عبدالحسیب
محفلین
حیدرآباد دکن سے اقبال کا ذہنی تعلق
یادش بخیر حیدرآباد کے سایہ عاطفت میں ہندوپاکستان کے ہی نہیں بلکہ دنیاء اسلام کی بعض بزرگ ہستیوں نے بھی فیض پایا ہے۔ چناچہ جب جمال الدین افغانی کے لیے دنیا کی عیسائی طاقتوں نے یورپ،افریقہ اور ایشیاء میں رہنا محال کر دیا تھا تو سید صاحب مرحوم نے آکر حیدرآباد خجستہ بنیاد ہی میں آکر دن گزارے تھے۔ ان واقعات کو دیکھتے ہوئے باعث تعجب ہوتا، اگر علامہ مرحوم کو دولت خداداد حیدرآباد سے ایک روحانی اور ذہنی تعلق نہ ہوتا۔ یہ بات ضرور ہے کہ بعض کج ضہموں کی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں علامہ مرحوم کو قدرت نے یہ موقہ نہ دیا کہ وہ براۃ راست اس عظیم سلطنت کی خدمت کرتے مگر جو محبت علامہ کو اس سلطنت سے تھی وہ ان کے کلام اور خطوط سے ظاہر ہے۔
پہلا سفر حیدرآباد
اوائل زندگی میں تو مصروفیات زمانہ نے علامہ کواسکی اجازت نہ دی کہ علامہ حیدرآباد جائیں۔ مگر یورپ سے حصولِ تعلیم کے بعد واپسی پر علامہ پہلی بار 1910 میں حیدرآباد تشریف لے گئے۔ اس وقت سر اکبرحیدری ریاست میں معتمد فنانس تھے۔ اور سر اکبر حیدری سے انکی عزیزہ جناب عطیہ بیگم صاحبہ نے تعارف کرایا تھا۔ لہازا علامہ نے سراکبرحیدری کے دولت کدہ پر قیام کیا۔ حیدرآباد کے قیام کے دوران حیدرآباد کی بیشتر برگزیدہ ہستیوں سے ملاقات کی۔ یہ زمانہ مہارجہ کشن پرساد کی وزرات عظمیٰ کا تھا اور علامہ حیدرآباد کے قیام کے دوران اکثر مہارجہ بہادر کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے۔ اس درویش صفت اور فقیر منش امیر کے اخلاق حمیدہ کا جو اثر علامہ کی طبیعت پر ہوا اس کا اظہار علامہ نے ان اشعار میں کیا تھا۔
آستانہ پر وزرات کے ہوا میرا گزر
بڑھ گیا جس سے مرا ملک سخن میں اعتبار
اس قدر حق نے بنایا اس کو عالی مرتب
آسمان اس آستانے کی ہے اک موج غبار
ہے یہاں شان امارت پردہ دار شانِ فقیر
خرقہ درویشی کا ہے زیر قبائے زرنگار
شکریہ احساں کا اَے اقبال لازم تھا مجھے
مدح پیرائی امیروں کی نہیں میرا شعار
اسی قیام کے دوران علامہ کی حیدرآبد کے اکثر عمائدین سے ملاقاتیں ہوتی رہیں ان میں سے ایک حضرت نظم طبا طبائی پروفیسر نظام کالج حیدرآبا بھی تھے۔ حضرت نظم 16 محرم 1269 حجری کو بمقام حیدرگنج لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ سولہ برس کی عمر تک آپ نے وطن میں رہ کر عربی فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں شاہانِ اودھ کے شاہزادوں کی اتالیقی کے لیے منتضب ہوئے اور کلکتہ چلے گئے۔ مٹیا برج پہنچ کر استادی کے ساتھ ساتھ حصولِ علم کا مشگلہ بھی جاری رکھا۔ جب واجد علی شاہ کا انتقال ہوگیا تو حضرت نظم کا حیدرآباد کے نظام کالج میں پروفیسر کی حیثیت سے تقرر ہو گیا۔
تیس سال تک وہ نظام کالج میں پروفیسر کی رہے۔ وظیفے پر سبکدوش ہونے کے بعد مختلف اسامیوں پر وہ کام کرتے رہے جب جامعہ عثمانیہ کے ساتھ دارالترجمہ کا قیام عمل میں آیا تو دار الترجمہ میں ناظرادبی کی حیثیت سے انکا تقرر ہوا۔ بلآخر 22 مئی 1932 کو اردو زبان اس قابل قدر ہستی کی خدمات سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئی۔ انگریزی کی مشہور نظم 'گریز ایلجی' Grays Elegy کا منظوم ترجمہ حضرت طباطبائی نے اردو میں 'گورغریبان' کے نام سے کیا تھا۔ تاریخ ادب میں ایسا کامیاب ترجمہ ملنا محال ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ علامہ نے حیدرآباد پہنچتے ہی سراکبرحیدری سے درخواست کی کہ انکی حضرت نظم طبا طبائی سے ملاقات کا انتظام کرا دیں۔چناچہ سر اکبر نے علامہ کی حضرت نظم کے ساتھ ملاقات کا انتظام عبدالرزاق صاحب مرتب کلیات اقبال کے توسط سے کرایا تھا۔ اس ملاقات کے وقت عبدالرزاق صاحب بھی موجود تھے۔علامہ نے جب حضرت نظم سے کلام سنانے کی فرمائیش کی تو انہوں نے یہ اشعار سنائے۔
پردہ ظلمت سے نکلا روئے سلمائے سحر
ناقہء گردوں کی کھینچی لیلیٰ شب نے بہار
ہے شفق یا وارئ فیروزہ میں لالہ زار
ہے سحر سبزۃ زار آسماں میں آبشار
چاہ سے نکلے ہیں یوسف یا ہے تارا صبح کا
یا بنا گوش زلیخا میں ہے درشاہوار
آفتاب آیا نظر سردر گریباں افق
ہوگئی غائب شب یلدا ہوئی صبح آشکار
آتش افروزی جو کی مشرق میں پیر صبح نے
ہوگیا مغرب میں پنہاں ساحر زناردار
آنکھ ابھی محو تماشا تھی کہ بجھ کر رہ گئے
یا الہی جلوۃ انجم تھا یا رقص شرار
حضر خاور میں ہوئی فوج کواکب جاگزیں
ہوگیا لشکر پہ غالب ایک ترک نیزہ دار
مولوی عبالرزاق صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت نظم کے اشعار سن کر علامہ اقبال عش عش کر رہے تھے۔ اور انکی طبیعت پر اتنا اثر ہوا کہ آخر کار انہوں نے اسی موضوع یعنی طلوع سحر پر خود ایک نظم کہہ ڈالی جس میں اپنے قیام حیدرآباد کے دوران مہاراجہ کشن پرساد کی نوازشوں کا ذکر بھی کر دیا ۔ یہ نظم 'نمود صبح" کے نام سے بانگ درا میں موجود ہے اور ہم کو دو عظیم المرتب شعرا کی ایک یادگار ملاقات کی آج بھی یاد دلاتی ہے۔یہ سچ ہے کہ نظم کے بہت سے اشعار علامہ نے طباعت کے وقت حذف کردیے تھے(1)۔ نظم کے ساتھ علامہ نے یہ شذرہ بھی تحریر کیا تھا ،" گذشتہ مارچ 1910 میں مجھے حیدرآباد جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں آستانہء وزرات پر حاضر ہونے اور عالی جناب ہزایکسیلینسی مہاراجہ سر کشن بہادر جی-سی-آئی-یمین السلطنت پیش کار وزیر اعظم دولت آصفیہ التخلص بہ شاد کی خدمت بابرکت میں باریاب ہونے کا فخر بھی حاصل ہوا۔ ہزایکسیلینسی کی نوازش کریمانہ اور وسعت اخلاق نے جو نقش میرے دل پر چھوڑا۔ وہ میری لوح دل سے کبھی نہ مٹے گا۔ مزید الطاف یہ کہ جناب ممدوح نے میری روانگیء حیدرآباد سے پہلے ایک نہایت تلطف آمیز خط لکھا اور اپنے کلام شیریں سے شیریں کام فرمایا"
مولوی عبدالرزاق صاحب کلیات اقبال میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت نظم طبطبائی سے گفتگو کے دوران علامہ 'جی ہاں' کے بجائے 'ہاں جی' فرماتے تھے۔ اس کے متعلق ملاقات کے بعد حضرت نظم نے فرمایا تھا کہ پنجاب کی بود و باش کا اثر ہے۔
علامہ نے حیدرآباد کے اس قیام کے کے دوران ایک اور نظم لکھی تھی جسکا عنوان ہے،'گورستان شاہی' اور نظم کے بعض اشعار میں انگرزی شاعر گرے کی مشہور نظم 'گور غریباں' کا اثر نمایاں ہے بہت ممکن ہے کہ یہ اثر جناب نظم کی ملاقات کی وجہ سے پیدا ہوا ہو۔
یہ نظم مخزن میں شائع ہوئی تھی اور اس نظم کے ساتھ علامہ نے حسب ذیل شذرہ بھی تحریر کیا تھا۔ "حیدرآباد میں مختصر قیام کے دنوں میں میرے عنایت فرما جناب مسٹر نذر علی حیدری صاحب بی-اے۔ معتمد محکمہ فنانس کی قابل قدر خدمات اور وسیع تجربہ سے دولت آصفیہ مستفید ہو رہی ہے۔ مجھے ایک شب ان ساندار مگر حسرت ناک گنبد کی زیارت کو لے گئے جن میں سلاطین قطب شاہی سو رہے ہیں۔ رات کی خاموشی ، ابر آلود آسماں اور بادلوں میں چھن کے آتی ہوئی چاندنی نے اس پر حسرت منظر کے ساتھ مل کر میرے دل پر ایسا اثر کیا جو کبھی فراموش نہ ہوگا۔ ذیل کی نظم انہی بے شمار تاثرات کا ایک اظہار ہے۔ اس کو میں اپنے سفر حیدرآباد کی یادگار میں مسٹر حیدری اور ان کی بیگم صاحبہ مسز حیدری کے نام سے منسوب کرتا ہوں ۔ جنہوں نے میری مہمان نوازی اور میرے قیام حیدرآباد کو دلچسپ ترین بنانے میں کوئی دقیقہ فردگذاشت نہیں کیا۔"
اس نظم کا آخری شعر ہے
ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور
ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور
حیدرآباد کے قیام کے بعد علام اورنگ آباد تشریف لے گئے۔ خلدآباد میں حضرت عالمگیر کے مزار پرانور کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ اس زیارت کا جو اثر علامہ کے دل پر ہوا اس کا اظہار انہوں نے ان اشعار میں کیا ہے۔
شاہ عالمگیر گر دوں آستاں
اعتبار دود ستاں گور گان
در صف شہنشہاں یکتا ستے
فقراد از تربتش پیداستے
حیدرآباد سے واپس لاہور آکر علامہ نے محترمہ عطیہ بیگم کو ایک خط لکھا تھا۔ اس میں بات کا خاص طور پر ذکر کیا تھا کہ وہ سر اکبر حیدری کے مکان میں ایسے ہی رہے کیسے کہ وہ انہی کا گھر تھا۔ اور یہ بھی لکھا کہ سفر کے دوران ایسے بے تکلف گھریلو ماحول کا لطف ان کو اس سے قبل زندگی میں صرف ایک بار آیا تھا اور وہ ان کے شفیق استاد آرنالڈ کے مکان میں آیا تھا۔
--------------------------------------------------------------------------------------
(1) یہ مکمل نظم معہ حذف شدہ اشعار 'حیدرآباد دکن'طلوع' کے زیر عنوان 'کلیات اقبال(مرتبہ عبدالرزاق راشد)میں شائع ہوئی تھی اور اسکو اس کتاب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔
جاری۔۔
یادش بخیر حیدرآباد کے سایہ عاطفت میں ہندوپاکستان کے ہی نہیں بلکہ دنیاء اسلام کی بعض بزرگ ہستیوں نے بھی فیض پایا ہے۔ چناچہ جب جمال الدین افغانی کے لیے دنیا کی عیسائی طاقتوں نے یورپ،افریقہ اور ایشیاء میں رہنا محال کر دیا تھا تو سید صاحب مرحوم نے آکر حیدرآباد خجستہ بنیاد ہی میں آکر دن گزارے تھے۔ ان واقعات کو دیکھتے ہوئے باعث تعجب ہوتا، اگر علامہ مرحوم کو دولت خداداد حیدرآباد سے ایک روحانی اور ذہنی تعلق نہ ہوتا۔ یہ بات ضرور ہے کہ بعض کج ضہموں کی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں علامہ مرحوم کو قدرت نے یہ موقہ نہ دیا کہ وہ براۃ راست اس عظیم سلطنت کی خدمت کرتے مگر جو محبت علامہ کو اس سلطنت سے تھی وہ ان کے کلام اور خطوط سے ظاہر ہے۔
پہلا سفر حیدرآباد
اوائل زندگی میں تو مصروفیات زمانہ نے علامہ کواسکی اجازت نہ دی کہ علامہ حیدرآباد جائیں۔ مگر یورپ سے حصولِ تعلیم کے بعد واپسی پر علامہ پہلی بار 1910 میں حیدرآباد تشریف لے گئے۔ اس وقت سر اکبرحیدری ریاست میں معتمد فنانس تھے۔ اور سر اکبر حیدری سے انکی عزیزہ جناب عطیہ بیگم صاحبہ نے تعارف کرایا تھا۔ لہازا علامہ نے سراکبرحیدری کے دولت کدہ پر قیام کیا۔ حیدرآباد کے قیام کے دوران حیدرآباد کی بیشتر برگزیدہ ہستیوں سے ملاقات کی۔ یہ زمانہ مہارجہ کشن پرساد کی وزرات عظمیٰ کا تھا اور علامہ حیدرآباد کے قیام کے دوران اکثر مہارجہ بہادر کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے۔ اس درویش صفت اور فقیر منش امیر کے اخلاق حمیدہ کا جو اثر علامہ کی طبیعت پر ہوا اس کا اظہار علامہ نے ان اشعار میں کیا تھا۔
آستانہ پر وزرات کے ہوا میرا گزر
بڑھ گیا جس سے مرا ملک سخن میں اعتبار
اس قدر حق نے بنایا اس کو عالی مرتب
آسمان اس آستانے کی ہے اک موج غبار
ہے یہاں شان امارت پردہ دار شانِ فقیر
خرقہ درویشی کا ہے زیر قبائے زرنگار
شکریہ احساں کا اَے اقبال لازم تھا مجھے
مدح پیرائی امیروں کی نہیں میرا شعار
اسی قیام کے دوران علامہ کی حیدرآبد کے اکثر عمائدین سے ملاقاتیں ہوتی رہیں ان میں سے ایک حضرت نظم طبا طبائی پروفیسر نظام کالج حیدرآبا بھی تھے۔ حضرت نظم 16 محرم 1269 حجری کو بمقام حیدرگنج لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ سولہ برس کی عمر تک آپ نے وطن میں رہ کر عربی فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں شاہانِ اودھ کے شاہزادوں کی اتالیقی کے لیے منتضب ہوئے اور کلکتہ چلے گئے۔ مٹیا برج پہنچ کر استادی کے ساتھ ساتھ حصولِ علم کا مشگلہ بھی جاری رکھا۔ جب واجد علی شاہ کا انتقال ہوگیا تو حضرت نظم کا حیدرآباد کے نظام کالج میں پروفیسر کی حیثیت سے تقرر ہو گیا۔
تیس سال تک وہ نظام کالج میں پروفیسر کی رہے۔ وظیفے پر سبکدوش ہونے کے بعد مختلف اسامیوں پر وہ کام کرتے رہے جب جامعہ عثمانیہ کے ساتھ دارالترجمہ کا قیام عمل میں آیا تو دار الترجمہ میں ناظرادبی کی حیثیت سے انکا تقرر ہوا۔ بلآخر 22 مئی 1932 کو اردو زبان اس قابل قدر ہستی کی خدمات سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئی۔ انگریزی کی مشہور نظم 'گریز ایلجی' Grays Elegy کا منظوم ترجمہ حضرت طباطبائی نے اردو میں 'گورغریبان' کے نام سے کیا تھا۔ تاریخ ادب میں ایسا کامیاب ترجمہ ملنا محال ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ علامہ نے حیدرآباد پہنچتے ہی سراکبرحیدری سے درخواست کی کہ انکی حضرت نظم طبا طبائی سے ملاقات کا انتظام کرا دیں۔چناچہ سر اکبر نے علامہ کی حضرت نظم کے ساتھ ملاقات کا انتظام عبدالرزاق صاحب مرتب کلیات اقبال کے توسط سے کرایا تھا۔ اس ملاقات کے وقت عبدالرزاق صاحب بھی موجود تھے۔علامہ نے جب حضرت نظم سے کلام سنانے کی فرمائیش کی تو انہوں نے یہ اشعار سنائے۔
پردہ ظلمت سے نکلا روئے سلمائے سحر
ناقہء گردوں کی کھینچی لیلیٰ شب نے بہار
ہے شفق یا وارئ فیروزہ میں لالہ زار
ہے سحر سبزۃ زار آسماں میں آبشار
چاہ سے نکلے ہیں یوسف یا ہے تارا صبح کا
یا بنا گوش زلیخا میں ہے درشاہوار
آفتاب آیا نظر سردر گریباں افق
ہوگئی غائب شب یلدا ہوئی صبح آشکار
آتش افروزی جو کی مشرق میں پیر صبح نے
ہوگیا مغرب میں پنہاں ساحر زناردار
آنکھ ابھی محو تماشا تھی کہ بجھ کر رہ گئے
یا الہی جلوۃ انجم تھا یا رقص شرار
حضر خاور میں ہوئی فوج کواکب جاگزیں
ہوگیا لشکر پہ غالب ایک ترک نیزہ دار
مولوی عبالرزاق صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت نظم کے اشعار سن کر علامہ اقبال عش عش کر رہے تھے۔ اور انکی طبیعت پر اتنا اثر ہوا کہ آخر کار انہوں نے اسی موضوع یعنی طلوع سحر پر خود ایک نظم کہہ ڈالی جس میں اپنے قیام حیدرآباد کے دوران مہاراجہ کشن پرساد کی نوازشوں کا ذکر بھی کر دیا ۔ یہ نظم 'نمود صبح" کے نام سے بانگ درا میں موجود ہے اور ہم کو دو عظیم المرتب شعرا کی ایک یادگار ملاقات کی آج بھی یاد دلاتی ہے۔یہ سچ ہے کہ نظم کے بہت سے اشعار علامہ نے طباعت کے وقت حذف کردیے تھے(1)۔ نظم کے ساتھ علامہ نے یہ شذرہ بھی تحریر کیا تھا ،" گذشتہ مارچ 1910 میں مجھے حیدرآباد جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں آستانہء وزرات پر حاضر ہونے اور عالی جناب ہزایکسیلینسی مہاراجہ سر کشن بہادر جی-سی-آئی-یمین السلطنت پیش کار وزیر اعظم دولت آصفیہ التخلص بہ شاد کی خدمت بابرکت میں باریاب ہونے کا فخر بھی حاصل ہوا۔ ہزایکسیلینسی کی نوازش کریمانہ اور وسعت اخلاق نے جو نقش میرے دل پر چھوڑا۔ وہ میری لوح دل سے کبھی نہ مٹے گا۔ مزید الطاف یہ کہ جناب ممدوح نے میری روانگیء حیدرآباد سے پہلے ایک نہایت تلطف آمیز خط لکھا اور اپنے کلام شیریں سے شیریں کام فرمایا"
مولوی عبدالرزاق صاحب کلیات اقبال میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت نظم طبطبائی سے گفتگو کے دوران علامہ 'جی ہاں' کے بجائے 'ہاں جی' فرماتے تھے۔ اس کے متعلق ملاقات کے بعد حضرت نظم نے فرمایا تھا کہ پنجاب کی بود و باش کا اثر ہے۔
علامہ نے حیدرآباد کے اس قیام کے کے دوران ایک اور نظم لکھی تھی جسکا عنوان ہے،'گورستان شاہی' اور نظم کے بعض اشعار میں انگرزی شاعر گرے کی مشہور نظم 'گور غریباں' کا اثر نمایاں ہے بہت ممکن ہے کہ یہ اثر جناب نظم کی ملاقات کی وجہ سے پیدا ہوا ہو۔
یہ نظم مخزن میں شائع ہوئی تھی اور اس نظم کے ساتھ علامہ نے حسب ذیل شذرہ بھی تحریر کیا تھا۔ "حیدرآباد میں مختصر قیام کے دنوں میں میرے عنایت فرما جناب مسٹر نذر علی حیدری صاحب بی-اے۔ معتمد محکمہ فنانس کی قابل قدر خدمات اور وسیع تجربہ سے دولت آصفیہ مستفید ہو رہی ہے۔ مجھے ایک شب ان ساندار مگر حسرت ناک گنبد کی زیارت کو لے گئے جن میں سلاطین قطب شاہی سو رہے ہیں۔ رات کی خاموشی ، ابر آلود آسماں اور بادلوں میں چھن کے آتی ہوئی چاندنی نے اس پر حسرت منظر کے ساتھ مل کر میرے دل پر ایسا اثر کیا جو کبھی فراموش نہ ہوگا۔ ذیل کی نظم انہی بے شمار تاثرات کا ایک اظہار ہے۔ اس کو میں اپنے سفر حیدرآباد کی یادگار میں مسٹر حیدری اور ان کی بیگم صاحبہ مسز حیدری کے نام سے منسوب کرتا ہوں ۔ جنہوں نے میری مہمان نوازی اور میرے قیام حیدرآباد کو دلچسپ ترین بنانے میں کوئی دقیقہ فردگذاشت نہیں کیا۔"
اس نظم کا آخری شعر ہے
ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور
ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور
حیدرآباد کے قیام کے بعد علام اورنگ آباد تشریف لے گئے۔ خلدآباد میں حضرت عالمگیر کے مزار پرانور کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ اس زیارت کا جو اثر علامہ کے دل پر ہوا اس کا اظہار انہوں نے ان اشعار میں کیا ہے۔
شاہ عالمگیر گر دوں آستاں
اعتبار دود ستاں گور گان
در صف شہنشہاں یکتا ستے
فقراد از تربتش پیداستے
حیدرآباد سے واپس لاہور آکر علامہ نے محترمہ عطیہ بیگم کو ایک خط لکھا تھا۔ اس میں بات کا خاص طور پر ذکر کیا تھا کہ وہ سر اکبر حیدری کے مکان میں ایسے ہی رہے کیسے کہ وہ انہی کا گھر تھا۔ اور یہ بھی لکھا کہ سفر کے دوران ایسے بے تکلف گھریلو ماحول کا لطف ان کو اس سے قبل زندگی میں صرف ایک بار آیا تھا اور وہ ان کے شفیق استاد آرنالڈ کے مکان میں آیا تھا۔
--------------------------------------------------------------------------------------
(1) یہ مکمل نظم معہ حذف شدہ اشعار 'حیدرآباد دکن'طلوع' کے زیر عنوان 'کلیات اقبال(مرتبہ عبدالرزاق راشد)میں شائع ہوئی تھی اور اسکو اس کتاب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔
جاری۔۔