حُسن کے ہیں لگ گئے بازار میرے سامنے غزل نمبر 94 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین ظہیراحمدظہیر یاسر شاہ محمّد احسن سمیع :راحل:
حُسن کے ہیں لگ گئے بازار میرے سامنے
عشق کا بھی ہے عجب کردار میرے سامنے

یہ بھی ہوتا ہے پسِ دیوار میرے سامنے
شکوہِ ساقی کریں مے خوار میرے سامنے

روز ہوتی ہے تجارت حُسن و عشق کے درمیاں
زندگی ہے ایک کاروبار میرے سامنے

حُسن کو ہے ناز خود پر لیکن میں بھی عشق ہوں
ڈال دے گا ایک دن ہتھیار میرے سامنے

اے خدا تُو حُسن والوں کو بھی کچھ آزار دے
ہیں ہزاروں عشق کے بیمار میرے سامنے

تیشہ لے کر طیش میں فرہاد نے یہ کہ دیا
رائی کا دانہ ہے یہ کوہسار میرے سامنے

عشق نے رانجھا بنایا ہے مراد بخش کو
قیس کو مجنوں بنائے پیار میرے سامنے

خونِ ناحق پر یہ شمع رات بھر روتی رہی
اور پروانے ہیں جان نثار میرے سامنے

دل میں آتا ہے گُماں کہ خوشنما دو پُھول ہیں
جب بھی آتے ہیں تیرے رُخسار میرے سامنے

عاشقوں نے کیسے کیسے وقت دیکھے عشق میں
وقت کی آنکھیں ہیں اشکبار میرے سامنے

ہم بھی جاگے شب کے ہمراہ پر نہیں آئے وہ اور
شب تھی دن کی محوِ اِنتظار میرے سامنے

پُھول خوشبو کے لئے کچھ چُن لئے تو کیا ہوا
رو رہے ہیں گڑگڑا کر خار میرے سامنے

رَحم نہ آیا خزاں کو کردیا خانہ خراب
دیر تک روتا رہا گلزار میرے سامنے

کل تلک تو جان لینے کے لئے بے تاب تھے
آج تم کو کیا ہوا سرکار میرے سامنے

بہرہ مند عاشق کبھی شارؔق نہیں دیکھا کہیں
عاشقوں کے بن گئے مزار میرے سامنے
 

یاسر شاہ

محفلین
امین بھائی غزل پہ تو تبصرہ فرصت سے کروں گا پہلے ایک سوال کا جواب دیجیے۔جہاں آپ کی غزل میں کچھ غیر موزوں اشعار ہوتے ہیں وہیں موزوں بھی ہوتے ہیں۔
یہ فرمائیے اشعار کو موزوں کس طرح کرتے ہیں ؟ علم عروض کی شد بد سے، گنگنانے سے یا پھر عروضی کیلکیولیٹر کے استعمال سے؟
 
امین بھائی غزل پہ تو تبصرہ فرصت سے کروں گا پہلے ایک سوال کا جواب دیجیے۔جہاں آپ کی غزل میں کچھ غیر موزوں اشعار ہوتے ہیں وہیں موزوں بھی ہوتے ہیں۔
یہ فرمائیے اشعار کو موزوں کس طرح کرتے ہیں ؟ علم عروض کی شد بد سے، گنگنانے سے یا پھر عروضی کیلکیولیٹر کے استعمال سے؟
میرا اپنا خیال ہے کہ گنگنا کر اٹکل سے موزوں کر لیتے ہیں جیسا کہ مجھ سمیت اکثر لوگ کرتے ہیں :)
 

امین شارق

محفلین
علمِ عروض کی شد بد مجھے بالکل نہیں ہیں نہ ہی عروضی کیلکیولیٹر احسن سر صحیح فرمار رہیں ہیں اندازے سے ہی جیسے تیسے کہ لیتا ہوں۔
 
علمِ عروض کی شد بد مجھے بالکل نہیں ہیں نہ ہی عروضی کیلکیولیٹر احسن سر صحیح فرمار رہیں ہیں اندازے سے ہی جیسے تیسے کہ لیتا ہوں۔
یار اسی لیے تو افسوس ہوتا ہے ۔۔۔ کوئی95ویں غزل آپ لگا چکے ہیں، مگر ابھی تک اندازوں سے کام چلا رہے ہیں ۔۔۔ تھوڑی سی کوشش کریں، اور عروض کی بنیادی باتیں سیکھ لیں ۔۔۔ یہ اتنا مشکل نہیں جتنا دکھائی دیتا ہے، بلکہ اب تو بنیادی عروض پر نہایت عام فہم کتابیں دستیاب ہیں ۔۔۔ اچھی شاعری کے لیے جتنا عروض آنا چاہیے اس کو سیکھنا کچھ مشکل نہیں، کچھ مہینے میں ہی اتنی مہارت پیدا کی جاسکتی ہے کہ اپنے شعروں کا وزن خود پرکھا جا سکے۔
 

زیک

مسافر
یار اسی لیے تو افسوس ہوتا ہے ۔۔۔ کوئی95ویں غزل آپ لگا چکے ہیں، مگر ابھی تک اندازوں سے کام چلا رہے ہیں ۔۔۔ تھوڑی سی کوشش کریں، اور عروض کی بنیادی باتیں سیکھ لیں ۔۔۔ یہ اتنا مشکل نہیں جتنا دکھائی دیتا ہے، بلکہ اب تو بنیادی عروض پر نہایت عام فہم کتابیں دستیاب ہیں ۔۔۔ اچھی شاعری کے لیے جتنا عروض آنا چاہیے اس کو سیکھنا کچھ مشکل نہیں، کچھ مہینے میں ہی اتنی مہارت پیدا کی جاسکتی ہے کہ اپنے شعروں کا وزن خود پرکھا جا سکے۔
جب آپ لوگ ہر غزل کو درست کئے جا رہے ہیں تو ایسی محنت کا فائدہ؟
 

یاسر شاہ

محفلین
بھائی امین اپنی توجہ فی الحال اوزان سیکھنے کی طرف مرکوز کریں۔اس دوران اگر کوئی اشعار کی مشق کریں جس پہ رائے چاہیے ہو تو میرا مشورہ ہے پانچ اشعار سے زیادہ نہ پیش کریں۔فی الحال سرخ کیے دے رہا ہوں ان مقامات کو جو وزن میں نہیں۔مضامین و خیالات تو بعد کی بات ہے۔
الف عین ظہیراحمدظہیر یاسر شاہ محمّد احسن سمیع :راحل:
حُسن کے ہیں لگ گئے بازار میرے سامنے
عشق کا بھی ہے عجب کردار میرے سامنے

یہ بھی ہوتا ہے پسِ دیوار میرے سامنے
شکوہِ ساقی کریں مے خوار میرے سامنے

DE]روز ہوتی ہے تجارت حُسن و عشق کے درمیاں[/ICODE]
زندگی ہے ایک کاروبار میرے سامنے


حُسن کو ہے ناز خود پر لیکن میں بھی عشق ہوں
ڈال دے گا ایک دن ہتھیار میرے سامنے

اے خدا تُو حُسن والوں کو بھی کچھ آزار دے
ہیں ہزاروں عشق کے بیمار میرے سامنے

تیشہ لے کر طیش میں فرہاد نے یہ کہ دیا
رائی کا دانہ ہے یہ
کوہسار میرے سامنے

عشق نے رانجھا بنایا ہے مراد بخش کو
قیس کو مجنوں بنائے پیار میرے سامنے

خونِ ناحق پر یہ شمع رات بھر روتی رہی
اور پروانے ہیں جان نثار میرے سامنے


دل میں آتا ہے گُماں کہ خوشنما دو پُھول ہیں
جب بھی آتے ہیں
تیرے رُخسار میرے سامنے

عاشقوں نے کیسے کیسے وقت دیکھے عشق میں

وقت کی آنکھیں ہیں اشکبار میرے سامنے

ہم بھی جاگے شب کے ہمراہ پر نہیں آئے وہ اور
شب تھی دن کی محوِ اِنتظار میرے سامنے


پُھول خوشبو کے لئے کچھ چُن لئے تو کیا ہوا
رو رہے ہیں گڑگڑا کر خار میرے سامنے


رَحم نہ آیا خزاں کو کردیا خانہ خراب
دیر تک روتا رہا گلزار میرے سامنے

کل تلک تو جان لینے کے لئے بے تاب تھے
آج تم کو کیا ہوا سرکار میرے سامنے


بہرہ مند عاشق کبھی شارؔق نہیں دیکھا کہیں
عاشقوں کے بن گئے مزار میرے
 
ٹھیک ہے سر مجھے غزلوں کی سینچری مکمل کرنے دیں اس کے بعد نہیں کروں گا کوئی غزل پوسٹ۔
اس قسم کی جذباتی باتوں پر مجھے شدید غصہ آتا ہے!
بھائی یہاں کس نے آپ کو اپنا کلام پیش کرنے سے مطلقاً روکا ہے؟
استاد محترم، یاسر بھائی جیسے اساتذہ یہاں بغیر کسی مالی منفعت کے وہ سب سکھا رہے ہیں جو شاید کوئی اور پیسے لے کر بھی نہ سکھائے. ایسے میں اگر اساتذہ نصیحتاً کوئی سخت بات کہہ بھی دیتے ہیں تو اس پر ناک بھنوں چڑھانےکے بجائے ان کی روشنی میں اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے. اگر کلام میں بہتری کے بجائے محض داد و دہش مطلوب ہیں تو فیس بک پر کوئی پیج بنا لیں، وہاں رسمی واہ واہ کرنے والوں کی پوری پلٹن مل جائے گی سلامی دینے کے لیے.
بہر کیف، آپ سو کیا دو سو غزلوں کے بعد بھی اپنا کلام پیش کر سکتے ہیں... مگر آپ کے لیے غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اگر سوویں غزل کے بعد بھی وہی اصلاحی نکات دیکھنےکو ملیں کو پہلی غزل کے پر اٹھائے گئے تھے تو اس میں اصل نقصان کس کا ہے؟
 

La Alma

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ تقطیع کے عددی نظام کو دھیان میں رکھیں گے تو غزل کو کسی بحر میں لانا آپ کے لیے زیادہ مشکل نہیں ہو گا۔ لکھتے رہیے۔
 
Top