مزمل شیخ بسمل
محفلین
گواہی مل رہی ہے ہر شجر سے ہے خدا واحد
زمیں پر آکے نکلی ہیں یہ شاخیں جب اگا واحد
نہیں خالق نہیں ہے رب کوئی تیرے سوا واحد
کوئی بھی آج تک ایسا ہوا ہے دوسرا واحد
پسا دانہ بنا جو بچ گیا جو مل گیا اس سے
تری ٖقدرت ہے یہ ارض و سماں کی آسیا واحد
کجا اربع عناصر اور کجا تخلیقِ آدم ہیں
اسی کی حمد ہے یہ صاحبِ امرِ بقا واحد
فنا ہو کر یہ ثابت کردیا جھوٹے خداؤں نے
مرے ہیں چھوڑ کر بندوں کو کس پر ہے خدا واحد
اسے کس نے نہیں دیکھا کسی نے اسکو دیکھا ہے
نمایاں ہے ہر اک شے سے یہ چھپنے کی ادا واحد
وہی وہ ذات ہے جس کو بتوں نے بھی کہا واحد
جو اتنی خلق پیدا کرکے بھی سب میں رہا واحد
یہ منظر دیکھ کر بسمل نے اس مصرعے کو اپنایا
خدا واحد، خدا واحد، خدا واحد، خدا واحد