کے تئیں، علم سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ اسکی مثال ایسی ہے ہے جیسے کوئی گرما گرم کھانا منہ میں ڈال لے جبکہ صاحبانِ علم اسے ٹھنڈا کرکے منہ میں رکھتے ہیں۔ اور جسے اس بات کا تجربہ نہیں ہوا، وہ اسے سمجھ نہیں سکھتا۔ اور شیخ کا اس کلام سے مقصد یہ ہے کہ اسکا مرید باطن کے اعتبار سے شریعت کے حکم پر نہ رہے کیونکہ شریعت تفرقے(Duality, Diversity) کے مشہد سے ہے اور یہ تفرقہ اگر باطن میں بھی در آئے تو شرک ہوجاتا ہے۔ اور انسانِ کامل کا باطن جمع (Unity) کا محل ہے اور یہ جمع، شریعت کے ظاہرِ محض سے نہیں حاصل ہوتی۔ پس شیخ نے اپنے شاگرد کیلئے سوائے کمال کے اور کوئی چیز نہیں مانگی اور اسکے لئے اس شرک سے بچاؤ کا سوال کیا ہے جو مردانِ خدا کی ترقی کے راستے کی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
( عربی تحریر : شیخ عبدالغنی العمری)
(اردو ترجمہ : محمود احمد غزنوی)
( جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔)
http://www.alomariya.org/idaat_suite.php?id=39
آخری تدوین: