طارق شاہ
محفلین
1
غزلِ
حمیرا رحمان
شعور بوئے ہوئے فصلِ دل اُگاتے ہوئے
تھکن خریدی ہے شرطِ سفر نبھاتے ہوئے
کئی دنوں سے کسی بام و در پہ کوئی نہ تھا
چراغ کس نے رکھے حوصلے بڑھاتے ہوئے
یہ کس ملال کی زد میں ہے آب آئینہ
کہ عکس ٹوٹ رہے ہیں نظر ملاتے ہوئے
بہت سے غیر ضروری بھی لوگ گونج اُٹھے
اُس ایک یاد کی زنجیر کو ہلاتے ہوئے
ہم اپنے زعمِ محبت میں دیکھ ہی نہ سکے
تعلقات کے شیشے میں بال آتے ہوئے
ہر ایک لفظ کے معنی بدل دیے ہم نے
مشاہدات کی تازہ لغت بناتے ہوئے
پرند آنے لگے ہیں جنوب کو چُھو کر
نئی رُتوں کی حمیرا خبر سُناتے ہوئے
حمیرا رحمان
2
غزلِ
حمیرا رحمان
گراُس سے ربط مرا صرف اختلافی تھا
تو اُس کا ردّعمل قابلِ معافی تھا
محبتوں میں مفادات کون یاد رکھے
سو ہم کو اپنے لیے ایک نام کافی تھا
چراغ جب بھی جلایا کوئی، تو گُل نہ کیا
یہ روشنی کی روایات کے منافی تھا
اُسے خیال تھا میری شکستہ پائی کا
یہ جاننا بھی تو اُس زخْم کی تلافی تھا
حمیرا عمر گذاری تو اعتبار آیا
کہ اُس مکان کا سامان سب اضافی تھا
حمیرا رحمان، نیویارک