یہ اس فورم پر میری پہلی جسارت ہے۔ امید ہے اپ کو پسند ائے گی۔
ہوتی ہے نام رب سے ہر اک شے کی ابتدا
ہیں مطلعٗ کلام یہی ہستی و سماء
ہے ہستیٗ عریاں کی ہر اک شے میں جلوہ گر
پوشیدہٗ نظر نہیں ہر سو ہے آئینہ
توحید کے قائل ہیں گو تکوین میں ہم سب
گرچہ کہ بظاہر ہیں یہاں شورشیں بپا
حسن و زر و جلال و حشمت کی شکل میں
ہر اِک نے گھڑ لیئے ہٰیں اپنے واستے خدا
معدوم کرسکی نہ گرم ریت عزم بلال
صحرا میں اب بھی گونجتی احد کی ہے صدا
کیا ساعتِ سعید ہے کعبہ کے شہر میں
ہر آنکھ دیکھتی ہے سوئے دار آمنہ
تھا جن کو انتظار صبحِ خوش بخت کا
لو چرخِ نبوت کا وہ خورشید آ گیا
ہوتی ہے مکمل تیرے آنے سے نبوت
وارث ہے ابراہیم کا اور مژدہٗ عیسی
عاصی تو ہوں پر آس مگر شافع محشر
اک جام جو نصیب ہو کوثر کے حوض کا
حیرت زدہ کفار کے قلوب پر ہوں میں
مہتاب مگر رکھتا نہیں تابِ اشارہ
ہے شوق دل میں منقبتِ بو تراب کا
الفاظ مگر رکھتے نہیں قوتِ وفا
تاب رمق علم علی رکھتے نہیں ہیں
سینہ ہوا ہے شق تبہی ہر اک چاہ کا
ہے آج تک صحرا بھی تشنگی شے لبِ جاں
کیا پھر کسے مظلوم کو پانی نہیں ملا
یاور کوئی نہیں ہے نہ غمخوار ہے کوئی
ہر سو یوں دیکھتے ہیں شہٗ ارضِ کربلا
پانی کے واسطے جو چلا تھا خیام سے
افسوس چھلنی کر دیا معصوم کا گلا
کرنے دو ان کو ظلم کہ ہم آزمائیں گے
دیکھی ہے کربلا میں شقاوت کی انتہا
ہوئی نہیں تمام اب تلک وہے جفا
یزید بھی زندہ ہے اور حسین بھی زندہ
آنسو تھے جس قدر ہوئے نظرِ فراقِ یار
اب نین ہیں ساکت گو دیکھتے ہیں تیری راہ
ساحل ہے دور زادِ راہ نایاب ہم تنہا
ناو کہ ڈگمگاتی ڈھونڈھتی ہے ناخدا
ہیں مطلعٗ کلام یہی ہستی و سماء
ہے ہستیٗ عریاں کی ہر اک شے میں جلوہ گر
پوشیدہٗ نظر نہیں ہر سو ہے آئینہ
توحید کے قائل ہیں گو تکوین میں ہم سب
گرچہ کہ بظاہر ہیں یہاں شورشیں بپا
حسن و زر و جلال و حشمت کی شکل میں
ہر اِک نے گھڑ لیئے ہٰیں اپنے واستے خدا
معدوم کرسکی نہ گرم ریت عزم بلال
صحرا میں اب بھی گونجتی احد کی ہے صدا
کیا ساعتِ سعید ہے کعبہ کے شہر میں
ہر آنکھ دیکھتی ہے سوئے دار آمنہ
تھا جن کو انتظار صبحِ خوش بخت کا
لو چرخِ نبوت کا وہ خورشید آ گیا
ہوتی ہے مکمل تیرے آنے سے نبوت
وارث ہے ابراہیم کا اور مژدہٗ عیسی
عاصی تو ہوں پر آس مگر شافع محشر
اک جام جو نصیب ہو کوثر کے حوض کا
حیرت زدہ کفار کے قلوب پر ہوں میں
مہتاب مگر رکھتا نہیں تابِ اشارہ
ہے شوق دل میں منقبتِ بو تراب کا
الفاظ مگر رکھتے نہیں قوتِ وفا
تاب رمق علم علی رکھتے نہیں ہیں
سینہ ہوا ہے شق تبہی ہر اک چاہ کا
ہے آج تک صحرا بھی تشنگی شے لبِ جاں
کیا پھر کسے مظلوم کو پانی نہیں ملا
یاور کوئی نہیں ہے نہ غمخوار ہے کوئی
ہر سو یوں دیکھتے ہیں شہٗ ارضِ کربلا
پانی کے واسطے جو چلا تھا خیام سے
افسوس چھلنی کر دیا معصوم کا گلا
کرنے دو ان کو ظلم کہ ہم آزمائیں گے
دیکھی ہے کربلا میں شقاوت کی انتہا
ہوئی نہیں تمام اب تلک وہے جفا
یزید بھی زندہ ہے اور حسین بھی زندہ
آنسو تھے جس قدر ہوئے نظرِ فراقِ یار
اب نین ہیں ساکت گو دیکھتے ہیں تیری راہ
ساحل ہے دور زادِ راہ نایاب ہم تنہا
ناو کہ ڈگمگاتی ڈھونڈھتی ہے ناخدا