حُسن قاتِل ہُوا ہی چاہتا ہے غزل نمبر 139 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
حُسن قاتِل ہُوا ہی چاہتا ہے
دِل یہ مائِل ہُوا ہی چاہتا ہے

آشنا دِل ہُوا ہی چاہتا ہے
یعنی گھائِل ہُوا ہی چاہتا ہے

صبر رکھ اے تماش بِین ذرا
رقصِ بِسمل ہُوا ہی چاہتا ہے

جِس کو کہتے ہیں عِشق اے ہمدم!
میری منزِل ہُوا ہی چاہتا ہے

بزمِ عُشاق میں ہمارا بھی
نام شامِل ہُوا ہی چاہتا ہے

ِہجر کے صدمے سہ لے دِل تُو ذرا
وصل حاصِل ہُوا ہی چاہتا ہے

چاند سے میرے روشنی لے کر
چاند کامِل ہُوا ہی چاہتا ہے

تیر زِندہ اگر جو رہنا ہے
بحر ساحِل ہُوا ہی چاہتا ہے

نُورِ حق پھیل جائے گا اِک دِن
ختم باطِل ہُوا ہی چاہتا ہے

پِھر ہے
شارؔق غزل سرا دیکھو
رنگِ محفِل ہُوا ہی چاہتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
الف عین سر
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
حُسن قاتِل ہُوا ہی چاہتا ہے
دِل یہ مائِل ہُوا ہی چاہتا ہے
دل کا محض مائل ہونا محاورہ نہیں، کسی شے پر مائل ہو سکتا ہے جو مذکور نہیں

آشنا دِل ہُوا ہی چاہتا ہے
یعنی گھائِل ہُوا ہی چاہتا ہے
گھایل، ی پر زبر، درست تلفظ ہے۔ یہ ہندی لفظ ہے اور ی یا ہمزہ پر زبر کے ساتگ

صبر رکھ اے تماش بِین ذرا
رقصِ بِسمل ہُوا ہی چاہتا ہے
درست

جِس کو کہتے ہیں عِشق اے ہمدم!
میری منزِل ہُوا ہی چاہتا ہے
قافیہ بندی لگتا ہے، اسے نکال دیں
بزمِ عُشاق میں ہمارا بھی
نام شامِل ہُوا ہی چاہتا ہے
درست

ِہجر کے صدمے سہ لے دِل تُو ذرا
وصل حاصِل ہُوا ہی چاہتا ہے
پہلا مصرع روانی چاہتا ہے
چاند سے میرے روشنی لے کر
چاند کامِل ہُوا ہی چاہتا ہے
درست

تیر زِندہ اگر جو رہنا ہے
بحر ساحِل ہُوا ہی چاہتا ہے
دونوں مصرعوں کا "ہے" پر اختتام! واضح بھی نہیں
نُورِ حق پھیل جائے گا اِک دِن
ختم باطِل ہُوا ہی چاہتا ہے
درست

پِھر ہے شارؔق غزل سرا دیکھو
رنگِ محفِل ہُوا ہی چاہتا ہے
رنگ محفل ہونا محاورہ نہیں، آنا ہوتا ہےیا رنگ محفل کا کچھ اور ہونا، جیسے مست، دلچسپ، دل آویز وغیرہ
 
Top