حکومت بتائے وہ وقت کب آئے گا جب کوئی شہری بھوکا نہیں سوئے گا، سپریم کورٹ،

حکومت بتائے وہ وقت کب آئے گا جب کوئی شہری بھوکا نہیںسوئے گا، سپریم کورٹ، وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے 17 جولائی تک حتمی ٹائم فریم طلب

اسلام آباد (نمائندہ جنگ، آن لائن) سپریم کورٹ نے آٹے اور روز مرہ استعمال کی کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے کیس کی سماعت کرتے ہوئے وفاقی وصوبائی حکومت سے اس حوالے سے17 جولائی تک حتمی ٹائم فریم طلب کرلیا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ حکومت بتائے وہ وقت کب آئیگا جب کوئی شہری بھوکا نہیں سوئے گا۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگروفاقی وصوبائی حکومتیں عدالت کو ٹائم فریم نہیں دیتیں تو پھر انہیں اس کے نتائج بھی بھگتنا پڑیں گے ہم سیدھی سادی چیز مانگ رہے ہیں لیکن ہمیں چکروں میں ڈالا جا رہا ہے ، سرکاری افسران افسری چھوڑ کر عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنا ئیں ،اب طفل تسلیوں سے کام نہیں چلے گا ، عدالت پچھلے8ماہ سے یہ مقدمہ سن رہی ہے لیکن کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آرہا ہے، کسی کمیٹی نے آج تک کسی بھوکے کا پیٹ نہیں بھرا ، اور نہ ہی کسی بل یا ایکٹ آف پارلیمنٹ نے کسی کے منہ میں نوالہ ڈالا ہے، غریبوں کو وافر اناج ہونے کے باوجود بھوک سے مرنے نہیں دینگے، مسائل کے حل کیلئے ہوش کے ساتھ جون کی بھی ضرورت ہے۔جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس اطہرسعید اورجسٹس عمرعطابندیال پرمشتمل تین رکنی بینچ نے منگل کے روز آٹے کی قیمتوں میں اضافے کیخلاف جماعت اسلامی کے سینئر رہنما لیاقت بلوچ کی درخواست کی سماعت کی توجسٹس جواد ایس خواجہ نے صوبوں کی جانب سے ٹائم فریم نہ دئیے جانے پرناگواری کااظہا ر کرتے ہوئے کہاکہ عدالت نے صوبوں سے غریب اورامداد کے مستحق افراد کو سستی اشیاء کی فراہمی کے لیے ٹائم فریم مانگا تھا لیکن ابھی تک کسی صوبے نے بھی نہیں دی ، البتہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں کچھ عمل ہوتا ہوانظر آرہا ہے۔ انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ عدالت نے سرکار کو نہیں چلانا بلکہ ہم نے صرف آئین کے آرٹیکل 9 اور 14کو دیکھنا ہے جسکے تحت لوگوں کی عزت اور وقار کا تحفظ سرکار کی ذمہ داری ہے۔عدالت نے قراردیا کہ صوبے مستحق افراد کورعایتی نرخوں پر آٹااوردیگراشیائے ضروریہ فراہم کرنے کیلئے جو بھی منصوبہ بنائیں گے ہم اس کا جائزہ لیں گے۔ بعد ازاں عدالت نے تمام متعلقہ سیکرٹری فوڈز اورایڈووکیٹس جنرل کو ہدایت کی ہے کہ وہ باہمی مشاورت کے بعد عدالت کوٹائم فریم سے آگاہ کریں مزید سماعت 17 جولائی تک ملتوی کر دی گئی۔ آن لائن کے مطابق جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس میں کہاکہ دنیا کا کوئی ایسا مشکل کام نہیں کہ جس کا کوئی حل نہ ہو غریبوں کے مسائل حل کرنے کیلئے ہوش کیساتھ ساتھ جنون کی بھی شدید ضرورت ہے۔غریبوں کو وافر اناج ہونے کے باوجود بھوک سے نہیں مرنے دیں گے،امداد کا نظام آن لائن ہونا چاہئے۔مشکلات ضرور ہیں لیکن اس کا کوئی حل نہیں۔اس معاملے کی وجہ سے کافی پریشانی ہے۔ اے اے جی عتیق شاہ نے کہا کہ غریب تک آٹا کیسے پہنچے گا اس کیلئے کام کررہے ہیں۔ 67 فیصد سے زائد آبادی کا مسئلہ ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آرٹیکل 14 کے تحت شہریوں کی عزت نفس بھی ببحال رہے۔ جوڈیشل ریویو کرنے کا ہمیں کافی تجربہ ہے‘ چالیس سال سے ایسا کررہے ہیں۔ جب چیزیں ہمارے سامنے آئیں گی تو اس کا جوڈیشل ریویو کرلیں گے۔ عملدرآمد کی بات ہوئی تو مانیٹرنگ شروع ہوگی۔
 
آزاد عدلیہ زندہ باد۔ آزاد عدلیہ کی مخالفت کرنے والے بتائیں کہ کیا عدلیہ آزاد ہونے سے پہلے حکومتوں سے ایسے سوال پوچھتی تھیں؟ اور ایسے کیس زیر سماعت لاکر حکومتوں کی جواب طلبی کرتی تھیں؟
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آزاد عدلیہ زندہ باد۔ آزاد عدلیہ کی مخالفت کرنے والے بتائیں کہ کیا عدلیہ آزاد ہونے سے پہلے حکومتوں سے ایسے سوال پوچھتی تھیں؟ اور ایسے کیس زیر سماعت لاکر حکومتوں کی جواب طلبی کرتی تھیں؟
جواب سترہ جولائی کے بعد۔ :)
ویسے اگر آپ یہ مراسلہ سترہ جولائی تک ہی روک لیتے تو شاید آپ کو خود بھی یہ سوال کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ :)
 
جواب سترہ جولائی کے بعد۔ :)
ویسے اگر آپ یہ مراسلہ سترہ جولائی تک ہی روک لیتے تو شاید آپ کو خود بھی یہ سوال کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ :)
دیکھیں عدالتوں کا کام کیس سننا اور فیصلے دینا ہے ۔ عملدرآمد متعلقہ ادارے کا کام ہوتا ہے اگر متعلقہ ادارہ کام نا کرے یا حکومت عمل نا کرے تو اس میں عدالت کا کیا قصور ؟
شکر کرنا چاہئے کہ عدالتوں نے حکومتوں سے باز پرس شروع کی ہے۔ عدلیہ آزاد ہونے سے پہلے اس بات کا تصور بھی مشکل تھا کہ کوئی عدالت حکومت کے خلاف کوئی کیس سننا بھی شروع کرے گی۔ اکثر ایسے کیس ناقابل سماعت قرار دے دیے جاتے تھے۔ :)
 

قیصرانی

لائبریرین
آزاد عدلیہ زندہ باد۔ آزاد عدلیہ کی مخالفت کرنے والے بتائیں کہ کیا عدلیہ آزاد ہونے سے پہلے حکومتوں سے ایسے سوال پوچھتی تھیں؟ اور ایسے کیس زیر سماعت لاکر حکومتوں کی جواب طلبی کرتی تھیں؟
ایک مشہور شعر کا استعارہ استعمال کروں گا کہ دیکھئے سترہ جولائی تک زلف سر ہوتی ہے یا یہ بہانہ چلے گا کہ جی ہماری زلفیں ہی نہیں ہیں :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
دیکھیں عدالتوں کا کام کیس سننا اور فیصلے دینا ہے ۔ عملدرآمد متعلقہ ادارے کا کام ہوتا ہے اگر متعلقہ ادارہ کام نا کرے یا حکومت عمل نا کرے تو اس میں عدالت کا کیا قصور ؟
شکر کرنا چاہئے کہ عدالتوں نے حکومتوں سے باز پرس شروع کی ہے۔ عدلیہ آزاد ہونے سے پہلے اس بات کا تصور بھی مشکل تھا کہ کوئی عدالت حکومت کے خلاف کوئی کیس سننا بھی شروع کرے گی۔ اکثر ایسے کیس ناقابل سماعت قرار دے دیے جاتے تھے۔ :)
زرداری کے دور حکومت میں رمضان کریم ہی کے دنوں میں زرداری صاحب نے ازخود لوڈ شیڈنگ کا نوٹس لے لیا تھا۔ اس سے اگلے دن سے ہی بڑی مضحکہ خیز صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ اس پر میں نے ان دنوں ایک مکالمہ لکھا تھا۔
مکالمہ: بجلی فراہمی میں تعطل
شاید سترہ جولائی کے بعد پھر ایسا ایک مکالمہ لکھنا پڑے۔ :)
 
زرداری کے دور حکومت میں رمضان کریم ہی کے دنوں میں زرداری صاحب نے ازخود لوڈ شیڈنگ کا نوٹس لے لیا تھا۔ اس سے اگلے دن سے ہی بڑی مضحکہ خیز صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ اس پر میں نے ان دنوں ایک مکالمہ لکھا تھا۔
مکالمہ: بجلی فراہمی میں تعطل
شاید سترہ جولائی کے بعد پھر ایسا ایک مکالمہ لکھنا پڑے۔ :)
زرداری صاحب جج تھے کیا؟
جج اور اگزیگٹو اختیارات رکھنے والے میں کیا تقابل؟
 
لاتعداد کرپٹ سیشن ججوں اور سول ججوں کے ہوتے ہوئے اگر کوئی چیف جسٹس اس طرح کا شگوفہ چھوڑدے، تو سادہ لوح قوم خوشی سے جھومتے ہوئے گنگنانے لگتی ہے کہ :
آزاد عدلیہ زندہ باد۔ آزاد عدلیہ کی مخالفت کرنے والے بتائیں کہ کیا عدلیہ آزاد ہونے سے پہلے حکومتوں سے ایسے سوال پوچھتی تھیں؟ اور ایسے کیس زیر سماعت لاکر حکومتوں کی جواب طلبی کرتی تھیں؟
 
لاتعداد کرپٹ سیشن ججوں اور سول ججوں کے ہوتے ہوئے اگر کوئی چیف جسٹس اس طرح کا شگوفہ چھوڑدے، تو سادہ لوح قوم خوشی سے جھومتے ہوئے گنگنانے لگتی ہے کہ :
کیا آپ چاہتے ہیں کہ عدلیہ ایسے کیس نا سنے؟
کاش آپ کہتے کہ جہاں عدلیہ ایسے کیس سن رہی ہے تو ساتھ ہی لاتعداد کرپٹ سیشن ججوں اور سول ججوں کے احتساب اور اصلاح کی بھی کوشش کرے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کیا آپ چاہتے ہیں کہ عدلیہ ایسے کیس نا سنے؟
کاش آپ کہتے کہ جہاں عدلیہ ایسے کیس سن رہی ہے تو ساتھ ہی لاتعداد کرپٹ سیشن ججوں اور سول ججوں کے احتساب اور اصلاح کی بھی کوشش کرے۔
یہ کام حکومتِ وقت کا ہے کہ ایسے افراد کو بھرتی نہ کرے جن کی شہرت ان کے اپنے جیسی ہو (یعنی حکمرانوں جیسی) اور پھر انہیں ترقی نہ دے۔ ابھی کچھ دن قبل ہی بڑی تعداد میں ججز وغیرہ فارغ ہوئے ہیں لاہور میں شاید؟
 
یہ کام حکومتِ وقت کا ہے کہ ایسے افراد کو بھرتی نہ کرے جن کی شہرت ان کے اپنے جیسی ہو (یعنی حکمرانوں جیسی) اور پھر انہیں ترقی نہ دے۔ ابھی کچھ دن قبل ہی بڑی تعداد میں ججز وغیرہ فارغ ہوئے ہیں لاہور میں شاید؟
اس خبر کی کچھ تفصیل؟
یہ میرے علم میں نہیں ہے۔
 
یہ کام حکومتِ وقت کا ہے کہ ایسے افراد کو بھرتی نہ کرے جن کی شہرت ان کے اپنے جیسی ہو (یعنی حکمرانوں جیسی) اور پھر انہیں ترقی نہ دے۔ ابھی کچھ دن قبل ہی بڑی تعداد میں ججز وغیرہ فارغ ہوئے ہیں لاہور میں شاید؟
درست ایسے نا اہل اور بددیانت ججوں کو بھرتی ہی نہیں کیا جانا چاہئے لیکن اگر حکومت یا کسی اور کی کرپشن کی وجہ سے ایسے لوگ جج بن جائیں تب بھی عدالت کے پاس احتساب کا اختیار تو ہے۔ ایسی صورت میں بھی میری بات درست ثابت ہوتی ہے کہ
کیا آپ چاہتے ہیں کہ عدلیہ ایسے کیس نا سنے؟
کاش آپ کہتے کہ جہاں عدلیہ ایسے کیس سن رہی ہے تو ساتھ ہی لاتعداد کرپٹ سیشن ججوں اور سول ججوں کے احتساب اور اصلاح کی بھی کوشش کرے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
درست ایسے نا اہل اور بددیانت ججوں کو بھرتی ہی نہیں کیا جانا چاہئے لیکن اگر حکومت یا کسی اور کی کرپشن کی وجہ سے ایسے لوگ جج بن جائیں تب بھی عدالت کے پاس احتساب کا اختیار تو ہے۔ ایسی صورت میں بھی میری بات درست ثابت ہوتی ہے کہ
برطرف کرنے کے علاوہ ان کے خلاف کاروائی بھی ہونی چاہئے جناب :)
 
Top