قابل اجمیری حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آگئے۔۔۔۔قابل اجمیری

حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آگئے
ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آگئے

نامرادی اپنی قسمت ، گمرہی اپنا نصیب
کارواں کی خیر ہو ، ہم کارواں تک آگئے

انکی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پر ہنسی
قصہء غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آگئے

اپنی اپنی جستجو ہے اپنا اپنا شوق ہے
تم ہنسی تک بھی نہ پہنچے ہم فغاں تک آگئے

زلف میں خوشبو نہ تھی یا رنگ عارض میں نہ تھا
آپ کس کی آرزو میں گلستاں تک آگئے

رفتہ رفتہ رنگ لایا جذبِ خاموشیءِ عشق
وہ تغافل کرتے کرتے امتحاں تک آگئے

خود تمہیں چاکِ گریباں کا شعور آجائے گا
تم وہاں تک آتو جاوء ، ہم جہاں تک آگئے

آج قابل میکدے میں انقلاب آنے کو ہے
اہلِ دل اندیشہء سود و زیاں تک آگئے​
 

مغزل

محفلین
کیا کہنے محمود صاحب ، واہ واہ ، سبحان اللہ سبحان اللہ ، صاحب ۔۔ ہماری تو مراد پوری کردی آپ نے ۔۔ وہ کیا ہے کہ:
چھوا اس کے نازک ہاتھ کو کچھ اس انداز سے کہ روزہ بھی محفوظ رہا افطاری بھی ہوگئی ، والا معاملہ ہے ۔ واہ
 

فاتح

لائبریرین
خود تمہیں چاکِ گریباں کا شعور آجائے گا
تم وہاں تک آتو جاوء ، ہم جہاں تک آگئے​
قابل اجمیری کی نہایت ہی عمدہ غزل شریکِ محفل کرنے پر شکریہ!
 

جیا راؤ

محفلین
رفتہ رفتہ رنگ لایا جذبِ خاموشیءِ عشق
وہ تغافل کرتے کرتے امتحاں تک آگئے


واہ۔۔۔۔ بہت خوبصورت غزل ہے۔۔۔
شاملِ محفل کرنے کا شکریہ۔۔۔:)
 
حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آگئے
ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آگئے

کیا کہنے ، آج پھر سے پڑھی اور پھر بہت لطف آیا۔

آشا نے گائی بھی بہت اچھی ہے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کیا خوبصورت غزل ہے !!! جب بھی پڑھئے ہر بار ایک نیا لطف آتا ہے!! اور اعلی شاعری کی علامت بھی یہی ہے ۔ قابل اجمیری میرے پسندیدہ ترین شاعروں میں سے ہیں ۔ دستِ اجل نے انہیں مہلت نہیں دی اور وہ عین جوانی میں رخصت ہوگئے ورنہ یقین تھا کہ وہ اردو کے آسمانِ شعر پر سورج کی طرح چمکتے ۔
اس انتخاب کے لئے بہت شکریہ غزنوی صاحب!
 
Top