خار زارِ کفر میں بنت اسلام کی ایمان افروز زندگی – سرحدِ ادراک سے آگے

الف نظامی

لائبریرین
اکنامکس افئیر ڈویژن کے نذیر احمد نعیم کا 2007 میں خدام الحجاج کے قافلے کا رکن ہوجانا ، اس کے لیے کتنا اہم تھا۔ کتنا خوش قسمت تھا ، وہ کس قدر مسرور تھا کہ اللہ تعالی نے اس کی دیرینہ آرزو یوں پوری کی ، اپنی قسمت پر ناز ہونا کسے کہتے ہیں ، اسے اب معلوم ہوا۔ اہل خانہ ، اہل خاندان ، اہلِ محلہ ، دفتر کے ساتھی ، سبھی نے مبارکبادوں کے ساتھ ساتھ ، دعاوں کے پھولوں سے بھی لاد دیا۔ کتنی تیاری ۔۔۔ روحانی بھی اور مادی بھی ۔۔۔ مکمل کر لی گئی لیکن اسے یہی احساس رہا کہ کسر رہ گئی ہے۔ “ابھی تو قلب و نظر کے صدق و صفا کے کئی مراحل طے کرنے ہیں” بازار اور مسجد کے چکر ساتھ ساتھ لگ رہے ہیں۔۔۔ اب صرف دو روز باقی رہ گئے ہیں یہ وقت کاٹے نہِں کٹ رہا۔۔۔ یہ وقت کتنا تیز بھاگ رہا ہے۔ متضاد کیفیات — اور پھر​
“نذیر ہمیں افسوس ہے تم نہیں جاسکتے۔ کسی اور کا بلاوا تھا۔۔۔ ہمیں اسے بھیجنا پڑ رہا ہے — ہماری مجبوری تم سمجھتے ہو نا– ہو سکتا ہے تمہارا بلاوا آئندہ برس ہو— ہمیں افسوس ہے—”
دل پر کیا گزری ، اس کا ذکر لاحاصل —
آئندہ برس ایامِ حج اس کے لیے نوید لے کر آئے کہ اس مرتبہ تمہارا بلاوا ہے — نذیر کہتے ہیں کہ میں جو تمام سال اس پشیمانی میں رہا کہ اللہ تعالی نے مجھے اس قابل نہیں سمجھا کہ اپنے گھر بلاتا ، اپنا مہمان بناتا ، میں وہاں جا کر سجدہء شکر ادا کرتا ، میں درِ حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر دستک دیتا ، جنت کے باغوں میں سے ایک باغ پر میرے سجدے کے نشان ثبت ہوتے ، میں روضے کی جالیوں کے ساتھ لگا درود و سلام پڑھتا۔ میں دل میں چھپی ساری آرزوئیں ان کے سامنے بیان کر دیتا —
اب میں اپنے دل سے پشیمانی کے تمام داغوں کو دھوتا تھا۔ اللہ کا کتنا کرم ہے مجھ پر کہ اس نے اگلے برس ہی بلاوہ بھیج دیا ہے۔ مختصر یہ کہ میں مکہ پہنچ گیا۔ گلے شکوے سبھی بھول گیا۔ یاد رہیں تو اس کی نعمتیں اور انعامات ، اس کی کس کس نعمت کا شکریہ ادا کیا جائے اس کے لیے تو ایک عمر نا کافی ہے۔ مجھے طواف میں بہت لطف آتا تھا ، سر جھکا کر تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے ، آنکھوں سے لحظہ بہ لحظہ بڑھتی نمی کی دھند کو صاف کرتے ہوئے ، اردو عربی میں دعائیں مانگتے ہوئے — جی چاہتا ، لمحہ بھر کے لیے بھی میرے قدم نہ رکیں لیکن ذمہ داری کا احساس غالب رہتا۔ مجھے اللہ کے گھر حاجیوں کی خدمت کا خوش گوار فریضہ سونپا گیا ہے — ہم سو کے لگ بھگ لوگ تھے جو خدام الحجاج کے طور پر حاجیوں کے لیے سہولتیں فراہم کرنے میں مدد دے رہے تھے۔ میں جیسے ہی فارغ ہوتا ، طواف کے لیے حاضر ہو جاتا۔ ایک روز بھائی شفیق الرحمن کہنے لگے۔
“حجر اسود کو بوسہ دے لیا ہے”
میں نے کہا
“نہیں ابھی نصیب نہیں ہوا۔ وہاں اتنی بھیڑ ہے کہ ابھی سوچا نہیں جاسکتا”
ایسی کیا بات ہے ، آو میرے ساتھ اور واقعی انہیں کوئی ترکیب معلوم تھی ، تھوڑی دیر بعد ہم اس سعادت سے بہرہ مند ہو چکے تھے۔ حجر اسود کو جیسے ہی بوسہ دے کر باہر کی طرف نکلے ۔ نائیجرین باشندوں کا ایک گروہ اتنا اچانک نمودار ہوا کہ سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملا ، میں گرتے گرتے بچا ، اسی ہنگامے میں ایک پرس بھی میرے سامنے آ گرا۔
بمشکل تمام میں نے اسے اٹھایا کہ نہ جانے کس کا ہوگا اور ٹھوکروں سے نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ جائے گا۔ پتا دیکھنے کی نیت سے پرس کھولا تو شناختی کارڈ پر “نوا نگر ، انبالہ” کا پتا درج تھا ، جس سے اندازہ ہوا کہ کسی ہندوستانی کا پرس ہے ۔ ابھی میں کارڈ دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک صاحب میرے پاس آئے اور کہا یہ میرا پرس ہے۔ میں نے کہا میں یہی دیکھ رہا تھا کہ کوئی نشانی ملے تو مالک کو پہنچاوں۔ میں جان چکا تھا کہ ان کا تعلق ہندوستان سے ہے پھر بھی بات بڑھانے کی غرض سے پوچھا۔
کیا آپ پاکستان سے آئے ہیں؟
نہیں میرا تعلق ہندوستان کے شہر انبالہ سے ہے
ایک موہوم خواہش کے زیر اثر میں نے ان سے پوچھا
کیا آپ مجھے پندرہ منٹ دے سکتے ہیں
کیوں نہیں
او وہ مجھے اس جانب لے چلے جہاں ان کا پورا گروپ بیٹھا تھا۔ سلام دعا ہوئی ، تعارف ہوا۔ ان کے والدہ ، والدہ ، بیگم صاحبہ اور چند دیگر احباب۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ پاکستان کے کس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں نے کہا فی الحال تو میں اسلام آباد سے آیا ہوں ویسے میرا تعلق لاہور کے ایک قصبے چونیاں ، جو اب تحصیل قصور میں شامل ہوگیا ہے ، میں آبائی گھر ہے۔
ایک خاتون کہنے لگی تم چونیاں میں کسی کو جانتے ہو؟ میں نے کہا باجی آپ کسی کا نام لیں
اس خاتوں کی ساس کہنے لگیں
کیا تم چونیاں کے ایک ایک بندے کو جانتے ہو جو یہ کہہ رہے ہو کہ کسی کا نام لیں
میں نے کہا آپ نام تو لیں
بہو نے نام لینے شروع کیے
بشیر احمد — جنت بی بی — عبد العزیز
میں نے اب خاتون سے پوچھا
باجی آپ کا نام کیا ہے؟
سلیمن
میں نے کہا
اگر آپ برا نہ منائیں تو جو نام آپ نے لیے ہیں وہ ایک مرتبہ دہرا دیں
انہوں نے وہ سارے نام دہرا دیے۔ ساس صاحبہ کہنے لگیں۔
بھئی چائے کی طلب ہو رہی ہے
میں نے شفیق بھائی کو بھیجا کہ چائے لے آئیں۔ چائے آئی اور وہ سب پینے لگے
اسی دوران میں ، میں ذرا اٹھ کھڑا ہوا ، اسلام آباد گھر فون کیا اور بیگم سے پوچھا کہ ابا جی جس باجی کا ذکر کرتے رہتے تھے ، ان کا نام کیا ہے؟ بیگم نے نام بتا دیا
اب میں نے بھائی کو لاہور فون کیا اور یہی سوال دہرایا
کہنے لگے یار بہن تمہاری بھی ہے اور نام مجھ سے پوچھتے ہو ، بہر حال میں نے نام سن کر فون بند کر دیا وہ پوچھتے ہی رہ گئے کہ کیا ماجرا ہے؟ جب کہ میرے اندر جو بھونچال برپا تھا میں اسے سے لڑ رہا تھا کیوں کہ میرے سامنے سینتالیس کے فسادات میں بچھڑی بہن پوری سچائی اور پہچان کے ساتھ موجود تھی— جی ہاں باسٹھ سال کے بعد اللہ کے گھر میں —
میں نے کہا باجی ایک مرتبہ پھر میری خاطر یہ تینوں نام دہرا دیں —
آپ نام لیں میں ان سے اپنا تعلق بتاوں گا
باجی نے نام لینے شروع کیے
بشیر احمد
میں نے کہا
میرے ابا جی
جنت بی بی
میں نے کہا
میری اماں جی
عبد العزیز
میں نے کہا
میرے تایا جی
اب جو اس خاتون کی حالت تھی اور جو حشر مجھ میں بپا تھا — سب باہر آ چکا تھا۔ ہمارے بے اختیار رونے سے ، ہماری چیخوں سے سارا خانہ خدا گونج رہا تھا۔ ہم بھول گئے تھے کہ ہم کس مقام ادب پر بیٹھے ہیں۔
جہاں سانس بھی آہستہ لیا جاتا ہے۔ یہ انعام ہماری برداشت اور ظرف سے بہت زیادہ تھا — ایک ہجوم تھا جو ہمارے گرد اکٹھا ہوتا جا رہا تھا— ہندوستانی بھی اور پاکستانی بھی ، سبھی پوچھ رہے تھے کہ کیا ہوا ، کوئی انتقال کر گیا ہے؟ ، کیا مسئلہ ہے؟
ہمارے ساتھی انہیں بتا رہے تھے کہ یہاں تو ماجرا ہی کچھ اور ہے—
گھنٹوں باجی مجھے لپٹا کر روتی رہیں۔
جب میں نے انہیں بتایا کہ امی ، ابا جی اس دنیا میں نہیں رہے۔ ڈھائی سال پہلے بڑی باجی بھی ہمیں اکیلا کر گئیں تو انہیں نے میرے سر پر ہاتھ رکھ دیا کہ ابھی میں زندہ ہوں تو فکر نہ کر۔
—- تو کیا یہ معجزہ نہیں کہ 1947 کے فسادات میں بچھڑنے والی بہن 2008 میں مطاف میں گرنے والے پرس کی بدولت بھائی کو مل جاتی ہے۔ اس بھائی کو جسے اس نے دیکھا تک نہیں تھا—
نذیر صاحب 1952 کی پیدائش ہیں اور بہن 1947 میں دس بارہ سال کی ہوں گی۔ جب فسادات کا سلسلہ شروع ہوا ، انبالہ بھی اس کی زد میں آیا اور سکھوں کے ایک جتھے نے گاوں کی لڑکیوں کو اٹھایا اور کرپانیں لہراتے فرار ہوگئے۔ مسلمان گھروں پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ ابا جی تین چار بار سکھوں کے ہاں گئے ، بہت ترلے منتیں کیں ، لیکن سکھوں پر خون سوار تھا۔ ابا جی کا اصرار بڑھا تو کہنے لگے ، جا اندر بیٹھی ہے ، اگر جاتی ہے تو لے جا ، لیکن یاد رکھ دونوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا مگر جانے نہ دوں گا۔
ابا جی واپس ہوئے ، کس دل سے آئے ہوں گے یہ تو وہ جانتے ہیں یا خدا جانتا ہے۔ پاکستان آکر بھی باجی کو وہ لمحہ بھر کے لیے بھی نہ بھلا پائے۔ ہم اکثر ان کے منہ سے یہ زخم زخم داستان سنتے اور آہ بھر کر رہ جاتے۔
میرے چہرے پر انگنت سوال لکھے تھے — اگر سب کچھ ایسے ہی گزرا تھا تو جو سامنے ہے ، وہ کیا ہے؟
ابھی میں ذہن میں سوال ترتیب دے ہی رہا تھا کہ ایک بزرگ اٹھے اور میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو گئے اور کہا بیٹا تم سب کا گنہگار میں ہوں ، میں ہی وہ بدبخت ہوں جو ہر مرتبہ تمہارے والد کو کہتا تھا
کہ جا اندر بیٹھی ہے ، ہمت ہے تو لے جا — میں تم دونوں کے ٹکڑے کردوں اور میں سے اندر بھی جانے نہ دیتا تھا۔ بیٹا مجھے معاف کردو۔
ہدایت پانے کے بعد میں نے تم لوگوں کو کہاں کہاں نہ ڈھونڈا ، ہم ہر سال عرس پر داتا دربار بھی جاتے رہے۔
پاکستان سے اجمیر شریف آنے والوں سے بھی پتا پوچھتے رہے۔ کچھ سن گن ملی کہ آپ لوگ چونیاں میں ہیں ، لیکن ہمارا ویزہ صرف لاہور تک کا ہوتا تھا۔ بیٹا میں تمہارا مجرم ہوں۔ میں نے کہا بابا جی — جو تقدیر میں لکھا ہوتا ہے ، ہو کر رہتا ہے۔ آپ مجھے گناہگار نہ کریں ۔ تو کہنے لگے میں مرنے سے پہلے معافی مانگنا چاہتا ہوں ، میری خواہش تھی کہ اس خاندان کا کوئی فرد مل جائے تو میں اس کے آگے ہاتھ جوڑ دوں ، اس کے سامنے رو رو کر اپنے رب سے گناہوں کی معافی مانگوں۔
جب تک انہوں نے مجھ سے باقاعدہ کہلوا نہ لیا کہ بابا جی میں نے معاف کیا ، وہ اسی طرح ہاتھ جوڑے روتے رہے۔
اب باقی کڑیاں انہوں نے یوں ملائیں
ہم نے بچی رکھ تو لی ، لیکن ہمارے لیے یہ بڑا امتحان ثابت ہوئی۔ اسے ہم نے بہت مارا پیٹا۔ بے پناہ تشدد کیا۔ اسے سکھوں کے طور طریقے سکھانے چاہے لیکن یہ ہر وقت کلمے کا ورد کرتی رہتی تھی۔ محلے میں ایک مسلمان خاتون تھی۔ زینت ۔ اس کے ہاں سے کتاب (قرآن پاک) اٹھا لائی تھی اور ہر وقت پڑھتی رہتی تھی۔ مار پیٹ اس پر کوئی اثر نہیں کرتی تھی۔ تنگ آ کر ہم اسی مسلمان خاتون کے پاس گئے کہ یہ کیسی لڑکی ہے ، نماز ، کتاب سے کسی لمحے غافل نہیں ہوتی ، ہم تو مار مار کر تھک گئے ہیں تو اس خاتون نے کہا کہ آپ نے بڑی غلطی کی ہے اس لڑکی کو اٹھانا نہیں چاہیے تھا۔ جو زیادتیاں کرلیں سو کر لیں ، آئندہ کے لیے دھیان رکھو۔ اگر تمہاری مار کی وجہ سے اس لڑکی کے ہاتھ سے قرآن پاک گر گیا تو تم سب تباہ و برباد ہو جاو گے ، اس لڑکی کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔
نہ جانے اس خاتون کے لہجے میں کیا اثر تھا ، واقعی ہم سب اس بچی اور اس کی کتاب کی عزت کرنے لگے ، عزت ہی نہ کرنے لگے بلکہ آہستہ آہستہ اس کی طرف مائل بھی ہونے لگے ، وہ بچی اخلاق و عادات میں بے مثل تھی ، اس کا کردار ، اس کی خدمت گزاری ہمیں کسی اور ہی منزل کی طرف لے جا رہی تھی۔
اور پھر ایک روز خاندان کے سبھی مرد مقامی مسجد میں گئے اور مولوی صاحب سے کہا کہ ہم مسلمان ہونا چاہتے ہیں۔ مولوی صاحب نے ہمارے بے تحاشہ بڑھے ہوئے کیس دیکھے – وہ جانتے تھے کہ سکھ کبھی قینچی کو ہاتھ نہیں لگاتا ۔ انہوں نے کہا کہ جاو پہلے سارے بال کتروا کر پاک صاف ہو کر آو۔ شاید وہ آزمانا چاہتے تھے کہ ہم بال کٹواتے ہیں یا نہیں۔ ہم واقعی مسلمان ہونا چاہتے ہیں یا کسی وقتی جذبے کے زیر اثر یہاں آگئے ہیں۔
ہم واپس آئے اور بال کٹوا کر پاک صاف ہو کر ان کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہوئے۔ پھر میری اس بہو کی کرامت دیکھیے کہ ہماری برادری کے پچاس خاندانوں نے اسلام قبول کیا۔ نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ ارکان اسلام کی ادائیگی میں کوشاں رہے ، نماز روزہ زکوۃ حج ، سبھی ارکان ادا کرتے رہے۔ یہاں آپ جتنے افراد دیکھ رہے ہیں ان کا آٹھواں یا نواں حج ہے۔ داتا دربار جو خواہش لے کر جاتے تھے وہ اس سب سے بڑے دربار میں پوری ہونا تھی۔ یہ کرم یہیں ہونا تھا۔ یہ انعام آج ہونا تھا۔
میں نے کہا
پچھلے سال میرا حج کا پروگرام تھا ، جو روانگی سے صرف دو روز قبل ملتوی ہوگیا۔ مجھے کتنا غم ہوا تھا بتا نہیں سکتا۔
باجی کہنے لگیں
تمہیں اس سال مجھے ملنا تھا، پچھلے برس تم آ ہی نہیں سکتے تھے
ہماری ملاقات ، گرد و پیش میں جتنے حاجی تھے ، سبھی کے لیے حیرت و مسرت کا باعث تھی ، جو سنتا ہمیں ملنے چلا آتا۔ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور ، جناب حامد سعید کاظمی کے علم میں یہ بات آئی تو وہ بھی مبارک باد دینے کے لیے آئے۔ پھر ان سے اکثر ملاقاتیں ہوتی رہیں بلکہ ابھی کچھ عرصہ قبل وہ ایک دھماکے میں زخمی ہوئے میں ان کی خیریت پوچھنے گیا تو مجھے دیکھتے ہی انہوں نے بہن کا حال احوال دریافت کیا۔
ہم مکہ معظمہ میں 25 دسمبر سے 31 دسمبر تک روزانہ ملتے رہے۔ میں وفاقی حکومت کا ملازم ہوں اس لیے مجھے مشورہ دیا گیا کہ تم ابھی انہیں فون کرو گے نہ خط لکھو گے۔ کاغذی کاروائیاں ہو رہی ہیں ، کچھ وقت لگے گا پھر میری بہن پاکستان آ سکے گی۔ یہاں میرے خاندان کے سبھی افراد بے چینی سے ان کے منتظر ہیں۔
جب سے پاکستان آیا ہوں ، اپنے بھی اور غیر بھی ملنے آتے ہیں۔ پہلے بہن کے ملنے کی مبارک دیتے ہیں بعد میں حج کی۔
اور آج اس داستان کا انتہائی دل خوش کن اور سر کو فخر سے بلند کر دینے والا انجام دیکھنے کے لیے ماں باپ دونوں اس دنیا میں موجود نہیں ، مگر اپنی بیٹی کی ایمان افروز زندگی سے یقینا شاداں اور مسرور ہوں گے۔ ہم بھائیوں بلکہ سب مسلمانوں کے لیے اس سے بڑی خوشی اور فخر کی بات ہو ہی نہیں سکتی۔
حرمِ پاک کا رکھوالا اپنے بندوں پر کس کس طرح کرم کرتا ہے ، اس کا ادراک ممکن نہیں!

سرحدِ ادراک سے آگے ( تاثراتِ عمرہ )


از ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ
 
بہت دلگداز اور پر اثر اقتباس پلکیں نم ہو گئیں
سوہنے رب کے بھید سوہنا رب ہی جانے
جزاک اللہ شراکت کے لئے
اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھ آمین
 

نایاب

لائبریرین
سبحان اللہ
بلاشک پاک وبے نیاز ہے وہ سچی ذات
کیسے کیسے امتحان کیسے کیسے کرم فرماتی ہے ۔۔۔
بہت شکریہ شراکت پر ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

تلمیذ

لائبریرین
سبحان اللہ۔
یہ ایسے معاملات ہیں کہ انسانی عقل جن کی وضاحت کرنے سے قاصر ہے۔ یہ میرے رب کی ایسی حکمتیں ہیں جو فہم و ادراک سے ماورا ہیں۔ اس طرح کے واقعات پڑھ کر جہاں ہمارے جیسے کمزور دل لوگ کانپ اٹھتے ہیں، وہیں اس ذاتِ با برکات کے فضل و کرم پر اعتقاد بڑھ جاتا ہے۔ اللہ تعالےٰٗ سے عاجزانہ دعا ہے کہ ہم فقیروں پر اپنی رحمت کی بارش جاری و ساری رکھے کیونکہ اس کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں۔
بے حد شکریہ، جناب راجہ صاحب، کہ آپ نےہمیں اس روح پرور واقعہ میں شریک کیا۔ جزا ک اللہ۔
الف نظامی,
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
Top