کاشفی
محفلین
محسن اسلام و اولاد
(علامہ ذیشان حیدر جوادی کلیم الہ آبادی)
حیف اس کو بھی سمجھنے لگی دنیا کافر
جس کے رشتوں میں نہیں کوئی بھی رشتہ کافر
جس کو بھی چاہے بنا دیتا ہے مُلّا کافر
سچ ہے کافر کو نظر آتی ہے دنیا کافر
نسل وہ جس میں نہ ہو باپ نہ دادا کافر
غیر ممکن ہے کہ ہو اس کا خلاصہ کافر
اب تو کافر بھی ہے اس دور میں اندھا کافر
کل ایماں نظر آتا ہے سراپا کافر
بت پرستوں کو مسلمان سمجھنے والے
خاک سمجھیں گے مسلمان ہے کیا، کیا کافر
اک قیامت ہے کہ ہوں کفر کے پالے مسلم
اور زچہ خانہ ہو جس کے لئے کعبہ، کافر
فخرسے کہتے ہیں اپنے کو سواد اعظم
اِن میں جو کفر کرے گا وہ ہے کالا کافر
کفر کی بحث نہ چھیڑو تو غنیمت ہے یہی
ورنہ بتلائیں گے ہم کون ہے کیسا کافر
جس کی اولاد ہوں اسلام میں چودہ معصوم
وہ بھی کافر ہو تو ہوجائیں گے چودہ کافر
کون جانے کہ پیمبر کو ضرورت کیا تھی
عقد مسلم کا ہو، پڑھنے لگے صیغہ کافر
جس کی گودی کا پلا بانی اسلام بنے
وہ بھی کافر ہے تو ہے سارا زمانہ کافر
کل ایمان پسر ہوتا تو کیسے ہوتا
پالنے والا مقدر سے جو ہوتا کافر
اس کے پوتے ہیں زمانے میں حسین اور حسن
پوتے سردار جناں اور ہے دادا کافر؟
اک علی نفس نبی، ایک علی ہے سجاد
اس کا بیٹا کوئی کافر ہے نہ پوتا کافر
باقر علم، خلف جعفر صادق وارث
کب زمانے میں کوئی ہوتا ہے سچا کافر
اس کے اک لال کو کہتا ہے زمانہ کاظم
وہ ہے موسیٰ تو نہیں ہوتا ہے موسیٰ کافر
اُس کے ایماں کی علامت ہے رضا کا دربار
جہاں آجائے تو کرلیتا ہے سجدہ کافر
اس کے کردار کا اعلان سے تقوائے تقی
اور نہیں ہوتا کوئی صاحب تقویٰ کافر
نفس ہے اُس کا نقی اور سراپا ہے حسن
کون اس نسل کے مورث کو کہے گا کافر
اس کا فرزند جب آئے گا الٹ کر پردہ
پھر زمانے میں کوئی رہ نہ سکے گا کافر
سر دربار یہ اعلان کیا زینب نے
ابوطالب نہیں، ہے آل۔۔۔۔ کافر
اُس کا پوتا تھا علمدار شہ دیں عباس
پوتا ہو جس کا علمدار وہ کیسا کافر
اُس کے اکبر کی اذاں آج تلک گونجتی ہے
کیا کوئی داعی توحید بھی ہوگا کافر
کلمہ پڑھنے سے مسلماں نہیں ہوتا کوئی
کرتے ہیں کتنے ہی اسلام کا دعویٰ کافر
۔۔۔۔۔۔کے بارے میں زباں کھلتی نہیں
اس کو کچھ کہتے نہیں جو تھا سراپا کافر
طور مدحت پہ ہے مصروف مناجات کلیم
دل لرزتا ہے کہ ہوجائے نہ دنیا کافر
(علامہ ذیشان حیدر جوادی کلیم الہ آبادی)
حیف اس کو بھی سمجھنے لگی دنیا کافر
جس کے رشتوں میں نہیں کوئی بھی رشتہ کافر
جس کو بھی چاہے بنا دیتا ہے مُلّا کافر
سچ ہے کافر کو نظر آتی ہے دنیا کافر
نسل وہ جس میں نہ ہو باپ نہ دادا کافر
غیر ممکن ہے کہ ہو اس کا خلاصہ کافر
اب تو کافر بھی ہے اس دور میں اندھا کافر
کل ایماں نظر آتا ہے سراپا کافر
بت پرستوں کو مسلمان سمجھنے والے
خاک سمجھیں گے مسلمان ہے کیا، کیا کافر
اک قیامت ہے کہ ہوں کفر کے پالے مسلم
اور زچہ خانہ ہو جس کے لئے کعبہ، کافر
فخرسے کہتے ہیں اپنے کو سواد اعظم
اِن میں جو کفر کرے گا وہ ہے کالا کافر
کفر کی بحث نہ چھیڑو تو غنیمت ہے یہی
ورنہ بتلائیں گے ہم کون ہے کیسا کافر
جس کی اولاد ہوں اسلام میں چودہ معصوم
وہ بھی کافر ہو تو ہوجائیں گے چودہ کافر
کون جانے کہ پیمبر کو ضرورت کیا تھی
عقد مسلم کا ہو، پڑھنے لگے صیغہ کافر
جس کی گودی کا پلا بانی اسلام بنے
وہ بھی کافر ہے تو ہے سارا زمانہ کافر
کل ایمان پسر ہوتا تو کیسے ہوتا
پالنے والا مقدر سے جو ہوتا کافر
اس کے پوتے ہیں زمانے میں حسین اور حسن
پوتے سردار جناں اور ہے دادا کافر؟
اک علی نفس نبی، ایک علی ہے سجاد
اس کا بیٹا کوئی کافر ہے نہ پوتا کافر
باقر علم، خلف جعفر صادق وارث
کب زمانے میں کوئی ہوتا ہے سچا کافر
اس کے اک لال کو کہتا ہے زمانہ کاظم
وہ ہے موسیٰ تو نہیں ہوتا ہے موسیٰ کافر
اُس کے ایماں کی علامت ہے رضا کا دربار
جہاں آجائے تو کرلیتا ہے سجدہ کافر
اس کے کردار کا اعلان سے تقوائے تقی
اور نہیں ہوتا کوئی صاحب تقویٰ کافر
نفس ہے اُس کا نقی اور سراپا ہے حسن
کون اس نسل کے مورث کو کہے گا کافر
اس کا فرزند جب آئے گا الٹ کر پردہ
پھر زمانے میں کوئی رہ نہ سکے گا کافر
سر دربار یہ اعلان کیا زینب نے
ابوطالب نہیں، ہے آل۔۔۔۔ کافر
اُس کا پوتا تھا علمدار شہ دیں عباس
پوتا ہو جس کا علمدار وہ کیسا کافر
اُس کے اکبر کی اذاں آج تلک گونجتی ہے
کیا کوئی داعی توحید بھی ہوگا کافر
کلمہ پڑھنے سے مسلماں نہیں ہوتا کوئی
کرتے ہیں کتنے ہی اسلام کا دعویٰ کافر
۔۔۔۔۔۔کے بارے میں زباں کھلتی نہیں
اس کو کچھ کہتے نہیں جو تھا سراپا کافر
طور مدحت پہ ہے مصروف مناجات کلیم
دل لرزتا ہے کہ ہوجائے نہ دنیا کافر