حُسن ایسے ترے آنچل میں چُھپا رہتا ہے غزل نمبر 173 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر یاسر شاہ
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
حُسن ایسے ترے آنچل میں چُھپا رہتا ہے
چاند جیسے کوئی بادل میں چُھپا رہتا ہے

دِن اُجالا رخِ روشن کی جھلک ہے شاید
شب اندھیرا ترے کاجل میں چُھپا رہتا ہے

دِل کے جذبات بیاں اُن سے نہیں کر پاتا
وہ نشہ ہے یہ جو بوتل میں چُھپا رہتا ہے

دِل کی تنہائی ہے مانُوس بہت دھڑکن سے
ایک سناٹا جو ہلچل میں چُھپا رہتا ہے

دِل کی ہے ایک تمنا کِسی عاشق سے ملوں
وہ تو دِیوانہ ہے جنگل میں چُھپا رہتا ہے

کوئی تقدیر گُزارے بِنا کیسے جانے
آج ظاہر ہے جو وہ کل میں چُھپا رہتا ہے

مُجھ کو انصاف دِلائے مرا مُنصف کیسے
ہائے قاتل مرا مقتل میں چُھپا رہتا ہے

کیسے کیسےلِکھا کرتا ہوں مضامیں
شارؔق
جانے کیا کیا دلِ پاگل میں چھپا رہتا ہے
 

یاسر شاہ

محفلین
حُسن ایسے ترے آنچل میں چُھپا رہتا ہے
چاند جیسے کوئی بادل میں چُھپا رہتا
یوں کہیں تاکہ واضح ہو۔
حسن ایسے ترا آنچل میں چھپا رہتا ہے

دِن اُجالا رخِ روشن کی جھلک ہے شاید
شب اندھیرا ترے کاجل میں چُھپا رہتا
"دن کا اجالا" اور" شب کا اندھیرا" سے" کا" نکال دیا آپ نے ،پھر جیسے چہرے سے دن روشن ہوتا ہے آپ کہنا چاہ رہے ہیں کاجل سے رات کا اندھیرا ہوتا ہے مگر لفظوں (ردیف) نے آپ کو پکڑ کر کہا ں پہنچا دیا۔
دِل کے جذبات بیاں اُن سے نہیں کر پاتا
وہ نشہ ہے یہ جو بوتل میں چُھپا رہتا ہے
دل کے جذبات کا اظہار بہت مشکل ہے
یہ وہ نشہ ہے جو بوتل میں چھپا رہتا ہے
دِل کی تنہائی ہے مانُوس بہت دھڑکن سے
ایک سناٹا جو ہلچل میں چُھپا رہتا ہے
ایک سناٹا سا ہلچل میں چھپا رہتا ہے
دِل کی ہے ایک تمنا کِسی عاشق سے ملوں
وہ تو دِیوانہ ہے جنگل میں چُھپا رہتا ہے
اور عاشق جو ہے جنگل میں چھپا رہتا ہے


کوئی تقدیر گُزارے بِنا کیسے جانے
آج ظاہر ہے جو وہ کل میں چُھپا رہتا ہے
"تقدیر گزارنا "محاورہ ٹھیک نہیں۔پھر آپ یوں لگ رہا ہے کچھ کہنا ہی نہیں چاہ رہے محض کل کا قافیہ فٹ کر رہے ہیں ، اسے ہی قافیہ پیمائی کہتے ہیں۔

مُجھ کو انصاف دِلائے مرا مُنصف کیسے
ہائے قاتل مرا مقتل میں چُھپا رہتا ہے
قافیہ مقتل فٹ کرنا تھا
کیسے کیسےلِکھا کرتا ہوں مضامیں شارؔق
جانے کیا کیا دلِ پاگل میں چھپا رہتا ہے
"دل پاگل "ترکیب درست نہیں ۔اگر مان بھی لی جائے تب بھی مقطع میں کوئی جان نہیں۔
 

امین شارق

محفلین
کیا بات ہے یاسر شاہ سر بہت اچھی اصلاح فرمائی۔مقطع سمیت دو اشعار نکال دئے ہیں ایک نئے مقطع کے ساتھ حاضر ہوتا ہوں۔
حُسن ایسے ترا آنچل میں چُھپا رہتا ہے
چاند جیسے کوئی بادل میں چُھپا رہتا ہے

کیا یہ شعر اب درست ہے؟
یہ اُجالا رخِ روشن کی جھلک ہے شاید
اور اندھیرا ترے کاجل میں چُھپا رہتا ہے

دل کے جذبات کا اظہار بہت مشکل ہے
وہ نشہ ہے یہ جو بوتل میں چُھپا رہتا ہے

دِل کی تنہائی ہے مانُوس بہت دھڑکن سے
ایک سناٹا سا ہلچل میں چھپا رہتا ہے

دِل کی ہے ایک تمنا کِسی عاشق سے ملوں
اور عاشق جو ہے جنگل میں چھپا رہتا ہے

کیا اب چلے گا؟
وقت کو کوئی گُزارے بِنا کیسے جانے؟
آج ظاہر ہے جو وہ کل میں چُھپا رہتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
مطلع کی اصلاح میں کرتا تو مشورہ دیتا کہ
حسن کچھ یوں ترے....
باقی اشعار ٹھیک ہو گئے ہیں لیکن نشہ کا درست تلفظ یاسر شاہ کے مشورے کے مطابق ہی درست ہو گا
یہ وہ نشّہ ہے، جو بوتل....
 
ہم نے تو غور ہی نہیں کیا ۔۔۔ اور شارقؔ بھائی ڈبل سنچری کے قریب بھی پہنچ گئے!!!
حالانکہ پہلے انہوں نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ سنچری کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہرٹ ہو جائیں گے :)

مذاق کیا ہے بھائی ۔۔۔ دل پر مت لے لیجیے گا 🙏🙏
 

یاسر شاہ

محفلین
کیا بات ہے یاسر شاہ سر بہت اچھی اصلاح فرمائی۔مقطع سمیت دو اشعار نکال دئے ہیں ایک نئے مقطع کے ساتھ حاضر ہوتا ہوں۔
حُسن ایسے ترا آنچل میں چُھپا رہتا ہے
چاند جیسے کوئی بادل میں چُھپا رہتا ہے

کیا یہ شعر اب درست ہے؟
یہ اُجالا رخِ روشن کی جھلک ہے شاید
اور اندھیرا ترے کاجل میں چُھپا رہتا ہے

دل کے جذبات کا اظہار بہت مشکل ہے
وہ نشہ ہے یہ جو بوتل میں چُھپا رہتا ہے

دِل کی تنہائی ہے مانُوس بہت دھڑکن سے
ایک سناٹا سا ہلچل میں چھپا رہتا ہے

دِل کی ہے ایک تمنا کِسی عاشق سے ملوں
اور عاشق جو ہے جنگل میں چھپا رہتا ہے

کیا اب چلے گا؟
وقت کو کوئی گُزارے بِنا کیسے جانے؟
آج ظاہر ہے جو وہ کل میں چُھپا رہتا ہے
اعجاز صاحب نے کسٹم کلیئرنس دے دی تو کیا کہا جا سکتا ہے۔ویسے مجھ کند ذہن پر اب بھی دوسرےاور آخری شعر کے معارف نہ کھل سکے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
ہم نے تو غور ہی نہیں کیا ۔۔۔ اور شارقؔ بھائی ڈبل سنچری کے قریب بھی پہنچ گئے!!!
حالانکہ پہلے انہوں نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ سنچری کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہرٹ ہو جائیں گے :)

مذاق کیا ہے بھائی ۔۔۔ دل پر مت لے لیجیے گا 🙏🙏
ویسے سنچری کے بعد ان کے کلام میں بہتری آئی ہے۔استقامت اور مستقل مزاجی رنگ لا رہی ہے۔ماشاء اللہ۔
 

امین شارق

محفلین
اعجاز صاحب نے کسٹم کلیئرنس دے دی تو کیا کہا جا سکتا ہے۔ویسے مجھ کند ذہن پر اب بھی دوسرےاور آخری شعر کے معارف نہ کھل سکے۔
یاسر شاہ سر کند ذہن تو ہم جیسے سیکھنے والے طفلِ مکتب ہیں جو آپ جیسے روشن ذہن اساتذہ کرام سے اصلاح کے طلب گار رہتے ہیں۔
یہ اُجالا رخِ روشن کی جھلک ہے شاید
اور اندھیرا ترے کاجل میں چُھپا رہتا ہے

یاسر شاہ سر اس شعر میں محبوب کی خوب صورتی کو رُخِ روشن سے تشبیہ دینے کی کوشش کی ہے اور دوسرے مصرعے میں محبوب کی آنکھوں کے کاجل کی تعریف کی ہے اس لئے کاجل کی سیاہی کو اندھیرے سے بہتر کہا ہے۔
وقت کو کوئی گُزارے بِنا کیسے جانے؟
آج ظاہر ہے جو وہ کل میں چُھپا رہتا ہے

یہاں یہ کہنا مقصود تھا کہ آنے والے حالات کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ کل کیا ہوگا؟ جیسے جیسے ہم وقت گزارتے جاتے ہیں ہمیں پتہ چلتا رہتا ہے آج جو ہم پر ظاہر ہوا ہے وہ آنے والے کل میں چھپا ہوا تھا لیکن جیسے ہی وہ کل، آج میں تبدیل ہوا تو ہم پر حالات کا ادراک ہوا ہے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
اور اندھیرا ترے کاجل میں چُھپا رہتا ہے

دوسرے مصرعے میں محبوب کی آنکھوں کے کاجل کی تعریف کی ہے اس لئے کاجل کی سیاہی کو اندھیرے سے بہتر کہا ہے۔
کاجل کی سیاہی کا اندھیرے سے بہتر ہونے کا کوئی سراغ مصرع میں نہیں۔
 
آخری تدوین:

امین شارق

محفلین
اعجاز صاحب نے کسٹم کلیئرنس دے دی تو کیا کہا جا سکتا ہے۔ویسے مجھ کند ذہن پر اب بھی دوسرےاور آخری شعر کے معارف نہ کھل سکے۔
یاسر شاہ سر کند ذہن تو ہم جیسے سیکھنے والے طفلِ مکتب ہیں جو آپ جیسے روشن ذہن اساتذہ کرام سے اصلاح کے طلب گار رہتے ہیں۔
یہ اُجالا رخِ روشن کی جھلک ہے شاید
اور اندھیرا ترے کاجل میں چُھپا رہتا ہے

یاسر شاہ سر اس شعر میں محبوب کی خوب صورتی کو رُخِ روشن سے تشبیہ دینے کی کوشش کی ہے اور دوسرے مصرعے میں محبوب کی آنکھوں کے کاجل کی تعریف کی ہے اس لئے کاجل کی سیاہی کو اندھیرے سے بہتر کہا ہے۔
وقت کو کوئی گُزارے بِنا کیسے جانے؟
آج ظاہر ہے جو وہ کل میں چُھپا رہتا ہے

یہاں یہ کہنا مقصود تھا کہ آنے والے حالات کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ کل کیا ہوگا؟ جیسے جیسے ہم وقت گزارتے جاتے ہیں ہمیں پتہ چلتا رہتا ہے آج جو ہم پر ظاہر ہوا ہے وہ آنے والے کل میں چھپا ہوا تھا لیکن جیسے ہی وہ کل، آج میں تبدیل ہوا تو ہم پر حالات کا ادراک ہوا ہے۔
آج کل آپ کے مطالعے میں کونسی ادبی کتب ہیں؟
برگِ نے، پہلی بارش اور اظہارِ عقیدت مجموعہ نعت علامہ ارشد القادری۔۔
 

الف عین

لائبریرین
الف عین سر یاسر شاہ سر مقطع پیشِ خدمت ہے۔
مِلتی ہے رب کی رضا تقویٰ سے شارؔق بے شک
رب کا انعام توکل میں چھپا رہتا ہے
توکل اور تقویٰ ہم معنی تو نہیں! ہاں، تقویٰ کو صبر سے بدل دو تو روانی بھی بہتر ہو سکتی ہے اور دو لختی بھی دور ہو جاتی ہے
 

امین شارق

محفلین
الف عین سر یاسر شاہ سر اب غزل مکمل ہوگئی یے۔
حُسن ایسے ترا آنچل میں چُھپا رہتا ہے
چاند جیسے کوئی بادل میں چُھپا رہتا ہے

یہ اُجالا رخِ روشن کی جھلک ہے شاید
اور اندھیرا ترے کاجل میں چُھپا رہتا ہے

دل کے جذبات کا اظہار بہت مشکل ہے
یہ وہ نشہ ہے جو بوتل میں چُھپا رہتا ہے

دِل کی تنہائی ہے مانُوس بہت دھڑکن سے
ایک سناٹا سا ہلچل میں چھپا رہتا ہے

دِل کی ہے ایک تمنا کِسی عاشق سے ملوں
اور عاشق جو ہے جنگل میں چھپا رہتا ہے

وقت کو کوئی گُزارے بِنا کیسے جانے؟
آج ظاہر ہے جو وہ کل میں چُھپا رہتا ہے

مِلتی ہے رب کی رضا صبر سے
شارؔق بے شک
رب کا انعام توکل میں چھپا رہتا ہے
 
Top