حُسنِ جاناں کی جھلک کافی ہے غزل نمبر 136 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر
فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
حُسنِ جاناں کی جھلک کافی ہے
رُخِ جاناں کی چمک کافی ہے

چاند ہے چودہویں کا خُوب مگر
حُسنِ جاناں کی جھلک کافی ہے

کیوں چمکتے ہوئے تارے دیکھوں
رُخِ جاناں کی چمک کافی ہے

مُشک و عنبر مُجھے درکار نہیں
زُلفِ دِلبر کی مہک کافی ہے

مُجھ کو بھاتا نہیں کوئی نغمہ
اُن کی چُوڑی کی کھنک کافی ہے

زِیست تنہا مُجھے جینے کے لئے
تیری یادوں کی کُمک کافی ہے

ہِجر تو دے دیا اب جاں لے گا؟
ظُلم اِتنا اے فلک کافی ہے

تیری یادیں نہ بُھلانے کے لئے
دردِ اُلفت کی کسک کافی ہے

زِندگی کا پتہ دینے کے لئے
ایک چِڑیا کی چہک کافی ہے

اُن کی یادوں کے سہارے
شارؔق
جی رہا ہوں یہ کُمک کافی ہے
 

الف عین

لائبریرین
رخ جاناں کی چمک.. دو بار استعمال ہوا ہے!
جاناں والے اشعار کے درمیان فاصلہ رکھو
اے فلک، افلک تقطیع ہو رہا ہے، اےکی ے کا اسقاط جائز نہیں
باقی درست ہیں اشعار
 

امین شارق

محفلین
بہت شکریہ الف عین سر فلک والا شعر کیا اب درست ہے اور جاناں والے اشعار میں فاصلہ کردیا ہے۔

حُسنِ جاناں کی جھلک کافی ہے
رُخِ جاناں کی چمک کافی ہے

مُشک و عنبر مُجھے درکار نہیں
زُلفِ دِلبر کی مہک کافی ہے

مُجھ کو بھاتا نہیں کوئی نغمہ
اُن کی چُوڑی کی کھنک کافی ہے

زِیست تنہا مُجھے جینے کے لئے
تیری یادوں کی کُمک کافی ہے

ہِجر تو دے دیا اب جاں لے گا؟
ظُلم اِتنا ہی فلک کافی ہے

چاند ہے چودہویں کا خُوب مگر
حُسنِ جاناں کی جھلک کافی ہے

تیری یادیں نہ بُھلانے کے لئے
دردِ اُلفت کی کسک کافی ہے

کیوں چمکتے ہوئے تارے دیکھوں
رُخِ جاناں کی چمک کافی ہے

زِندگی کا پتہ دینے کے لئے
ایک چِڑیا کی چہک کافی ہے

اُن کی یادوں کے سہارے شارؔق
جی رہا ہوں یہ کُمک کافی ہے
 

الف عین

لائبریرین
زِیست تنہا مُجھے جینے کے لئے
تیری یادوں کی کُمک کافی ہے
زیست سے خطاب لگتا ہے، کچھ ترتیب یا الفاظ بدلو، پہلے اس پر غور نہیں کیا تھا
مطلع میں ایک جاناں کی جگہ کچھ اور کر دو، دلبر بھی ایک جگہ استعمال ہوا ہے، پھر بھی یہی چل بھی سکتا ہے
 

امین شارق

محفلین
الف عین سر مطلع تبدیل کیا ہے۔۔

حُسنِ جاناں کی جھلک کافی ہے
رُخِ دِلبر کی چمک کافی ہے

محمد عبد الرؤوف بھائی آپکا مشورہ اچھا ہے۔۔

بس مجھے معرکہِ زیست میں اک
تیری یادوں کی کمک کا فی ہے
 
Top