حسین بن منصور (الحلّاج) کے شاگرد جندب بن زاذان بیان کرتے ہیں کہ حسین نے انہیں ایک مراسلہ بھیجا جس میں لکھا کہ " بسم الله المتجلي عن كل شيء لمن يشاء, والسلام عليك يا ولدي. ستر الله عنك ظاهر الشريعة, وكشف لك حقيقة الكفر؛ فإن ظاهر الشريعة كفر, وحقيقة الكفر معرفة جلية. إني أوصيك أن لا تغتر بالله, ولا تأيس منه؛ ولا ترغب في محبته, ولا ترض أن تكون غير محب؛ ولا تقل بإثباته, ولا تمل إلى نفيه؛ وإياك والتوحيد. والسلام
ترجمہ: "اللہ کے نام سے، جو جسے چاہتا ہے اسکے لئے ہر شئے سے جلوہ افروز ہوتا ہے۔ میرے بچے، تم پر سلامتی ہو۔ اور اللہ تجھے شریعت کے ظاہر سے مستور کرے اور تجھ پر کفر کی حقیقت کھولے، کیونکہ شریعت کا ظاہر کفر ہے اور کفر کی حقیقت ایک جلیل القدر معرفت ہے۔ میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کے حوالے سے تم کہیں مغرور(Delusioned) نہ ہوجاؤ اور نہ ہی اس سے مایوس۔ اور اسکی محبت کی حرص مت کرو اور نہ ہی اس بات پر راضی ہوجاؤ کہ تمہیں محب کے علاوہ کچھ اور بنایا جائے۔ اور نہ اسکے اثبات کی کوئی بات کرو اور نہ نفی کی۔ اور توحید سے خبردار رہو(یعنی بچ کر رہو)۔ والسلام"
یہ بسملہ ( بسم الله المتجلي عن كل شيء لمن يشاء۔ اللہ کے نام سے، جو جسے چاہتا ہے اسکے لئے ہر شئے سے جلوہ افروز ہوتا ہے)،جس سے حلاج نے اپنے کلام کا آغاز کیا ہے، بندوں کی طرف سےمعرفت کے حصول میں اللہ کی مشئیت کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ اور یہ اس بات کے برعکس ہے جو لوگوں کے ذہن میں عقائد کی تدریس کے نتیجے میں جاگزیں ہے۔ چنانچہ انکو یہ وہم گذرتا ہے کہ ان عقائد کے سیکھ لینے سے اور دیگر وسائل (جن میں سے ایک علمِ کلام بھی ہے) کی مدد سے اللہ کو جانا اور پہچانا جاسکتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عزتِ الٰہیہ اس بات کے منافی ہے کہ کوئی اللہ کو یوں پہچان سکے اور جان سکے۔ اللہ تو جسے چاہتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے، اپنی معرفت عطا کرتا ہے ۔ اور اس معرفت میں بندوں کا سرے سےکوئی اختیار نہیں ہے۔ اور حلاج(اللہ ان سے راضی ہو) یہی بات اپنے شاگرد کو سمجھانا چاہتے ہیں۔ گویا وہ ربانیت کے باب سے ترجمانی کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ " تُو میرے یا کسی اور کے کلام سے کچھ جان نہیں سکتا سوائے اس چیز کے جو اللہ تیرے علم میں لانا چاہے"۔ یہ الگ بات ہے کہ عبدِ ربانی کا کوئی ارداہ کرنا اورچاہنا بھی اللہ کی مشئیت میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب عبدِ ربانی کی ہمت اس بات کے ساتھ وابستہ ہوجاتی ہے کہ کسی کو کچھ معرفت حاصل ہو، تو اللہ اس بندے کیلئے معرفت کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ پس اب اس بندے پر واجب ہے کہ وہ آداب کی محافظت کرے اور اسباب کی طرف مشروع طریقوں سے ہی تمسک کرے۔
اور انکا یہ قول جس میں وہ فرماتے ہیں کہ "ستر الله عنك ظاهر الشريعة" (اللہ تجھے شریعت کے ظاہر سے مستور کرے )، تو اس سے انکی مراد یہ ہے کہ اللہ تیرے باطن کو شریعت کے ظاہر سے پردے میں رکھے۔ کیونکہ دین کا ظاہر تو شریعت ہے اور اسکا محل انسان کا ظاہر (Exterior) ہے۔ اور دین کا باطن حقیقت ہے ، اور اس حقیقت کا محل انسان کا باطن ہے۔ پس جب شریعت اپنے محل یعنی ظاہر سے تجاوز کرکے باطن بن جائے تو شرک ہوجاتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسےباطن اگر ظاہر کی طرف جانکلے تو زندقہ کہلاتا ہے۔ اور حلاج پر انکے اور بعد کے زمانوں کے فقہاء کےانکار(اگر اسکی سیاسی وجوہات سے صرفِ نظر کرلیا جائے) کی بنیاد بھی اس قبیل سے ہے۔ کیونکہ فقہاء،اصحابِ شریعت ہیں ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی۔ اور حلاج صاحبِ حقیقت ہیں ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی(کلام کی حیثیت سے)۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے کے نقیض (Contradictive) ہیں۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو حلاج اور فقہاءکے درمیان یہ نفرت اور بیگانگی نہ پائی جاتی۔ پس جب فقہاء نے حلاج پر ملتِ اسلام سے خروج کا حکم لگایا تو انکا ایسا کرنا علومِ حقیقت سے انکے جہل کے پہلوسے تھا جبکہ یہ حقیقت انہی کی شریعت کا باطن ہے۔ پس گویا وہ ایک پہلو سے اسکاانکار کرتے ہیں جبکہ ایک دوسرے پہلو سے اسکا اقرار کر رہے ہوتے ہیں لیکن اس بات سے واقف نہیں۔ اور جہاں تک حلاج کا تعلق ہے، تو اس پر اسکے باطن کےحال نے غلبہ کیا چنانچہ اسکا ظاہر اسکے باطن سے چھپ گیا اور جب عام لوگوں کی اس پر نظر پڑی تو انہیں اسکا یہ غلبہ حال نقص کی صورت میں دکھائی دیا۔ پس یہ نقص اطلاق کے معنوں میں نہیں بلکہ غلبہ حال کے معنوں میں ہے۔ اور کامل وہ ہوتا ہے جو طاہر اور باطن دونوں کو حاصل کرے اور اسکا حال اس آیت کے مصداق ہو کہ {بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَا يَبْغِيَانِ} [الرحمن: 20]. (اور ان دونوں سمندروں میں ایک پردہ حائل ہے جو انہیں ملنے نہیں دیتا)۔لیکن آدمی کو چاہئیے کہ اس مسئلے میں اپنی عقل و نظر سے علمی طور پر غور و خوض نہ کرے مبادا کہ ان اربابِ احوال کے ساتھ سوءِ ادب کا مرتکب ہوجائے جنکے نزدیک حسین بن منصورحلاج انکے اقطاب میں سے ہیں(اللہ ان سب سے راضی ہو)۔ کیونکہ حال کا حکم صاحبِ حال کے تئیں، علم سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ اسکی مثال ایسی ہے ہے جیسے کوئی گرما گرم کھانا منہ میں ڈال لے جبکہ صاحبانِ علم اسے ٹھنڈا کرکے منہ میں رکھتے ہیں۔ اور جسے اس بات کا تجربہ نہیں ہوا، وہ اسے سمجھ نہیں سکھتا۔ اور شیخ کا اس کلام سے مقصد یہ ہے کہ اسکا مرید باطن کے اعتبار سے شریعت کے حکم پر نہ رہے کیونکہ شریعت تفرقے(Duality, Diversity) کے مشہد سے ہے اور یہ تفرقہ اگر باطن میں بھی در آئے تو شرک ہوجاتا ہے۔ اور انسانِ کامل کا باطن جمع (Unity) کا محل ہے اور یہ جمع، شریعت کے ظاہرِ محض سے نہیں حاصل ہوتی۔ پس شیخ نے اپنے شاگرد کیلئے سوائے کمال کے اور کوئی چیز نہیں مانگی اور اسکے لئے اس شرک سے بچاؤ کا سوال کیا ہے جو مردانِ خدا کی ترقی کے راستے کی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
( عربی تحریر : شیخ عبدالغنی العمری)
(اردو ترجمہ : محمود احمد غزنوی)
( جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔)
http://www.alomariya.org/idaat_suite.php?id=39
 
آخری تدوین:
اور انکا یہ قول کہ " وكشف لك حقيقة الكفر" ( اور اللہ تجھ پر کفر کی حقیقت کھولے) تو اس کا مطلب وہ حقائق ہیں جن پر باطل اپنے ظہور کیلئے تکیہ کرتا ہے اور اپنے ظہور کیلئے اُن کا محتاج ہوتا ہے۔ یہ اسلئیے کہ کفر بھی ایک ظاہر اور ایک باطن رکھتا ہے۔ اسکا ظاہر تو سب کو معلوم ہے لیکن باطن اسکا مکفور و مستور ( یعنی پردے سے ڈھکا ہوا) ہے اور وہ ہے حق۔ لیکن یہ وہ علم ہے جو صرف عارفین کیلئے مخصوص ہے۔ یہ سب اسلئیے کیونکہ پورے کا پورا وجو د، حق کی تجلی کے سوا کچھ نہیں۔اور جملے کا یہ دوسرا حصہ جس سے حلاج اپنے شاگرد کو آگاہ کر رہے ہیں، درحقیقت پہلے حصے کا ہی تابع ہے جب وہ ظاہرِ شریعت کو باطن پر غالب ہونے سے بچنے کی دعا کر رہے تھے، گویا وہ اپنے شاگرد کے باطن کو حقیقت اور اسکے ظاہر کوشریعت پر قائم رہنے کی دعا کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے کمال کو پہنچے۔
اور ہم یہاں ایک مرتبہ پھر اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کفر کی حقیقت، کفر نہیں ہوتی، کیونکہ اس بات کو نہ سمجھنے سے انسان زندقہ میں پڑجاتا ہے۔ اور اسی فرق کو مدِ نظر نہ رکھنے کی وجہ سے زیادہ تر فقہاء، عارفین پر انکار کرتے ہیں جب ان سے ایسی بات ظاہر ہوتی ہے جو انکی دانست میں کفر ہے، چنانچہ کچھ اہل اللہ کی تکفیر کی گئی اور کچھ پر وحدتِ ادیان کے اعتقاد کا الزام لگایا گیا۔ اور ایسا کرنے میں یہ فقہاء اپنے مبلغِ علم کے اعتبار سے تو درست ہوتے ہیں لیکن اپنے اس علم کو حرفِ آخر سمجھ لینے کی وجہ سے خظا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ پس عارفین کے علم کو اپنے علم پر قیاس کرنے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی علمِ نحو کے ابتدائی درجے کا طالب علم جو جملہ فعلیہ کے بارے میں جانتا ہے کہ پہلے فعل، پھر فاعل اور پھر مفعول آتا ہے، اگر اس کی نظر سے کوئی ایسا جملہ گذرے جس میں بلاغت کا اسلوب اختیار کیا گیا ہو اور فاعل سے پہلے مفعول کا ذکر کیا گیا ہو، تو وہ طالبِ علم یقینا اس جملے کو غلط سمجھے گا۔ پس، اگر فقہاء اہل اللہ پر حکم لگانے اور انہیںJudge کرنے میں ذرا توقف سے کام لیتے، تو انہیں اس سے عظیم خیر و برکت حاصل ہوتی، خاص طور پر اس وقت جب یہ معاملہ ہو کہ جن کا انکار کیا جارہا ہے، وہ انکار کرنے والوں سے شرع شریف کے علم اور عمل میں کہیں آگے اور بلند مقام پر فائز ہوں۔ پس اس بات کے بعد سوائے توفیق اور محرومی کے، اور کچھ نہیں ہے۔
اسکے بعد حلاج ( اللہ ان سے راضی ہو) نے کہا کہ " فإن ظاهر الشريعة كفر" (بیشک شریعت کا ظاہر تو کفر ہے) یہاں کفر اپنے لغوی معنوں میں ہے اصطلاحی معنوں میں نہیں( کفر بمعنی پردہ ڈالنا، جھٹلانا)۔ مراد یہ ہے کہ شریعت سے مکلف ہونے کے اعتبار سے افعال کی نسبت مخلوق کی طرف ہے اور اگر یہ بات باطن میں بھی سرایت کرجائے تو اس حقیقت سے انسان حجاب میں رہ جاتا ہے جس کی رُو سے تمام افعال حق کے ساتھ منسوب ہیں قبل اسکے کہ انکا انتساب مخلوق کے ساتھ کیا جائے اور یہ بات توحیدِ خواص کے علم سے ہے جسکو متکلمین کی توحید اور انکی اتباع کرنے والے مختلف عقائد کے حاملین نہیں جانتے۔ لیکن یہ لغوی کفر ایسا ہے کہ جس سے انسان ملتِ اسلامیہ سے خارج نہیں ہوتا کیونکہ مسلمانوں کی غالب تعداد اسی پر ہے اور عامۃ المسلمین کو اس توحیدِ خواص سے مکلف کرنا (یعنی ان پر لازم قرار دینا) خلافِ شرع ہے۔ اور اسی مقام سے کہا گیا ہے کہ عوام کی توحید، شرکِ مشروع ہے۔ اور یہ غریب العلم ہے جس کی فقہاء کو کوئی خبر نہیں۔
اور اسکے بعد انہوں نے کہا کہ " وحقيقة الكفر معرفة جلية" ( اور کفر کی حقیقت ایک کُھلی ہوئی معرفت ہے) اس سے وہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جسکا ذکر ابھی ہم نے کیا کہ چونکہ کفر اپنے وجود کی بقاء کیلئے حق کا محتاج ہے چنانچہ جو شخص اپنی دانست میں حق اور کفر میں فرق واضح کرنے کیلئے یہ سمجھتا ہے کہ کفر اپنی ذات کے ساتھ فی نفسہِ قائم ہے، وہ گویا اسے نادانستگی میں حق قرار دے رہا ہے۔اور یہ طائفہ صوفیہ اسکے برعکس یہ جانتے ہیں کہ کفر کا قیام حق کی وجہ سے ہے اور وہ کفر کو عدم کے درجے میں رکھتے ہیں اور کفر سے تنزیہہ کرتے ہوئے حق ہی انکے پاس باقی رہ جاتا ہے جیسا کہ وہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے {وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ} [النور: 39]: یعنی جنہوں نے کفر کیا انکے اعمال ( اس میں انکے اقوال اور اعتقادات بھی آگئے کیونکہ یہ اعمالِ قلبیہ ہیں) {كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ}چٹیل میدان میں سراب کی مانند ہیں (جو حقیقت کے اعتبار سے عدم ہے اگرچہ محسوسات میں اسکی ایک دیکھی جانے والی صورت ضرور ہے) {يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ}پیاسا یعنی حقیقت کا طالب جب اسے دیکھتا ہے تو اس کی نظر میں یہ {مَاءً} پانی دکھائی دیتا ہے یعنی عالمَِحس میں نظر کی رُو سے ایک ثابت شدہ امر جو اپنی ذات کے ساتھ قائم ہو {حَتَّى إِذَا جَاءَهُ}تاآنکہ جب وہ اسکے پاس آتا ہے یعنی اسے کشفِ مبین کے نور سے دیکھتا ہے {لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا} تو وہ اسے کچھ بھی نہیں پاتا یعنی اسکا عدم ہونا دیکھ لیتا ہے {وَوَجَدَ اللَّهَ عِنْدَهُ}اور اللہ کو اسکے پاس پاتا ہے یعنی حق کو اسکی صورت کے پاس پاتا ہے پس صورِ عدمیہ سوائے اُس حی اور قیوم کے قائم کرنے کے، قائم رہ ہی نہیں سکتیں{فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ}پس اللہ نے اسکا حساب پورا پورا کیا اور مظاہر میں علم بالحق سے اسکا حظ اسے عطا کیا اور وہ اہلِ ظاہر وباطن میں سے ہوگیا، بخلاف اپنے غیر کے {وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ} اور اللہ بہت جلد حساب کرنے والا ہے کیونکہ حق باطل سے زیادہ اقرب ہے اور وجود عدم سے زیادہ اظہر ہے لیکن اکثر لوگ اسکا علم نہیں رکھتے۔
( عربی تحریر : شیخ عبدالغنی العمری)
(اردو ترجمہ : محمود احمد غزنوی)
( جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔)
 
آخری تدوین:
پھر انہوں نے کہا کہ " ولا ترغب في محبته, ولا ترض أن تكون غير محب " (۔ اور اسکی محبت کی حرص مت کرو اور نہ ہی اس بات پر راضی ہوجاؤ کہ تمہیں محب کے علاوہ کچھ اور بنایا جائے) میں انکا مقصد یہ ہے کہ اسکی محبت کا دعویٰ مت کرو، ورنہ اللہ سے محبت کی تو قرآن مجید میں بھی صراحت کی گئی ہے کہ {قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ} [آل عمران: 31] ( کہ کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبت رکھتے ہو) اور یہ کہ {يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ} [المائدة: 54]. ( اور وہ اُن سے محبت کرتا ہے اور وہ لوگ اُس سے محبت کرتے ہیں) لیکن بندے کا اس محبت کو اپنے نفس کی طرف سے دیکھنا، اللہ کی گواہی جیسا نہیں ہے۔ اور جس کسی نے بھی اللہ سے محبت کو اپنے نفس کی جانب سے دیکھا، اس نے اپنے آپ کو ایک بہت بڑی آزمائش میں ڈال لیا کیونکہ محبت کا دعویٰ کرنے والے کی اس مقام پر لازماؑ آزمائش ہوتی ہے اور جس نے اسکو اپنے نفس سے منسوب کرکے بات کی ہو، وہ اس آزمائش پر پورا نہیں اتر سکتا۔ لیکن جب اللہ چاہتا ہے کہ کسی بندے پر اپنا احسان کرے تو اسے اپنی محبت عطا فرماتا ہے لیکن اسکے نفس کو اس محبت کے شہود سے حجاب میں رکھتا ہے۔ چنانچہ یہ اسکے لطف کی وجہ سے جسکے نتیجے مین اس بندے کے حق میں خود اللہ کی گواہی آتی ہے کہ {يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ} وہ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اُس سے محبت رکھتے ہیں۔ چنانچہ شیخ کا یہ قول صوفیہ کے اس قول کے اس قول سے مطابقت رکھتا ہے جب وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی تم سے پوچھے کہ کیا تمہیں اللہ سے محبت ہے تو جواب میں خاموش رہو، کیونکہ اگر تم نے ہاں کہا تو گویا جھوٹ کہا اور نہیں کہا تو گویا کفر کیا۔
( عربی تحریر : شیخ عبدالغنی العمری)
(اردو ترجمہ : محمود احمد غزنوی)
( جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔)
 
آخری تدوین:
اسکے بعد وہ کہتے ہیں (اللہ ان سے راضی ہو) کہ " ولا تقل بإثباته, ولا تمل إلى نفيه؛ " ( اور اسکے اثبات کی بات مت کرو اور نہ ہی نفی کی طرف جاؤ)، یہاں اثبات اور نفی اطلاق کے معنوں میں استعمال نہیں کئے گئے بلکہ انکا تعلق مظاہر سے ہے۔ اپنے شاگرد کو اس بات سے آگاہ کر رہے ہیں کہ اُسے جتنے بھی مظاہر دکھائی دیتے ہیں وہ حق سےقائم ہیں، پس اگر اس نے یہ کہا کہ یہ سب وہ ہے، تو گویا اس نے اثبات کیا اور یہاں یہ اثبات زندقہ ہے اور حکمِ شرع کے مخالف ہے۔ اور اگر اس نے یہ کہا کہ یہ سب اُس کے غیر ہیں تو یہ نفی ہے اور یہاں یہ نفی قیومیت کےتقاضے کے خلاف ہے۔ پس حلاج (اللہ ان سے راضی ہو) یہاں اپنے شاگرد کی رہنمائی فرمارہے ہیں کہ کمال یہ ہے کہ تم نفی اور اثبات دونوں کو جمع کرو ظاہر اور باطن کے اعتبار سے۔ اور یہ نفی و اثبات جسکو کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونا چاہئیے، یہ دونوں کلمہ " لا الٰہ الا اللہ" کی صورت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے علمِ صحیح (Authentic Knowledge) کی کنجی قرار دیا ہے۔ اور لا الٰہ الا اللہ شہود کے اعتبار سے مشہدِ کثرت(Domain of diversity ) میں ہی درست ہے جو کہ اسماء کی تجلیات ِ تفصیلیہ کا مشہد ہے۔ جہاں تک حضرۃ الجمع ( Domain of Unity) کا تعلق ہے، تو اسکا ذکر اسمِ مفرد یعنی "اللہ" کے علاوہ اور کسی طریقے سے نہیں ہوسکتا تاکہ وہ شہود کے موافق ہوجائے۔ اور اس فرق کا علم ذوق ( experience & taste)کے سوا کسی اور طریقے سے نہیں ہوسکتا۔ اور محض علمِ مجرد سے پوری طرح واضح نہیں ہوتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ صوفیہ سلوک کی شروعات میں " لا الٰہ الا اللہ " اور اخیر میں صرف "اللہ" کا ذکر کرتے ہیں۔
اور انہوں نے خط کو اس بات پر ختم کیا ہے کہ " وإياك والتوحيد" ( اور خبردار، توحید سے بچتے رہو)، پس یہاں توحید سے اسکے اصطلاحی معنی مراد ہیں۔ جس پر متکلمین اور اہلِ عقائد نے اپنے نظریات کی بنیاد رکھی ہوئی ہے۔ یعنی کہ توحید ِ نظری جو فکر و استدلال Reasoning سے حاصل ہوتی ہے اور جو کبھی بھی اس شرک سے جدا نہیں ہوتی جو اہلِ ایمان میں خلط ملط ہے۔ پس جس نے اس تو حید ِ عامہ کی بات کی اس نے اپنے اوپر اس توحیدِ حق کا دروازہ بند کرلیا جوطریق وسلوک کی موجب ہے۔اور یہ وہ توھید ہے جسے اصحابِ طریق اپنی اصطلاح میں توحیدِ خاص کہتے ہیں، تاکہ پہلے ذکر کی گئی توحید سے اسے ممتاز کیا جاسکے۔ اور چونکہ یہ توحیدِ خاص ذوقی ہے نظری نہیں، اسلئیے عوام ( اور اس میں علماء و فقہاءبھی شامل ہیں) میں اسکا گویا کوئی تذکرہ نہیں ملتا چنانچہ یہ لوگ ( یعنی عامۃ المسلمین بشمول علماء و فقہاء) اپنی ہی توحید کے اقوال کے سننے سنانےمیں منہمک رہتے ہیں۔ چنانچہ شیخ نے اسی توحید ِ عامہ سے منع فرمایا ہے ناکہ مطلقاؑ توحید سے۔ اور اس نہی کا تعلق محض عوام میں رائج مفہومِ توحیدسے ہے۔
اور یہاں شیخ کے کلام سے ایک اور معانی نکلتے ہیں جو صرف اہلِ طریق سے مخصوص ہیں اور وہ یہ کہ توحید سے نہی اسلئیے ہے کہ لفظ توحید سے ضمنی طور پر تین چیزوں کا اثبات ہوتا ہے۔ ایک موحد( جس نے توحید بیان کی، ایک وہ جسکی توحید بیان کی گئی اور ایک توحید۔ اور اہلِ طریق کے نزدیک یہ عین شرک ہے۔ لیکن جہاں تک عامۃ المسلمین کا تعلق ہے تو وہ اس بات سے آگاہ نہیں ہوتے کہ وہ اثنائے توحید میں اپنے نفوس کا اثبات بھی کر رہے ہیں، بلکہ انہیں اگر یہ بات بتائی بھی جائے، تب بھی وہ اپنے نفوس کی نفی کا تعقل نہیں کر پاتے، کیونکہ وہ جس مقام و مرتبے میں ہیں، وہ توحیدِ خاص کیلئے نہیں ہے اور عامۃ المسلمین کی جانب سے خواصِ امت کے کلام پر انکار اسی مقام سے ہے۔ لیکن وہ لوگ کہ جنہیں توفیق نصیب ہوئی، ادب کا التزام رکھتے ہیں اور اللہ کی جانب سے انہیں منفعت نصیب ہوتی ہے ( با ادب، با نصیب)۔
{وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ} ( اور اللہ حق بات کہتا ہے اور وہی راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے)[الأحزاب: 4].
( عربی تحریر : شیخ عبدالغنی العمری)
(اردو ترجمہ : محمود احمد غزنوی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top