بحر کا نام ---- مستفعلن مستفعلن فاعلاتن
خالق کا کیسا یہ کرم ہو گیا ہے
جو تھا عدو میرا، صنم ہو گیا ہے
یہ راز جانے کون، محفل ہے ان کی
اور ذکر میرا دم بہ دم ہو گیا ہے
جانے کیا دیکھا رند نے مے میں اس شب
سر میکدے میں اس کا خم ہو گیا ہے
اب جس کا جی چاہے وہ خود پڑھ لے ہم کو
ماتھے پہ یاں سب کچھ رقم ہو گیا ہے
اب چھوڑ کر اس شہر کو، چل کہیں اور
یاں تو بہت رنج و الم ہو گیا ہے
پو چھا جو میں نے، را ت گز ری کہاں ہے
بو لے وہ ہنس کے، بے شرم ہو گیا ہے