امین شارق
محفلین
الف عین ظہیراحمدظہیر یاسر شاہ محمّد احسن سمیع :راحل:
حُسن کے ہیں لگ گئے بازار میرے سامنے
عشق کا بھی ہے عجب کردار میرے سامنے
یہ بھی ہوتا ہے پسِ دیوار میرے سامنے
شکوہِ ساقی کریں مے خوار میرے سامنے
روز ہوتی ہے تجارت حُسن و عشق کے درمیاں
زندگی ہے ایک کاروبار میرے سامنے
حُسن کو ہے ناز خود پر لیکن میں بھی عشق ہوں
ڈال دے گا ایک دن ہتھیار میرے سامنے
اے خدا تُو حُسن والوں کو بھی کچھ آزار دے
ہیں ہزاروں عشق کے بیمار میرے سامنے
تیشہ لے کر طیش میں فرہاد نے یہ کہ دیا
رائی کا دانہ ہے یہ کوہسار میرے سامنے
عشق نے رانجھا بنایا ہے مراد بخش کو
قیس کو مجنوں بنائے پیار میرے سامنے
خونِ ناحق پر یہ شمع رات بھر روتی رہی
اور پروانے ہیں جان نثار میرے سامنے
دل میں آتا ہے گُماں کہ خوشنما دو پُھول ہیں
جب بھی آتے ہیں تیرے رُخسار میرے سامنے
عاشقوں نے کیسے کیسے وقت دیکھے عشق میں
وقت کی آنکھیں ہیں اشکبار میرے سامنے
ہم بھی جاگے شب کے ہمراہ پر نہیں آئے وہ اور
شب تھی دن کی محوِ اِنتظار میرے سامنے
پُھول خوشبو کے لئے کچھ چُن لئے تو کیا ہوا
رو رہے ہیں گڑگڑا کر خار میرے سامنے
رَحم نہ آیا خزاں کو کردیا خانہ خراب
دیر تک روتا رہا گلزار میرے سامنے
کل تلک تو جان لینے کے لئے بے تاب تھے
آج تم کو کیا ہوا سرکار میرے سامنے
بہرہ مند عاشق کبھی شارؔق نہیں دیکھا کہیں
عاشقوں کے بن گئے مزار میرے سامنے
عشق کا بھی ہے عجب کردار میرے سامنے
یہ بھی ہوتا ہے پسِ دیوار میرے سامنے
شکوہِ ساقی کریں مے خوار میرے سامنے
روز ہوتی ہے تجارت حُسن و عشق کے درمیاں
زندگی ہے ایک کاروبار میرے سامنے
حُسن کو ہے ناز خود پر لیکن میں بھی عشق ہوں
ڈال دے گا ایک دن ہتھیار میرے سامنے
اے خدا تُو حُسن والوں کو بھی کچھ آزار دے
ہیں ہزاروں عشق کے بیمار میرے سامنے
تیشہ لے کر طیش میں فرہاد نے یہ کہ دیا
رائی کا دانہ ہے یہ کوہسار میرے سامنے
عشق نے رانجھا بنایا ہے مراد بخش کو
قیس کو مجنوں بنائے پیار میرے سامنے
خونِ ناحق پر یہ شمع رات بھر روتی رہی
اور پروانے ہیں جان نثار میرے سامنے
دل میں آتا ہے گُماں کہ خوشنما دو پُھول ہیں
جب بھی آتے ہیں تیرے رُخسار میرے سامنے
عاشقوں نے کیسے کیسے وقت دیکھے عشق میں
وقت کی آنکھیں ہیں اشکبار میرے سامنے
ہم بھی جاگے شب کے ہمراہ پر نہیں آئے وہ اور
شب تھی دن کی محوِ اِنتظار میرے سامنے
پُھول خوشبو کے لئے کچھ چُن لئے تو کیا ہوا
رو رہے ہیں گڑگڑا کر خار میرے سامنے
رَحم نہ آیا خزاں کو کردیا خانہ خراب
دیر تک روتا رہا گلزار میرے سامنے
کل تلک تو جان لینے کے لئے بے تاب تھے
آج تم کو کیا ہوا سرکار میرے سامنے
بہرہ مند عاشق کبھی شارؔق نہیں دیکھا کہیں
عاشقوں کے بن گئے مزار میرے سامنے