نعیم صدیقی حمد: نجانے کون کہیں سے بلا رہا ہے مجھے ٭ نعیم صدیقیؒ

نہ جانے کون کہیں سے۔۔۔

درونِ دل سے کوئی گدگدا رہا ہے مجھے
جنوں کے حوصلے پھر سے دلا رہا ہے مجھے
نگاہِ رمز کی پھر زد پہ لا رہا ہے مجھے
جِلا رہا ہے، لحد سے اٹھا رہا ہے مجھے
نجانے کون کہیں سے بلا رہا ہے مجھے

وہ کوئی ہے جو صبا بن کے سرسرتا ہے
وہ کوئی ہے جو کلی بن کے مسکراتا ہے
وہ کوئی ہے جو کرن بن کے جھلملاتا ہے
وہ بے نیازِ دو عالم بنا رہا ہے مجھے
نجانے کون کہیں سے بلا رہا ہے مجھے

عجیب چشمکیں جادو بھری، ستاروں کی
یہ کوہساروں میں آواز، آبشاروں کی
کسی پیام سے بوجھل ہَوا، چناروں کی
کوئی تصورِ رنگیں ستا رہا ہے مجھے
نجانے کون کہیں سے بلا رہا ہے مجھے

وہ اک لطیف تپش، دل کی ٹھنڈی ٹھنڈی جلن
کنارِ جوئے رواں، درمیانِ سرو و چمن
سُلا گئی تھی مجھے جس کی میٹھی میٹھی چبھن
وہی مہین سا کانٹا جگا رہا ہے مجھے
نجانے کون کہیں سے بلا رہا ہے مجھے

یہ اک ہجومِ بتاں، دوستوں کی بزمِ فراغ
ستارے بن کے چمکنے لگے ہیں سارے ایاغ
یہ ایک لمحہ، کہ دل پر نہیں گرفتِ دماغ
یہاں پہ کون کچوکے لگا رہا ہے مجھے
نجانے کون کہیں سے بلا رہا ہے مجھے

یہ زعم تھا کہ لگی کو بجھا بھی سکتا ہوں
ہو بےخودی تو خودی کو بچا بھی سکتا ہوں
میں یاد کر کے کسی کو بھلا بھی سکتا ہوں
وہ ٹوٹتا ہے جو اک ادّعا رہا ہے مجھے
نجانے کون کہیں سے بلا رہا ہے مجھے

ستم کشیدۂ ادوارِ آسماں ہوں میں
الم چشیدۂ یک عمرِ رائگاں ہوں میں
ہے غم گواہ کہ ہر غم کا رازداں ہوں میں
یہ اور غم ہے جو اب کی گھلا رہا ہے مجھے
نجانے کون کہیں سے بلا رہا ہے مجھے

یہ بے صدا سا پیام، اس پہ والہانہ اٹھوں
تقاضا ہے کہ بہ اسلوبِ عاشقانہ اٹھوں
رضا میں ڈوب کے بے عذر و بے بہانہ اٹھوں
کہ جیسے وعدہ کوئی یاد آ رہا ہے مجھے
نجانے کون کہیں سے بلا رہا ہے مجھے

٭٭٭
نعیم صدیقیؒ
 
Top