کاشفی
محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
حُسن نے یا کہ عشق نے، کس نے یہ گل کھلا دیا
تجھ کو خدا بنا دیا، بندہ مجھے بنا دیا
اب یہ کمالِ کفر ہو یا کہ کمالِ دین ہو
آپ کے پائے ناز پر میں نے تو سر جھکا دیا
دل کی خلش کو کیا کہوں، دل بھی عجیب چیز ہے
اس کو میں کررہا ہوں یاد، جس نے مجھے بھُلا دیا
یہ مرا اضطرابِ عشق یعنی یہی شبابِ عشق
یہ تو دیا نصیب نے، تیری نظر نے کیا دیا
حُسنِ نظر نواز نے، حُسنِ کرشمہ ساز نے
پردہ کبھی اُٹھا دیا، پردہ کبھی گِرا دیا
میری تباہیوں میں ہے رازِ حیات دائمی
میری تباہیاں نہ دیکھ، تونے پھر آسرا دیا
یاس میں زحمتیں سہی، یاس سے مطمئن تھا میں
دیکھ نگاہِ التفات تو نے پھر آسرا دیا
اصل میں دونوں ایک تھے پھر بھی مرے نصیب نے
دل بھی مجھے جدا دیا، غم بھی مجھے جدا دیا
ہم نے لٹا لٹا دیا اپنا متاعِ عاشقی
جب بھی نگاہِ حُسن نے عشق کا واسطہ دیا
(بہزاد لکھنوی)
حُسن نے یا کہ عشق نے، کس نے یہ گل کھلا دیا
تجھ کو خدا بنا دیا، بندہ مجھے بنا دیا
اب یہ کمالِ کفر ہو یا کہ کمالِ دین ہو
آپ کے پائے ناز پر میں نے تو سر جھکا دیا
دل کی خلش کو کیا کہوں، دل بھی عجیب چیز ہے
اس کو میں کررہا ہوں یاد، جس نے مجھے بھُلا دیا
یہ مرا اضطرابِ عشق یعنی یہی شبابِ عشق
یہ تو دیا نصیب نے، تیری نظر نے کیا دیا
حُسنِ نظر نواز نے، حُسنِ کرشمہ ساز نے
پردہ کبھی اُٹھا دیا، پردہ کبھی گِرا دیا
میری تباہیوں میں ہے رازِ حیات دائمی
میری تباہیاں نہ دیکھ، تونے پھر آسرا دیا
یاس میں زحمتیں سہی، یاس سے مطمئن تھا میں
دیکھ نگاہِ التفات تو نے پھر آسرا دیا
اصل میں دونوں ایک تھے پھر بھی مرے نصیب نے
دل بھی مجھے جدا دیا، غم بھی مجھے جدا دیا
ہم نے لٹا لٹا دیا اپنا متاعِ عاشقی
جب بھی نگاہِ حُسن نے عشق کا واسطہ دیا