امین شارق
محفلین
الف عین سر
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
حُسن جب شد ومد سے اُٹھتا ہے
عِشق تب اپنی حد سے اُٹھتا ہے
زِینتِ زُلفِ یار ہے بنتا
پُھول جب اپنے قد سے اُٹھتا ہے
ختم ہوتا ہے جنوں پر آخر
عِشق جب بھی خرد سے اُٹھتا ہے
اتنا جنگل میں بھی نہیں ہوگا
خوف جتنا اسد سے اُٹھتا ہے
اُس کو کوئی نہیں گِراسکتا
جو خُدا کی مدد سے اُٹھتا ہے
راضی رب کی رضا میں رہ بندے
آدمی کب حسد سے اُٹھتا ہے؟
یہ جو لہروں کا شور ہے ہمدم
چاند کے جزر و مد سے اُٹھتا ہے
روزِ محشر یہ کُھلے گا ہم پر
کون کیسے لحد سے اُٹھتا ہے؟
غالب و میر سا شاعر شارؔق
کوئی بس ایک صد سے اُٹھتا ہے
عِشق تب اپنی حد سے اُٹھتا ہے
زِینتِ زُلفِ یار ہے بنتا
پُھول جب اپنے قد سے اُٹھتا ہے
ختم ہوتا ہے جنوں پر آخر
عِشق جب بھی خرد سے اُٹھتا ہے
اتنا جنگل میں بھی نہیں ہوگا
خوف جتنا اسد سے اُٹھتا ہے
اُس کو کوئی نہیں گِراسکتا
جو خُدا کی مدد سے اُٹھتا ہے
راضی رب کی رضا میں رہ بندے
آدمی کب حسد سے اُٹھتا ہے؟
یہ جو لہروں کا شور ہے ہمدم
چاند کے جزر و مد سے اُٹھتا ہے
روزِ محشر یہ کُھلے گا ہم پر
کون کیسے لحد سے اُٹھتا ہے؟
غالب و میر سا شاعر شارؔق
کوئی بس ایک صد سے اُٹھتا ہے