نمرہ
محفلین
حیرت ہے لوگ اب بھی اگر خوش عقیدہ ہیں
ہم ساکنانِ قریہء آفت رسیدہ ہیں
اس سنگ زار میں ہنرِ آذری ہے شرط
کتنے صنم ہیں جو ابھی نا آفریدہ ہیں
ہم حرف گر ہزار کہیں دل کے مرثیے
اس بارگاہ میں تو سراپا قصیدہ ہیں
رکتا ہے کون کب کسی آتش بجاں کے پاس
حیرت نہیں جو آپ بھی دامن کشیدہ ہیں
اے دوست ہم کو اتنا تنک حوصلہ نہ جان
کوئی سبب تو ہو گا جو ہم آبدیدہ ہیں
کچھ دیر کو ہیں بس قفسِ رنگ کے اسیر
ٹک گل کھلے تو جانیو، بوئے رسیدہ ہیں
ہم اب بھی اہلِ دہر پہ رکھتے ہیں اعتبار
ہر چند گرم و سرد زمانہ چشیدہ ہیں
فرصت ملے تو آ مرے خلوت کدے میں سن
دیوان میں کہاں جو سخن چیدہ چیدہ ہیں
ہم اہلِ دل سے اہلِ جہاں کے تعلقات
ہیں تو سہی فراز مگر خط کشیدہ ہیں