محمد بلال اعظم
لائبریرین
حکیم سعید شہید کو ہم سے بچھڑے آج 14 برس بیت گئے۔
حکیم حافظ محمد سعید (شہید) نے اللہ کے بندوں کی بے لوث خدمت کی ہے جو باری تعالیٰ کے نزدیک انتہائی پسندیدہ اور بہت زیادہ باعث ثواب ہے بلکہ خدمت خلق کی اعلیٰ روایات ہماری تاریخ کا حکیم حافظ محمد سعید (شہید) باب ہیں۔ اگر ہم شہید پاکستان حکیم محمد سعید کی زندگی کے معمولات پر نظر ڈالیں تو ہمیں ان کا ہر لمحہ حیات خدمت خلق میں مصروف نظر آتا ہے۔ حکیم حافظ محمد سعید (شہید) فرمایا کرتے تھے کہ بلند مرتبہ اپنی ذاتی خواہشات کی قربانی کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے زندگی کے ہر گوشے میں سادگی اختیار کی، سادہ لباس چھوٹا گھر، چھوٹی کار استعمال کی اور اپنے تمام وسائل قوم کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کر دئیے اور خدمت خلق کی روشن اور قابل تقلید روایات میں اضافہ کیا۔
شام ہمدرد
علم و عقل کی گہرائیوں تک رسائی کے لئے حکیم محمد سعید نے شام ہمدرد کا اجرا غالباً 1962ءمیں کیا تاکہ معاشرہ کی دیگر برائیوں کا احاطہ کیا جائے اور صلاحیت پیدا کی جائے جس سے راہ راست حاصل ہو اور ملک کے مفاد میں ہو، سوچ و فکر سے معاملات کی تسخیر ہو سکے۔ یہ ایک ایسی کٹھن راہ تھی مگر راہ مستقیم تھی کہ جو گذشتہ تقریباً نصف صدی سے باقاعدگی کے ساتھ صاحبان کی فکر و دانش کی رائے سے اچھے اسلوب میسر آتے ہیں۔ یہ ہر ماہ کا بہترین شغل تھا۔
الحاج حافظ حکیم محمد سعید حکیم، سائنسدان تین چیزوں کی آمیزش اور ترکیب سے حکمائ، ڈاکٹر، سائنسدان اکٹھے کر دئیے اور تینوں میدانوں میں دانشور اپنے پیغام، علم، منزل، تجربہ سے کردار ادا کرتے رہے۔ مقصد یہ تھا کہ ہر طریقہ علاج، زندگی کی صدا لوگوں تک پہنچ جائے۔ یہ حکیم محمد سعید صاحب کی بلند ہمت بھی اور ان کے جوش عمل نے تینوں طبقوں کو اکٹھا کر دیا اور ہر ماہ ایک ”فکر“ سامنے ہوتی۔ اس موضوع کو بلند نظری سے کامرانی ہوتی۔ ہر شخص اپنی سپیشلسٹی کا پابند رہا۔ مگر دوستی رواداری کا نیا باب تھا۔ حکیم صاحب کے ہر کام میں ایک پیغام ہوتا تھا۔
حافظ حکیم محمد سعید بات چیت میں بڑے میٹھے انسان تھے۔ ان کے مزاج میں غصہ نہ تھا۔ حاضر جوابی میں وہ لاثانی تھے۔پیارے نبی سے محبت تھی اور ان کے پیروکار تھے۔ بدگمانی کسی کے لئے نہیں رکھتے تھے۔ سوجھ بوجھ میں یکتا تھے۔ یہ ان کی اندرونی بصارت vision تھی کہ جوانی میں جائے پیدائش کوچہ کاشغر دہلی (انڈیا) سے جدائی کا فیصلہ کر لیا جہاں انہوں نے زندگی کا سانس پہلی بار 9 جنوری 1920ء(16 ربیع الثانی 1338ھ) میں لیا تھا۔ ان کے محترم والد بھی حکیم تھے اور وہ بھی حافظ قرآن تھے۔ والدہ ربیعہ بیگم بہن بھائیوں حمیدہ بیگم، حکیم عبدالحمید، محمود بیگم اور عبدالوحید کو چھوڑ کر اپنی شریک حیات نعمت بیگم کو لے کر پاکستان کی طرف کوچ کر لیا اور نئے پاکستان کراچی ملک میں قسمت آزمانے آ گئے۔ ایسا زندگی میں فیصلہ کرنا بڑا مشکل کام ہے۔
حافظ حکیم محمد سعید کی بڑی نایاب کوشش ہمدرد یونیورسٹی کراچی کا قیام 28 اگست 1991ءہے جس میں بے شمار ادارے، کالج آف میڈیسن و ڈینٹسٹری 1994ءاور حکمت کالج 1995ءہمدرد ویلج سکول 1997ءکے آغاز کا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ حکیم محمد سعید جب گورنر سندھ جولائی 1993ءجنوری 1994ءتک رہے۔ ان دنوں میں آپ نے صوبہ سندھ میں تعلیم کے فروغ کے لئے بڑے کام کئے۔ ہمدرد یونیورسٹی کے علاوہ چار مزید جامعات یونیورسٹیوں کو چارٹر عطا کئے۔ آپ نے اپنے مشن کو قائداعظم محمد علی جناح کے خیالات کے مطابق رکھا۔
حکیم محمد سعید شہیدِ پاکستان .... خدمت خلق کا روشن چراغ
حکیم حافظ محمد سعید (شہید) نے اللہ کے بندوں کی بے لوث خدمت کی ہے جو باری تعالیٰ کے نزدیک انتہائی پسندیدہ اور بہت زیادہ باعث ثواب ہے بلکہ خدمت خلق کی اعلیٰ روایات ہماری تاریخ کا حکیم حافظ محمد سعید (شہید) باب ہیں۔ اگر ہم شہید پاکستان حکیم محمد سعید کی زندگی کے معمولات پر نظر ڈالیں تو ہمیں ان کا ہر لمحہ حیات خدمت خلق میں مصروف نظر آتا ہے۔ حکیم حافظ محمد سعید (شہید) فرمایا کرتے تھے کہ بلند مرتبہ اپنی ذاتی خواہشات کی قربانی کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے زندگی کے ہر گوشے میں سادگی اختیار کی، سادہ لباس چھوٹا گھر، چھوٹی کار استعمال کی اور اپنے تمام وسائل قوم کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کر دئیے اور خدمت خلق کی روشن اور قابل تقلید روایات میں اضافہ کیا۔
شام ہمدرد
علم و عقل کی گہرائیوں تک رسائی کے لئے حکیم محمد سعید نے شام ہمدرد کا اجرا غالباً 1962ءمیں کیا تاکہ معاشرہ کی دیگر برائیوں کا احاطہ کیا جائے اور صلاحیت پیدا کی جائے جس سے راہ راست حاصل ہو اور ملک کے مفاد میں ہو، سوچ و فکر سے معاملات کی تسخیر ہو سکے۔ یہ ایک ایسی کٹھن راہ تھی مگر راہ مستقیم تھی کہ جو گذشتہ تقریباً نصف صدی سے باقاعدگی کے ساتھ صاحبان کی فکر و دانش کی رائے سے اچھے اسلوب میسر آتے ہیں۔ یہ ہر ماہ کا بہترین شغل تھا۔
الحاج حافظ حکیم محمد سعید حکیم، سائنسدان تین چیزوں کی آمیزش اور ترکیب سے حکمائ، ڈاکٹر، سائنسدان اکٹھے کر دئیے اور تینوں میدانوں میں دانشور اپنے پیغام، علم، منزل، تجربہ سے کردار ادا کرتے رہے۔ مقصد یہ تھا کہ ہر طریقہ علاج، زندگی کی صدا لوگوں تک پہنچ جائے۔ یہ حکیم محمد سعید صاحب کی بلند ہمت بھی اور ان کے جوش عمل نے تینوں طبقوں کو اکٹھا کر دیا اور ہر ماہ ایک ”فکر“ سامنے ہوتی۔ اس موضوع کو بلند نظری سے کامرانی ہوتی۔ ہر شخص اپنی سپیشلسٹی کا پابند رہا۔ مگر دوستی رواداری کا نیا باب تھا۔ حکیم صاحب کے ہر کام میں ایک پیغام ہوتا تھا۔
حافظ حکیم محمد سعید بات چیت میں بڑے میٹھے انسان تھے۔ ان کے مزاج میں غصہ نہ تھا۔ حاضر جوابی میں وہ لاثانی تھے۔پیارے نبی سے محبت تھی اور ان کے پیروکار تھے۔ بدگمانی کسی کے لئے نہیں رکھتے تھے۔ سوجھ بوجھ میں یکتا تھے۔ یہ ان کی اندرونی بصارت vision تھی کہ جوانی میں جائے پیدائش کوچہ کاشغر دہلی (انڈیا) سے جدائی کا فیصلہ کر لیا جہاں انہوں نے زندگی کا سانس پہلی بار 9 جنوری 1920ء(16 ربیع الثانی 1338ھ) میں لیا تھا۔ ان کے محترم والد بھی حکیم تھے اور وہ بھی حافظ قرآن تھے۔ والدہ ربیعہ بیگم بہن بھائیوں حمیدہ بیگم، حکیم عبدالحمید، محمود بیگم اور عبدالوحید کو چھوڑ کر اپنی شریک حیات نعمت بیگم کو لے کر پاکستان کی طرف کوچ کر لیا اور نئے پاکستان کراچی ملک میں قسمت آزمانے آ گئے۔ ایسا زندگی میں فیصلہ کرنا بڑا مشکل کام ہے۔
حافظ حکیم محمد سعید کی بڑی نایاب کوشش ہمدرد یونیورسٹی کراچی کا قیام 28 اگست 1991ءہے جس میں بے شمار ادارے، کالج آف میڈیسن و ڈینٹسٹری 1994ءاور حکمت کالج 1995ءہمدرد ویلج سکول 1997ءکے آغاز کا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ حکیم محمد سعید جب گورنر سندھ جولائی 1993ءجنوری 1994ءتک رہے۔ ان دنوں میں آپ نے صوبہ سندھ میں تعلیم کے فروغ کے لئے بڑے کام کئے۔ ہمدرد یونیورسٹی کے علاوہ چار مزید جامعات یونیورسٹیوں کو چارٹر عطا کئے۔ آپ نے اپنے مشن کو قائداعظم محمد علی جناح کے خیالات کے مطابق رکھا۔
حکیم محمد سعید شہیدِ پاکستان .... خدمت خلق کا روشن چراغ