فلک شیر
محفلین
نہ صدا کا سمت کشا ہوں میں
نہ ورق پہ میرا وجود ہے
مرے حرف میں وہ چمک نہیں جو ترے خیال کی چھب میں ہے
مرا انگ کیا مرا ڈھنگ کیا
سرِ خامہ روح کا دُود ہے
یہی میرا رازِ شہود ہے
میں شکست خوردہ خیال ہوں مجھے آیتوں کی کمک ملے
مجھے آگہی کی چمک ملے
مجھے درسِ عبرتِ شوق دے
مری انگلیوں کو پکڑ کے حرفِ جنوں پہ رکھ
رہِ خواندگاں پہ مری کجی مری گمرہی کو بھی ڈال دے
نہ قلم پکڑنے کا ڈھنگ ہے نہ ورق ہے میری بساط میں
مرا منہ چڑاتی ہے لوحِ گل
ابھی وہ ورق نہیں سامنے تراپاک نام کہاں لکھوں
کہ سپیدی صفحہء صاف کی مری آنکھ میں ہے بھری ہوئی
جہاں کوئی سطر ہے خواب کی نہ خرامِ موجہِ اشک ہے
مجھے خوابِ خوش سے نواز دے کہ یہ چشمِ وا بھی عذاب ہے
میں تہی نوا
میں تہی ثنا
میں لکھوں گا کیا؟
مگر اے خدا مری پوٹلی میں جو تیرے دھیان کی جوت ہے
یہی رت جگا مرا مال ہے
یہی مال میرا کمال ہے
(عباس تابش)
نہ ورق پہ میرا وجود ہے
مرے حرف میں وہ چمک نہیں جو ترے خیال کی چھب میں ہے
مرا انگ کیا مرا ڈھنگ کیا
سرِ خامہ روح کا دُود ہے
یہی میرا رازِ شہود ہے
میں شکست خوردہ خیال ہوں مجھے آیتوں کی کمک ملے
مجھے آگہی کی چمک ملے
مجھے درسِ عبرتِ شوق دے
مری انگلیوں کو پکڑ کے حرفِ جنوں پہ رکھ
رہِ خواندگاں پہ مری کجی مری گمرہی کو بھی ڈال دے
نہ قلم پکڑنے کا ڈھنگ ہے نہ ورق ہے میری بساط میں
مرا منہ چڑاتی ہے لوحِ گل
ابھی وہ ورق نہیں سامنے تراپاک نام کہاں لکھوں
کہ سپیدی صفحہء صاف کی مری آنکھ میں ہے بھری ہوئی
جہاں کوئی سطر ہے خواب کی نہ خرامِ موجہِ اشک ہے
مجھے خوابِ خوش سے نواز دے کہ یہ چشمِ وا بھی عذاب ہے
میں تہی نوا
میں تہی ثنا
میں لکھوں گا کیا؟
مگر اے خدا مری پوٹلی میں جو تیرے دھیان کی جوت ہے
یہی رت جگا مرا مال ہے
یہی مال میرا کمال ہے
(عباس تابش)