آصف شفیع
محفلین
باقی احمد پوری صاحب کی ایک غزل احباب کیلیے۔
خاموش چاہتوں کی مہک اُس طرف بھی ہے
جو میرے دل میں ہے وہ کسک اُس طرف بھی ہے
کربِ شبانِ ہجر سے ہم بھی ہیں آشنا
آنکھوں میں رتجگوں کی جھلک اُس طرف بھی ہے
ہیں اِس طرف بھی تیز بہت، دل کی دھڑکنیں
بیتاب چوڑیوں کی کھنک اُس طرف بھی ہے
شامِ فراق اشک اِدھر بھی ہیں ضوفشاں
پلکوں پہ جگنوؤںکی دمک اُس طرف بھی ہے
سامان سب ہے اپنے تڑپنے کے واسطے
ہے زخمِ دل ادھر تو نمک اس طرف بھی ہے
باقی ہم اہلِ دل سے یہ دنیا بھی خوش نہیں
جائیں کہاں کہ سر پہ فلک اس طرف بھی ہے۔
( باقی احمد پوری)
خاموش چاہتوں کی مہک اُس طرف بھی ہے
جو میرے دل میں ہے وہ کسک اُس طرف بھی ہے
کربِ شبانِ ہجر سے ہم بھی ہیں آشنا
آنکھوں میں رتجگوں کی جھلک اُس طرف بھی ہے
ہیں اِس طرف بھی تیز بہت، دل کی دھڑکنیں
بیتاب چوڑیوں کی کھنک اُس طرف بھی ہے
شامِ فراق اشک اِدھر بھی ہیں ضوفشاں
پلکوں پہ جگنوؤںکی دمک اُس طرف بھی ہے
سامان سب ہے اپنے تڑپنے کے واسطے
ہے زخمِ دل ادھر تو نمک اس طرف بھی ہے
باقی ہم اہلِ دل سے یہ دنیا بھی خوش نہیں
جائیں کہاں کہ سر پہ فلک اس طرف بھی ہے۔
( باقی احمد پوری)