حَسین مرحوم کی شاعری ۔۔۔ بغرض اصلاح

شاہد شاہنواز

لائبریرین
حسین ۔کی آئی ڈی میں نے فیس بک پر بنائی تھی جو اب مرحوم ہوچکی۔۔۔تخلص حسین رکھا تھا، وہ بھی ترک کردیا۔۔۔

اس کے پیج کور پر یہ اشعار درج کیے تھے:

عمر بھر کے روگ میں کیسے گزاریں زندگی
کس طرح ماضی کی یادوں میں رہیں چپ چاپ سے ؟

روتے روتے سوگ میں سارا بڑھاپا کٹ گیا
کس نے اولادوں کو چھینا اس طرح ماں باپ سے؟

کیا ہمیں دنیا میں جینے کا بھی حق حاصل نہ تھا؟
بوریوں میں بند لاشیں پوچھتی ہیں آپ سے۔۔۔

عید الفطر کا ایک ہی شعر لکھا گیا:

تم کو اس دن کی مبارک باد ہو اے دوستو!
امت مرحوم اب تک عید کہتی ہے جسے !!


ایک شعر یہ بھی ہم نے پوسٹ کیا:
ہم اکیلے تھے، اکیلے ہی مرے
اس کو آنا نہ تھا، آیا ہی نہیں

روشن خیالی اور شدت پسندی پر لکھا:

عجب مصلحت ہے، عجب عقلمندی
عجب بے نیازی، عجب سربلندی

تمہاری عداوت بھی روشن خیالی
ہماری محبت بھی شدت پسندی

پھر محاسبے پر لکھا:

اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا
عشق جس کا محاسبہ کرتا
یار بھی، میں بھی دونوں بد عنوان
کون کس کا محاسبہ کرتا؟؟

ایک غزل پوسٹ کی:

اگر ہم دل کے اندر دیکھتے ہیں
تمہارے نام کا گھر دیکھتے ہیں

برائی بند کردو آپ اپنی ۔۔۔۔۔ ( برائی اپنی کرنا بند کردو ÷÷÷÷ اصلاح از محترم رازدان راز)
تمہیں ہم تم سے بہتر دیکھتے ہیں

نگاہوں کا تعاقب کرکے دیکھو
فلک سے بھی ہم اوپر دیکھتے ہیں

تمہارے پاؤں منزل چومتی ہے
ہمیں راہوں کے پتھر دیکھتے ہیں

وہ برسوں بعد ملتا ہے کسی سے
جسے خوابوں میں اکثر دیکھتے ہیں

کوئی آتا نہیں اِس گھر کی جانب
ہم اکثر کھول کے در دیکھتے ہیں

ترے عشاق آنکھیں بند کر کے
ترا چہرہ برابر دیکھتے ہیں

مقابل یوں کوئی نکلا ہے تنہا
کہ لشکر تھام کے سر دیکھتے ہیں

تڑپ کر جان دے دیتا ہے اکثر
حسیں ہم جس کو دم بھر دیکھتے ہیں

ایک غزل اور لکھی:
صرف اتنا ہی نہیں تم اپنا گھر دیکھا کرو
کتنی مشکل میں ہیں اپنے ہم سفر دیکھا کرو
غم سے گھبراؤ نہ لوگو چشمِ تر دیکھا کرو
قلب کے اوپر محبت کا اثر دیکھا کرو
مجھ سے مت پوچھو سبب میرے جنونِ شوق کا
ان کی آنکھوں میں محبت کا نگر دیکھا کرو
انتظارِ دید میں ہیں کہکشاں کی وسعتیں
دائروں میں تیرتے نجم و قمر دیکھا کرو
بستیاں برباد کردیں شامتِ اعمال نے
کس قدر ویران ہیں دیوار و در دیکھا کرو
تم ہمیشہ اُڑ سکو گے، یہ غلط فہمی نہ ہو
کھو چکے کتنے پرندے بال و پر دیکھا کرو
کتنا وحشت ناک منظر ہے نگاہوں کے لیے
کس قدر کمزور ہیں قلب و جگر دیکھا کرو
ذہن کے در کھول کر تازہ ہوا میں سانس لو
قلب کی آنکھوں سے جنگِ خیر و شر دیکھا کرو
درسِ عبرت کی تمنا ہو تو اے دیدہ ورو!
خاک میں لتھڑے ہوئے لعل و گہر دیکھا کرو
(اس آخری شعر کی بیک وقت دو بحروں میں تقطیع ہوتی ہے، تاہم یہ کوئی معجزہ نہیں کہاجاسکتا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخری غزل یہ تھی جو شیئر کی گئی:

مِرے دل میں اُترتا جارہا ہے
وہ جوں جوں بات کرتا جارہا ہے

ملائم ہو رہا ہے اُس کا لہجہ
مِرا دل ہے کہ ڈرتا جارہا ہے

مَیں کہتا ہوں محبت تُو نے کی ہے
وہ تہمت مجھ پر دَھرتا جارہا ہے

کسی نے سادگی زیور بنا لی
کوئی سجتا سنورتا جارہا ہے

سنبھالا جائے کیسے رنگِ اُلفت
سرِ محفل بکھرتا جارہا ہے

مِرے سر میں سفیدی آچکی ہے
تِرا چہرہ نکھرتا جارہا ہے

کہیں اُٹھے نہ پھر شورِ قیامت
سکوں حد سے گزرتا جارہا ہے!!

درج بالا تمام اشعار کی اصلاح امر محال ہے ۔۔۔ اس لیے صرف یہ سوال ہے کہ کون سے اشعار مجھے رکھ لینے چاہئیں ۔۔۔ کون سے چھوڑ دوں؟؟
مدد کی درخواست ۔۔۔ بخدمت
محترم الف عین صاحب
محترم محمد یعقوب آسی صاحب
مزمل شیخ بسمل
محمد اسامہ سَرسَری
 
حَسین مرحوم کی شاعری ۔۔۔ بغرض اصلاح

بے چارے کو مر جانے کے بعد تو سکون میں رہنے دیجئے۔ یار لوگ تو قینچیاں، چھریاں، آریاں لئے ’’ہوکے‘‘ دیتے پھرتے ہیں:
’’تنقید کرا لئو! شعراں وچ معنے پوا لئو! پرانیاں غزلاں نویاں کرا لئو‘‘
 
بے چارے کو مر جانے کے بعد تو سکون میں رہنے دیجئے۔ یار لوگ تو قینچیاں، چھریاں، آریاں لئے ’’ہوکے‘‘ دیتے پھرتے ہیں:
’’تنقید کرا لئو! شعراں وچ معنے پوا لئو! پرانیاں غزلاں نویاں کرا لئو‘‘
اس پر متفق کی ریٹنگ بھی بنتی تھی حضور لیکن حیف کہ ایک ہی ریٹنگ کی گنجائش ہے!
 
وہ تو ایک شغل میلے کی بات تھی، جناب شاہد شاہنواز صاحب۔

فیصلے آپ کو کرنے ہیں۔ کوئی شعر کوئی لفظ کوئی مصرع ۔۔ عین ممکن ہے آپ کے لئے کوئی خاص حوالہ یا کوئی خاص معانی رکھتا ہو۔ اور کوئی شعر ایسا بھی ہو سکتا جسے آپ خود بھرتی کا شعر سمجھ رہے ہوں۔ اس لئے میں تو کوئی مشورہ نہیں دے سکتا، ماسوائے اس کے کہ آپ کے جو شعر آپ کو ’’عزیز تر‘‘ ہیں ان کو مزید نکھار لیجئے۔ بھرتی کے مال میں کہیں کوئی فنی چابک دستی ہے، کہیں زبان اور محاورے کا لطف ہے تو اس کو برقرار رکھنے میں کوئی ہرج نہیں۔

دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔

برائے توجہ: جناب الف عین
 
آخری تدوین:

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ایک ہی بار ہوئیں وجہِ گرفتاریِ دل
التفات ان کی نگاہوں نے دوبارا نہ کیا

گر یہی ہے ستمِ یار تو ہم نے حسرت ۔۔۔
نہ کیا کچھ بھی جو دنیا سے کنارا نہ کیا ۔۔۔
 
Top