ابن انشا خاموش رہو ------ ابن انشاء

طالوت

محفلین
کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ ، کچھ نہ کہو خاموش رہو
اے لوگو خاموش رہو ، ہاں اے لوگو خاموش رہو

سچ اچھا پر اس کے جلو میں زہر کا ہے اک پیالہ بھی
پاگل ہو ؟ کیوں ناحق سقراط بنو ، خاموش رہو

اُن کا یہ کہنا سورج ہی دھرتی کے پھیرے کرتا ہے
سر آنکھوں پر ، سورج کو ہی گھومنے دو ، خاموش رہو

مجلس میں حبس ہے اور زنجیر کا آہن چھبتا ہے !
پھر سوچو ، ہاں پھر سوچو ، ہاں پھر سوچو ، خاموش رہو

گرم آنسو اور ٹھنڈی آہیں ، من میں کیا کیا موسم ہیں
اس بھگیا کے بھید نہ کھولو ، سیر کرو ، خاموش رہو

آنکھیں موند کنارے بیٹھو ، من کے رکھو بند کواڑ
انشاء جی لو دھاگا لو اور لب سی لو ، خاموش رہو​
----------------------------
وسلام
 

سید ذیشان

محفلین
کچھ کہنے کا وقت نہیں ہے کچھ نہ کہو خاموش رہو​
اے لوگو خاموش رہو ہاں اے لوگو خاموش رہو​
سچ اچھا ہے پر اس کی جڑوں میں زہر کا اک پیالہ بھی ہے​
پاگل ہو؟ کیوں ناحق کو سقراط بنو خاموش رہو​
حق اچھا ہے پر اس کے لئے کوئی اور مرے تو اور اچھا ہے​
تم بھی کیا منصور ہو جو سولی پہ چڑھوخاموش رہو​
ان کا یہ کہنا سورج ہی دھرتی کے پھیرے کرتا ہے​
سر آنکھوں پر، سورج ہی کو گھومنے د،وخاموش رہو​
گرم آنسو اور ٹھنڈھی آہیں من میں کیا کیا موسم ہیں​
اس بگیا کے بھید نہ کھولو سیر کروخاموش رہو​
اکھیاں موند کنارے بیٹھو من کی رکھو بند کھواڑ​
انشا جی لو دھاگا لو اور لب سی لوخاموش رہو​
 
مزمل شیخ بسمل بھی اس غزل کے قوافی یقینا درست ہوں گے، مگر میں تشویش میں ہوں کیونکہ ”کہو“ میں حرف روی ہ اور ”لوگو“ میں گ ہے۔

آپ کی نشاندہی درست ہے۔ لیکن یہاں مسئلہ تھوڑا مختلف ہے۔ در اصل کچھ ہندی افعال میں مشتقاتِ مصدر میں بحالت امر اور ماضی مطلق میں صورتحال بدل جاتی ہے۔ اور اس طرح اساتذہ نے چند تصرفات مزید جائز رکھے ہیں۔ ”کرنا“ سے ماضی ”کیا“ اب لازم ہے کرنا سے ”کرا“ ہونا تھا لیکن ”کیا“ ہوا اس کے الف کو بھی اصلی سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح کہہ سے ”کہا“ کے الف کو اصلی سمجھتے ہیں، اور چند مزید ہندی افعال۔ یہ اس لئے ہے کہ اساتذہ نے اسے ایسے باندھا ہے۔ حالانکہ درحقیقت یہ تمام حرفِ روی نہیں بلکہ حرفِ وصل کہلاتے ہیں (کہو کا واؤ بھی حرفِ وصل ہے)، ہم نے صرف ان تصرفات کو قبول کیا ہے جو بیسوی صدی کے اوائل تک موجود رہے اور داغ دہلوی اور خاتم المجتھدین مولانا حسرت موہانی نے بھی قبول کئے۔ اب اصول یہ کہتا ہے کہ یہ قافیہ غلط ہے، مگر اساتذہ اسے استعمال کرتے ہیں۔ جیسا کہ قافیہ میں معمولِ تحلیلی اور معمولِ ترکیبی کے عیوب کو اساتذہ نے روا رکھا، گو کہ یہ بھی اصولی طور پر جائز نہیں۔ مثال میں غالب کی غزل:
درد مِنّت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا

اس میں قافیہ ”الف“ ہے۔ اور ”نہ ہوا“ مکمل ردیف کا حصہ ہے۔ لیکن اسی غزل کا ایک شعر ایسے ہے:
رہزنی ہے کہ دل ستانی ہے؟
لے کے دل، "دلستاں" روانہ ہوا

اب لفظی اعتبار سے تو روانہ میں حرفِ روی نون ہے، اگر روا اور نہ کو الگ کرتے ہیں تو لفظ ٹوٹ جاتاہے، روانہ کو مکمل قافیہ سمجھ لیں تو ردیف زخمی ہوتی ہے، اور روانہ کو ردیف سمجھ لیں تو قافیہ باقی نہیں رہا۔ اسے معمولِ تحلیلی کہتے ہیں، اس معاملے میں عروضیانِ عجم کا اس بات پر اتفاق ہے معمولِ ترکیبی و تحلیلی دونوں عیوب ہیں۔ مگر اساتذہ نے بھی اسے روا رکھا ہے اور بعد میں بھی اسے بلا جھجک باندھا گیا ہے۔
الغرض ہندی افعال میں بعض ایسے ہیں جن میں بجائے اصل کے ہم وصل کو اصل مانتے ہیں۔ :) اور اس لئے باندھتے ہیں کہ اساتذہ نے ایسا کیا ہے۔ لیکن احتیاط بہر حال اولی ہے۔ اختیار کہنے والے ہی کا ہے۔
آخری میں یہ بات بھی عرض کردوں کہ اس سب بات سے آپ یہ تاثر نہ لیجئے گا کہ ابن انشا کوئی استاد شاعر تھے۔ ان کے کلام میں بہت سے تسامحات موجود ہیں (مداح حضرات سے معذرت کے ساتھ)۔ لیکن یہاں یہ مسئلہ اس سے برتر ہے، چنانچہ وضاحت کردی گئی ہے۔
 
Top