حماقتیں نہیں بجا، منافقوں کے شہر میں

احسن مرزا

محفلین
کچھ تک بندی بغرضِ اصلاح حاضرہیں!

حماقتیں نہیں بجا، منافقوں کے شہر میں
فریب ہی فریب ہے، محبتوں کی بحر میں

مری رضا تو کچھ نہیں، تری ہی بس عطا ہے اب
وفا کی بارشیں تو کر کہ رکھ جفا کے قہر میں

ادھر ادھر، یہاں وہاں، کہاں کہاں نہیں پھرا
مجھے تلاشِ ذات ہے کہاں ملے گی دہر میں!

غموں سے غم ہوئے غلط کہ انتہائے صبر پر
فنا، بقا میں ڈھل گئی، مزا ملا ہے زہر میں

لو دل میں آ کے بس گئیں، نمی، کسک، فغاں، دعا
کیا جو روزنِ خیال وا غموں کے شہر میں
 

الف عین

لائبریرین
تفصیل سے دیکھنے کے بعد:


حماقتیں نہیں بجا، منافقوں کے شہر میں
فریب ہی فریب ہے، محبتوں کی بحر میں
//بحر اگر مؤنث ہو تو شاعری کی تقطیع والی بحر ہوتی ہے، بمعنی سمندر مذکر ہے بحر۔ دوسری بات، یہ صوتی قافیہ تو ہو سکتا ہے، لیکن اگر مجبوری ہو تو۔ یہاں کیا مجبوری ہے، ’نہر‘ کیا جا سکتا ہے آسانی سے۔ پہلا مسرع بھی اس طرح زیادہ رواں ہو سکتا ہے
حماقتیں بجا نہیں ، منافقوں کے شہر میں
فریب ہی فریب ہے، محبتوں کی نہر میں

مری رضا تو کچھ نہیں، تری ہی بس عطا ہے اب
وفا کی بارشیں تو کر کہ رکھ جفا کے قہر میں
//اس میں بھی روانی کی کمی ہے۔ کچھ بہتر صورت یوں ممکن ہے۔
مری رضا تو کچھ نہیں، عطا تری قبول ہے
وفا کی بارشیں ہی دے، کہ رکھ جفا کے قہر میں

ادھر ادھر، یہاں وہاں، کہاں کہاں نہیں پھرا
مجھے تلاشِ ذات ہے کہاں ملے گی دہر میں!
//درست

غموں سے غم ہوئے غلط کہ انتہائے صبر پر
فنا، بقا میں ڈھل گئی، مزا ملا ہے زہر میں
//درست

لو دل میں آ کے بس گئیں، نمی، کسک، فغاں، دعا
کیا جو روزنِ خیال وا غموں کے شہر میں
//یہ صورت زیادہ بہتر ہو گی
لو دل میں بس گئیں سبھی، کسک، فغاں، دعا، نمی
جو روزنِ خیال وا کیا غموں کے شہر میں
 

احسن مرزا

محفلین
تفصیل سے دیکھنے کے بعد:

حماقتیں نہیں بجا، منافقوں کے شہر میں
فریب ہی فریب ہے، محبتوں کی بحر میں
//بحر اگر مؤنث ہو تو شاعری کی تقطیع والی بحر ہوتی ہے، بمعنی سمندر مذکر ہے بحر۔ دوسری بات، یہ صوتی قافیہ تو ہو سکتا ہے، لیکن اگر مجبوری ہو تو۔ یہاں کیا مجبوری ہے، ’نہر‘ کیا جا سکتا ہے آسانی سے۔ پہلا مسرع بھی اس طرح زیادہ رواں ہو سکتا ہے
حماقتیں بجا نہیں ، منافقوں کے شہر میں
فریب ہی فریب ہے، محبتوں کی نہر میں

پہلے تو شکر گزار ہوں استاد محترم، باقی بحر کے مذکر، مونث کی طرف دھیان نہیں گیا بلکل اور نہر کا قافیہ بھی ذہن میں نہیں آیا۔ یہ بہتر ہے!

مری رضا تو کچھ نہیں، تری ہی بس عطا ہے اب
وفا کی بارشیں تو کر کہ رکھ جفا کے قہر میں
//اس میں بھی روانی کی کمی ہے۔ کچھ بہتر صورت یوں ممکن ہے۔
مری رضا تو کچھ نہیں، عطا تری قبول ہے
وفا کی بارشیں ہی دے، کہ رکھ جفا کے قہر میں


لو دل میں آ کے بس گئیں، نمی، کسک، فغاں، دعا
کیا جو روزنِ خیال وا غموں کے شہر میں
//یہ صورت زیادہ بہتر ہو گی
لو دل میں بس گئیں سبھی، کسک، فغاں، دعا، نمی
جو روزنِ خیال وا کیا غموں کے شہر میں

ان دونوں اشعار کی اصلاح بھی خوب فرمائی۔ ایک دفعہ پھر بہت شکریہ کوشش پر وقت صرف کرنے پر۔ یقینا غزل بہتر ہوگئی۔
 
Top