حمد

جب مدد کوتُجھے پُکارا ہے
بندہ تیرا کبھی نہ ہارا ہے

عُمر گُزری مری گُناہوں میں
میرا ماضی بَنا خسارہ ہے

نیل بہتا ہماری آنکھوں سے
اور یہ سُود و زیاں ہمارا ہے

میری رگ رگ ہے ورد میں مصروف
دِل مِرا , تیرا استعارہ ہے

طُور سے دُوری ہے بہت یا رَب!
مُجھ کو مطلُوب اِک نظارہ ہے

دل تمنا سے میرا عاری ہے
اس میں مریم چھپا اشارہ ہے
 
آخری تدوین:

باباجی

محفلین
سبحان اللہ ۔۔ حمد مالک ارض و سما

میری رگ رگ ہے ورد میں مصروف​
دِل مِرا , تیرا استعارہ ہے​

طُور سے دُوری ہے بہت یا رَب!​
مُجھ کو مطلُوب اِک نظارہ ہے​

دِل تمنّا سے خالی ہے مریم​
پِھر یہ آخر کیا اِشارہ ہے؟​
 
سبحان اللہ ۔۔ حمد مالک ارض و سما

میری رگ رگ ہے ورد میں مصروف
دِل مِرا , تیرا استعارہ ہے​

طُور سے دُوری ہے بہت یا رَب!
مُجھ کو مطلُوب اِک نظارہ ہے​

دِل تمنّا سے خالی ہے مریم
پِھر یہ آخر کیا اِشارہ ہے؟​
جزاک اللہ بابا جی
 

نور وجدان

لائبریرین
نیل بہتا ہماری آنکھوں سے
اور یہ سُود و زیاں ہمارا ہے

میری رگ رگ ہے ورد میں مصروف
دِل مِرا , تیرا استعارہ ہے

طُور سے دُوری ہے بہت یا رَب!
مُجھ کو مطلُوب اِک نظارہ ہے

دل تمنا سے میرا عاری ہے
اس میں مریم چھپا اشارہ ہے

بہت خوب خیال ہے ۔۔۔ ماشاء اللہ ا۔۔ اللہ تعالیٰ کرے زور ء قلم اور زیادہ اور ایسی شاعری سے ہم لطف پاسکیں ۔۔
 

یوسف سلطان

محفلین
جب مدد کوتُجھے پُکارا ہے
بندہ تیرا کبھی نہ ہارا ہے

عُمر گُزری مری گُناہوں میں
میرا ماضی بَنا خسارہ ہے

نیل بہتا ہماری آنکھوں سے
اور یہ سُود و زیاں ہمارا ہے

میری رگ رگ ہے ورد میں مصروف
دِل مِرا , تیرا استعارہ ہے

طُور سے دُوری ہے بہت یا رَب!
مُجھ کو مطلُوب اِک نظارہ ہے

دل تمنا سے میرا عاری ہے
اس میں مریم چھپا اشارہ ہے
ماشاء الله بہت خوب !
 

الف عین

لائبریرین
نہیں مریم، بات نہیں بن رہی۔ اکثر اشعار دو لخت ہیں، ایک ایک مصرع میں بات مکمل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ دونوں کا آپس میں تعلق سمجھ میں نہیں آتا۔ ان اشعار میں دیکھو

نیل بہتا ہماری آنکھوں سے
اور یہ سُود و زیاں ہمارا ہے

میری رگ رگ ہے ورد میں مصروف
دِل مِرا , تیرا استعارہ ہے


دِل تمنّا سے خالی ہے مریم
پِھر یہ آخر کیا اِشارہ ہے؟​
۔۔۔۔۔

بندہ تیرا کبھی نہ ہارا ہے
کو
تیرا
تیرا بندہ کبھی نہ ہارا ہے

نہیں کیا جا سکتا؟
نہیں کیا جا سکتا؟

طُور سے دُوری ہے بہت یا رَب!
مُجھ کو مطلُوب اِک نظارہ ہے
۔۔بہتر ہو کہ پہلا یوں کہو
طور سے دور ہوں بہت یا رب
 
نہیں مریم، بات نہیں بن رہی۔ اکثر اشعار دو لخت ہیں، ایک ایک مصرع میں بات مکمل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ دونوں کا آپس میں تعلق سمجھ میں نہیں آتا۔ ان اشعار میں دیکھو

نیل بہتا ہماری آنکھوں سے
اور یہ سُود و زیاں ہمارا ہے

میری رگ رگ ہے ورد میں مصروف
دِل مِرا , تیرا استعارہ ہے


دِل تمنّا سے خالی ہے مریم
پِھر یہ آخر کیا اِشارہ ہے؟​
۔۔۔۔۔

بندہ تیرا کبھی نہ ہارا ہے
کو
تیرا
تیرا بندہ کبھی نہ ہارا ہے

نہیں کیا جا سکتا؟
نہیں کیا جا سکتا؟

طُور سے دُوری ہے بہت یا رَب!
مُجھ کو مطلُوب اِک نظارہ ہے
۔۔بہتر ہو کہ پہلا یوں کہو
طور سے دور ہوں بہت یا رب
مطلع کے پہلے مصرعہ کی بھی تصحیح فرما دیجیے۔۔۔!
 
آخری تدوین:
Top