صفحہ نمبر 47
بارہواں باب
شیخ کی علمیت اور شاعری اور دیگر فنون
شیخ کی تعلیم کا حال ہم اس کی ابتدائی عمر میں لکھ چکے ہیں۔ مگر وہ صرف رسمی بات تھی اور کہ اس کے باپ نے زبردستی اس کو پڑھوایا ۔ خیر اچھا کیا ۔درحقیت اس کی استعدار علمی بہت کم تھی مگر وہ خداداد قابلیت جو فطرتا اس کی ذات میں ودیعت کی گئی تھی اس کے سامنے رسمی علوم کی نہ حقیقت تھی نہ ضرورت۔ اس کا جی حساب میں کبھی نہ لگا۔ گویا اسے طبعی نفرت تھی گو وہ سو تک گنتی بے تکلف جانتا تھا مگر اپنی ایجاد و اختراع کو اس نے کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا یعنی بیس تک تو وہ فر فر گن جاتا اس کے آگے اکیس کے عوض بیس پر ایک بیس پر دو اس طرح بیس پر نو کے بعد وہ تیس کہتا اور تیس پر نو کے بعد بجائے چالیس کے دوبیس اور ساٹھ کو تین بیس ۔اسی کو چچار بیس ۔اس کے بعد پورے سو اور پھر سو پر دس یا بیس اسی طرح شمار کرتا۔ مگر حق یہ ہے کہ اس فن میں اس نے مطلق بے توجہی کی اس لیے ہم کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔
فن انشا میں اس کی لیاقت کا حال معلوم نہیں ۔اس وقت ڈاک کی آسانیاں تو موجود نہ تھیں اس لیے خط لکھنے کا موقع ہی نہ تھا اور البتہ وہ کچھ علمی مسائل یا حکمت کے معرکہ آرا مباحث لکھ لیا کرتا تھا جس کو زمانے نے مٹا ڈالا پھر کیونکر اندازہ کیا جائے کہ اس کی فصاحت و بلاغت کا کیا رتبہ تھا۔
نظم میں البتہ اس کی دلچسپی تھی اور شعر خوب کہتا تھا اس وقت کی زبان تو نہ تھی خاص دربار شاہی میں فارسی بولی جاتی تھی عوام کچھ بھاکا ملی ہوئی بولی بولتے تھے ۔اس لیے اس کی شاعری میں ان دونوں خصوصعیتوں کی جھلک پائی جاتی ہے۔ اور یہ صنعت سب سے زیادہ مشکل ہے۔ جب شہزادہ سلیم کی شادی نواب جودہ بائی مہاراجہ بھگوان داس راجہ جودھیور کی بیٹی سے ہوئی ہے دربار اکبری کے شعراء نے بڑے صنایع و بدایع کے قصیدے ، مبارکبادیں ، سہرے وغیرہ لکھے شیخ صاحب نے بھی مبارک ۔ ع
صفحہ نمبر 48
ہمیشہ دلبرے سو جان مبارک باشد
لکھ کے پیش کی۔اکبر نے اس کو اس قدر پسند کیا کہ اسی وققت نور بائی رقاصہ خاص کو یاد کرائی گئی اور عین نکاح کے بعد بزم طوی میں گائی گئء ۔اس کی خوبی اس کی مقبولیت ہی سےظاہر ہے کہ آج تک جشنون میں ضرور گائی جاتی ہے ۔ہزار روپیہ روز کا طائفہ بھی اس مبارکباد کو ضرور گائیگا۔ تذکرہ نگاعوں کو اختلاف ہے کہ یہ شعر
ضمنا ضمنی بہم آوتے ہیں
تو چھپر اٹھانے کو کم آوتے ہیں
شیخ چلی کا ہے۔ یا لال بجھکڑ کا۔ مولاناغلام علی آزاد بلگرامی تو خزانہ عامرہ میں شیخ چلی ہی کا ثابت کرتے ہیں۔ مگر صاحب آتش کدہ لال بجھکڑ کے طرفدار ہیں اور حضرت آزاد سے ہیں متفق ہوں کیونکہ ایسی سلاست اور برجستگی نشت الفاظ۔طرز ادا حضرت شیخ کا خاص حصہ ہے۔ افسوس نا قدر دانی زمانہ نے جہاں اور ہزاروں گنج شائگان خاک میں ملا دیے۔ اسی طرح شیخ کا دیوان اور دوسرا کلام یعنی یہ لےبہالعل و گہر اس کے ساتھ ہی زمانے سے ناپید و گئے۔ چند اشعار متفرق طور پر جو زبان زد عام ہیں درج کیے جاتے ہیں ۔ہنسے انتخاب کو دخل نہیں دیا ہے ۔
اکہتر بہتر تہتر چوہتر
پچھتر چھیتر ستہتر اٹھتر
حسین آباد بنا بن کے نمودار ہوا
گلشن تو ایسا کہ بادشای کا نام یوا
آغا تقی کے باغ میں اک توپ کھڑی ہے
بندر کی شکل ہوکے مچھندر سی لڑی ہے
چندا ماموں آجا آجا آجا
دھا جا دھا جا سونے کا ٹکہ دے جا
اگر ہم باغباں ہوتے گلشن کو لٹادیتے
اگر ہم پتنگ ہوتے لگا کر پیج عشق کا فلک پر کٹا دیتے
زلف اس مکہڑے پہ اس طرح سے لہرا رہی ہے
بھینس جس طرح سے کونڈے میں کھلی کھا رہی ہے
موسیقی میں شیخ کا وہی پایہ ہے جو بغداد میں اسحق موصلی کا تھا۔ ڈفلی اور ڈفالیوں کا ربانہ آپ ہی کی ایجاد سے ہے۔ کنکڑی جو سرکیوں کی بنا کے بچے بجایا کرتے ہیں ۔اس کی اختراع کا فخر بھی اسی یگانہ روز حاصل ہے حضرت امیر خسرو نے اسی کو دیکھ کے ستار بنایا۔ سچ تو یہ ہے کہ خسرو کا ستار