میر انیس
لائبریرین
یہاں اکثر جو مبارکبادیں دی جاتی ہیں وہ زیادہ تر ایک ہزاری دو ہزاری یا تین ہزاری منصب کی دی جاتی ہیں گو کہ یہ بھی میرے نزدیک تو بڑا حوصلے والا کام ہے کیونکہ میں تو اتنےسال محفل کی نظر کرنے کے باوجود آگے نہ بڑھ سکا جو مجھ سے نئے محفلین نے سر کرلیا۔ پر آج میں آپ کو ایک ایسے شخص کے حوصلے کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جس کے حوصلہ کو جتنی داد دی جائے کم ہے یہ وہ شخص ہے جس نے حاکم وقت کو اس کے منہ پر ٹوکا۔ اور میرے نزدیک یہ بہت بہادری کا کام تھا اور ہم سب کیلئے باعث فخر بھی کہ ہم میں سے ایک فرد نے بغیر ڈرے اس وقت کے وزیر اعظم کے سامنے کائرہ کو جھڑک دیا۔ یہ ہمارے خرم زکی صاحب تھے ۔ آپ نے ٹی وی پر نیوز میں دیکھا ہوگا یا پھر سنا ہوگا کہ کوئٹہ کے دھرنے میں جب وزیراعظم راجہ پرویز اشرف شیعہ علماء سے مذاکرات کرنے آئے تو باتوں کے دوران علماء کی کسی بات پر اعتراض کرتے ہوئے قمر الزمان کائرہ بیچ میں بول پڑے اور کہا کہ وزیر اعظم سے ڈائیلوگ نہیں ہوسکتے۔ یہ کہنا تھا کہ ہمارے خرم ذکی بھائی شروع ہوگئے اور بہت سخت زبان میں کہا کہ وزیر اعظم وائے سرائے لگا ہوا ہے کیا جو اس سے ڈائیلوگ نہیں ہوسکتے۔انہوں نے حق بات کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھا کہ سامنے حاکم وقت بیٹھا ہے ہم کو اسی حوصلے کی ضرورت ہے اور ہم میں سے ہر ایک یہ حوصلہ دکھائے تو ممکن ہے یہ ظالم حکمران اپنی من مانی نہ کرسکیں۔ میں سمجھتا ہوں اس بات پر اس جوان@خرم زکی کا یہ حق بنتا ہے کہ ہم انکو مبارکباد پیش کریں اور انکی بہادری کی داد دیں۔ ماشاللہ خرم ذکی ماشاللہ ۔ اللہ آپ کو اور حوصلہ اور عزت دے۔