فرحان محمد خان
محفلین
غزل
خاموش ہیں ششدر ہیں پریشان بہت ہیں
کیوں کر نہ ہوں دل ایک ہے ارمان بہت ہیں
ایسا یہاں کوئی نہیں اپنا جسے کہتے
یوں شہر میں کہنے کو تو انسان بہت ہیں
افسوس کہ ایمان کی بو تک نہیں آتی
یہ بات الگ صاحبِ ایمان بہت ہیں
کچھ علم کی دولت بھی عطا کر انھیں مولا
کہنے کو یہاں صاحبِ عرفان بہت ہیں
اخلاق و محبت سے یہ محروم ہے کیسے؟
اس شہر میں سنتے ہیں مسلمان بہت ہیں
لیتے نہیں ہم لوگ سبق اس سے کوئی بھی
قرآن میں حکمت کے تو فرمان بہت ہیں
بس میرؔ کا دیوان ہے گنجینۂ معنی
یوں شہر کی دکانوں پہ دیوان بہت ہیں
فرحان محمد خان
خاموش ہیں ششدر ہیں پریشان بہت ہیں
کیوں کر نہ ہوں دل ایک ہے ارمان بہت ہیں
ایسا یہاں کوئی نہیں اپنا جسے کہتے
یوں شہر میں کہنے کو تو انسان بہت ہیں
افسوس کہ ایمان کی بو تک نہیں آتی
یہ بات الگ صاحبِ ایمان بہت ہیں
کچھ علم کی دولت بھی عطا کر انھیں مولا
کہنے کو یہاں صاحبِ عرفان بہت ہیں
اخلاق و محبت سے یہ محروم ہے کیسے؟
اس شہر میں سنتے ہیں مسلمان بہت ہیں
لیتے نہیں ہم لوگ سبق اس سے کوئی بھی
قرآن میں حکمت کے تو فرمان بہت ہیں
بس میرؔ کا دیوان ہے گنجینۂ معنی
یوں شہر کی دکانوں پہ دیوان بہت ہیں
فرحان محمد خان
مدیر کی آخری تدوین: