فرخ منظور
لائبریرین
خامہ بگوش کے قلم سے
(تحریر: مشفق خواجہ)
نستعلیق کا ذکر آیا تو ایک لطیفہ بھی سن لیجیے۔ کچھ عرصہ ہوا نوری نستعلیق کے موجد جناب جمیل مرزا نے ایک پریس کانفرنس کی تھی۔ اس کے بعد عشائیہ بھی تھا۔ جمیل مرزا صاحب نے ایک صحافی سے پوچھا: ’’کیا آپ کو کھانا پسند آیا؟‘‘ صحافی نے جواب دیا: ’’بہت مزے کا کھانا ہے۔ ایسا معلوم ہو رہا ہے جیسے میں نوری نستعلیق نگل رہا ہوں۔‘‘
معاف کیجیے، ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ بات شعروں سے شروع ہوئی تھی اور ہم یہ عرض کر رہے تھے کہ مذکورہ شعر ہماری تصنیفِ لطیف نہیں ہیں۔ ممکن ہے بعض لوگ انھیں مولانا کوثر نیازی کے رشحاتِ فکر سمجھیں لیکن یہ بھی درست نہیں کیوں کہ تیسرے شعر میں تانیث کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ مولانا صاحب اپنی سیاسی وفاداریاں بدل سکتے ہیں، صیغہ نہیں بدل سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمھاری یاد میں بکھر بکھر جاتا ہوں
خود سے پوچھتا ہوں کیا سبب تھا بے وفائی کا
زندگی کی طلب ہے نہ مرنے کا مؤقف
جانے کیسے بے دلی کے عالم میں جی رہے ہیں ہم
ہزار تلخیاں ہیں اپنی ذات کے ساتھ
میں کہاں بھٹک گئی ہوں تیری یاد کے ساتھ
قارئین کرام کو زیادہ دیر تک سسپنس میں رکھنا مناسب نہیں، لہٰذا ہم بتائے دیتے ہیں کہ مذکورہ اشعار گلوکارہ ناہید اختر کے ہیں۔ لاہور کے ایک اخبار میں موصوفہ کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ:’’ یوں تو مجھے شروع ہی سے شعر گوئی کا شوق تھا لیکن گلوکاری کی مصروفیات کی وجہ سے میں اپنا شوق پورا نہ کرسکی۔ گزشتہ تین چار برس سے شعر کہنے کا شوق پھر زور پکڑ گیا تو میں نے طبع آزمائی شروع کر دی اور اب تک کئی غزلیں لکھ چکی ہوں۔‘‘
محترمہ کا نمونۂ کلام دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں شعر کہنے کی صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہے۔ کاش وہ گلوکاری کی مصروفیات کو بہانہ بنا کر شاعری کے شوق کو نہ دبائیں۔ مصروفیات تو قتیل شفائی اور اقبال صفی پوری کی بھی تھیں لیکن انھوں نے کبھی اپنے شوق کو نہیں دبایا۔ ہمیشہ شاعری کو دباتے رہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ شاعری اس حد تک دب گئی ہے کہ آج ان دونوں کا شمار بڑے شاعروں میں ہوتا ہے۔
بہرحال یہ امر مسرت کا باعث ہے کہ گزشتہ تین چار برسوں سے ناہید اختر کا شوقِ شاعری زور پکڑ گیا ہے۔ شاید اسی زور آزمائی کا نتیجہ ہے کہ ان کے شعر عروض کی پٹڑی سے اتر گئے لیکن یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں۔ اچھے شعر کے لیے ضروری نہیں کہ وہ عروض کا پابند ہو۔ جب کسی شعر میں کام کی اور بہت سی باتیں ہوں، عروض تو کیا معنوں کو بھی بآسانی نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ محترمہ کے جو تین شعر اوپر درج کیے گئے ہیں ان میں بے شمار خوبیاں ہیں۔ مثلاً پہلے شعر ہی کو لیجیے۔ اس میں محترمہ نے اپنے لیے تذکیر کا صیغہ استعمال کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی سکت رکھتی ہیں۔ کسی کی بے وفائی کا سبب انھوں نے اپنے آپ سے پوچھا ہے، کوئی کم ہمت ہوتا تو فال نکالنے والے توتے سے پوچھتا۔
اگر ہم صاحبِ دیوان ہوتے تو اپنا دیوان دے کر محترمہ سے ان کے تینوں شعر لے لیتے۔ اب ہم یہی کر سکتے کہ محسن بھوپالی کے تینوں دیوان محترمہ کے حوالے کر دیں اور محترمہ کے تینوں شعر محسن بھوپالی کو سونپ دیں۔ سودا بُرا نہیں۔ محسن صاحب فائدے ہی میں رہیں گے کیوں کہ محترمہ نے اعلان کیا ہے کہ آیندہ وہ ٹی وی پر خود اپنا کلام گایا کریں گی۔ محسن بھوپالی کے کلام کو جب وہ اپنا کلام سمجھ کر گائیں گی تو یہ کلام زبان زدِ خاص و عام ہوجائے گا۔
ممکن ہے بعض لوگ یہ پوچھیں کہ ناہید اختر کے تین شعر محسن بھوپالی کے کس کام آئیں گے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ تینوں دیوان ناہید اختر کو دے دینے کے بعد محسن بھوپالی کے پاس کچھ نہ کچھ رہنا چاہیے۔ اگلے سال ساداتِ امروہہ کے مشاعرے میں انھیں کلام سنانا ہی ہوگا۔ یہ تین شعر وہاں کام آئیں گے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ساداتِ امروہہ کے مشاعروں میں شعروں سے زیادہ شاعر کام آتے ہیں۔
ناہید اختر نے بتایا کہ ان میں شعر گوئی کا شوق احمد فراز اور پروین شاکر کی شاعری کے مطالعے سے پیدا ہوا ہے۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ فراز اور پروین کی شاعری کے مطالعے کا کوئی مثبت نتیجہ ظاہر ہوا‘ ورنہ اب تک تو ہم نے یہی دیکھا تھا کہ ان دونوں کے کلام سے متاثر ہو کر لوگ شاعری ترک کر دیتے تھے۔
ویسے بھی آج کل زمانہ بہت خراب ہے۔ ہم نے کئی ایسے استاد دیکھے ہیں جو اصلاح کے بہانے شاگردوں کا کلام ہتھیالیتے ہیں۔ اس سلسلے میں استاد اختر انصاری اکبر آبادی کا ایک واقعہ ان کے شاگرد سلطان جمیل نے سنایا ہے۔ سلطان جمیل اب تو اپنے منہ کا مزہ بدلنے اور دوسروں کے منہ کا مزہ خراب کرنے کے لیے افسانے لکھتے ہیں لیکن کسی زمانے میں شعر بھی کہا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انھوں نے اپنی ایک غزل استاد کو اصلاح کے لیے دی۔ کچھ دنوں بعد شاگرد نے غزل واپس مانگی تو استاد نے کہا: ’’میاں طبیعت پر زور دے کر شعر کہا کرو تمھاری غزل تو بڑی بے مزہ تھی۔ اصلاح کی گنجائش بالکل نہیں تھی، اس لیے میں نے پھاڑ کر پھینک دی۔‘‘
کچھ عرصے بعد یہی غزل استاد نے اپنے رسالے میں اپنے نام سے شائع کر دی۔ شاگرد نے دیکھی تو شکوہ کیا: ’’استاد! آپ نے تو کہا تھا کہ غزل پھاڑ کر پھینک دی، پھر یہ رسالے میں آپ کے نام سے کیسے چھپ گئی؟‘‘ استاد نے فرمایا: ’’میاں غلطی ہوگئی۔ جیب میں تمھاری غزل رکھی تھی اور میری بھی۔ اپنی غزل میں نے پھاڑ کر پھینک دی اور تمھاری غزل کاتب کے حوالے کر دی۔ آیندہ اصلاح کے لیے مجھے تم دو غزلیں دینا تاکہ ایک پھاڑ کر پھینک دوں تو دوسری اصلاح کے بعد تمھیں واپس کر دوں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قافیہ و ردیف کا بوجھ
ہم تین چیزوں سے بہت ڈرتے ہیں۔ تجریدی مصوری سے، علامتی افسانے سے اور اساتذہ کے کلام سے۔ وجہ یہ ہے کہ اِن تینوں کے مفہوم اخذ کرنا ناظر یا قاری کی ذمہ داری ہے نہ کہ مصور، افسانہ نگار اور شاعر کی۔ مصور الوان و خطوط سے، افسانہ نگار الفاظ سے اور اساتذۂ سخن ردیف و قوانی سے فن پارے کو اِس حد تک گراں بار کر دیتے ہیں کہ اُس میں مزید کوئی بار اُٹھانے کی گنجائش نہیں رہتی۔ لہٰذا مفہوم و معنی کا یہ بار ہم جیسے ناتوانوں کو اُٹھانا پڑتا ہے۔ میر تقی میر کو بھی اِس قسم کا تجربہ ہوا تھا جس کا ذکر اِس شعر میں ملتا ہے:
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اُس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا
ہم تجریدی مصوری کی نمائشوں میں کبھی نہیں جاتے، یہاں تک احتیاط برتتے ہیں کہ جب شہر میں اِس قسم کی کوئی نمائش ہوتی ہے، تو گھر سے باہر نہیں نکلتے کہ کہیں فضائی آلودگی ہم پر بھی اثر انداز نہ ہوجائے۔ علامتی افسانے لکھنے والوں کا سامنا کرتے ہوئے گھبراتے ہیں کہ انھوں نے گفتگو میں علامتوں سے کام لیا تو ہمارا حشر بھی وہی ہوگا جو افسانے کی صنف کا ہوا ہے۔ اساتذۂ سخن کا ہم بے حد ادب کرتے ہیں اور اِسی وجہ سے ہم نے کبھی ان سے بے تکلف ہونے کی جسارت نہیں کی۔ یعنی ان کے دواوین کے قریب جانا اور چھونا تو کیا، انھیں دور سے دیکھنا بھی ہمارے نزدیک سوئِ ادب ہے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے، تو بڑی جماعتوں کے طالب علموں کو اُن کی شرارتوں پر جو سخت سزا دی جاتی تھی وہ یہ تھی کہ اُن سے استاد ذوق کی کسی غزل کی شرح لکھوائی جاتی تھی۔ یہی سبب ہے کہ ہم نے بڑی جماعتوں میں پہنچنے سے پہلے ہی سلسلۂ تعلیم منقطع کر لیا۔ معلوم نہیں آج کل اسکولوں میں اِس قسم کی سزائیں دینے کا رواج ہے یا نہیں۔ اگر ہوگا تو یقینا استاد اختر انصاری اکبر آبادی کا کلام سزا دینے کے کام آتا ہوگا۔ یہ بات ہم نے بلاوجہ نہیں کہی۔ سلطان جمیل نسیم نے یہ واقعہ ہمیں سنایا ہے کہ حیدرآباد میں ایک مجرم کو پندرہ کوڑے کھانے یا استاد کی پندرہ غزلیں سننے کی سزا دی گئی۔ سزا کے انتخاب کا حق استعمال کرتے ہوئے مجرم نے کوڑے کھانے کا فیصلہ کیا کیونکہ یہ سزا نسبتاً نرم تھی۔ سلطان جمیل نسیم چونکہ افسانہ نگارہیں، اِس لیے ممکن ہے بعض لوگ اِس واقعے کو درست نہ سمجھیں، لیکن ہمارا خیال ہے کہ کسی افسانہ نگار کا سہواً کسی واقعے کو صحیح بیان کر دینا خارج از اِمکان نہیں۔
استاد اختر انصاری شاعر ہی نہیں، ایک رسالے کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ رسالہ تو کبھی کبھی چھپتا ہے لیکن دیوان ہر سال باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں استاد کا بیسواں دیوان شائع ہوا تھا، تو وہ اُسے اپنے عقیدت مندوں میں قیمتاً تقسیم کرنے کے لیے کراچی تشریف لائے تھے۔ اِس سلسلے میں وہ ہم سے بھی ملے تھے۔ ہم نے عرض کیا تھا: ’’استاد! ہم اِس شرط پر قیمت ادا کریں گے کہ دیوان آپ کسی اور کو دے دیں۔‘‘ اس گزارش سے وہ بے حد خوش ہوئے اور فرمایا: ’’اگر سب عقیدت مند آپ کی طرح کے ہوں، تو پھر دیوان چھپوائے بغیر ہی اُس کا پورا ایڈیشن فروخت ہوسکتا ہے۔‘‘
جس طرح پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، اُسی طرح تمام استاد بھی یکساں طور پر استادی کے درجے پر فائز نہیں ہوتے۔ حضرت تابش دہلوی کا شمار بھی اساتذۂ فن میں ہوتا ہے۔ لیکن اُن کی خوش گوئی اور خوش فکری میں کلام نہیں۔ بلاشبہ وہ ہمارے مقبول شاعروں میں سے ہیں۔ ہمارے دل میں ان کا بے حد احترام ہے۔ اسی لیے ہم نے ان کے مجموعہ ہائے کلام کو ادباً دور ہی سے دیکھا ہے۔ ان کے نئے مجموعے کو قریب سے دیکھنے کی اتفاقی صورت یوں پیدا ہوگئی ہے کہ پچھلے دنوں ہم حیدر آباد سندھ جا رہے تھے، بس میں ہمارے ساتھ جو صاحب بیٹھے تھے، اُن کے ہاتھ میں ایک کتا ب تھی جسے وہ بڑے انہماک سے پڑھ رہے تھے۔ ہمیں اُن صاحب کی بد ذوقی پر حیرت ہوئی کہ بس کے تمام مسافر تو ڈرائیور کے ذاتی ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہونے والے نازیہ اور زوہیب کے نئے گانوں سے محظوظ ہو رہے ہیں اور یہ صاحب کتاب پڑھ رہے ہیں۔ اسی دوران میں بلا ارادہ ہماری نظر اُس صفحے پر پڑی جو موصوف کے سامنے کھلا تھا۔ اس پر جلی حرفوں میں یہ عنوان درج تھا: ’’شان الحق حقی کی شادی پر غالب سے معذرت کے ساتھ۔‘‘ ہم شان صاحب کے پرانے نیاز مند ہیں۔ اس لیے اس عنوان پر ہمیں بے حد تعجب ہوا۔ شان صاحب کی شادی پر غالب سے معذرت کی ضرورت ہماری سمجھ میں نہ آئی۔ شان صاحب غالب کے دیوان کی شرح لکھتے یا تضمین کرتے تو معذرت کی گنجائش تھی، مگر شادی تو بالکل ایک مختلف کام ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہم نے اپنے ہم سفر سے کتاب دیکھنے کی اجازت چاہی تو اُنھوں نے فوراً اُسے ہمارے حوالے کر دیا، جیسے وہ اسی انتظار میں ہوں کہ کوئی ان سے کتاب لے لے۔ اس کے بعد وہ تو گانے سننے میں اور ہم کتاب کی ورق گردانی میں مصروف ہوگئے اور یوں ہم نے جناب شان الحق حقی سے نیاز مندی کا رشتہ رکھنے کی پاداش میں حضرتِ تابش دہلوی کے چوتھے مجموعۂ کلام ’’غبارِ انجم‘‘ سے استفادہ کیا۔ اسے ہم اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں۔
Boost Post
(تحریر: مشفق خواجہ)
نستعلیق کا ذکر آیا تو ایک لطیفہ بھی سن لیجیے۔ کچھ عرصہ ہوا نوری نستعلیق کے موجد جناب جمیل مرزا نے ایک پریس کانفرنس کی تھی۔ اس کے بعد عشائیہ بھی تھا۔ جمیل مرزا صاحب نے ایک صحافی سے پوچھا: ’’کیا آپ کو کھانا پسند آیا؟‘‘ صحافی نے جواب دیا: ’’بہت مزے کا کھانا ہے۔ ایسا معلوم ہو رہا ہے جیسے میں نوری نستعلیق نگل رہا ہوں۔‘‘
معاف کیجیے، ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ بات شعروں سے شروع ہوئی تھی اور ہم یہ عرض کر رہے تھے کہ مذکورہ شعر ہماری تصنیفِ لطیف نہیں ہیں۔ ممکن ہے بعض لوگ انھیں مولانا کوثر نیازی کے رشحاتِ فکر سمجھیں لیکن یہ بھی درست نہیں کیوں کہ تیسرے شعر میں تانیث کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ مولانا صاحب اپنی سیاسی وفاداریاں بدل سکتے ہیں، صیغہ نہیں بدل سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمھاری یاد میں بکھر بکھر جاتا ہوں
خود سے پوچھتا ہوں کیا سبب تھا بے وفائی کا
زندگی کی طلب ہے نہ مرنے کا مؤقف
جانے کیسے بے دلی کے عالم میں جی رہے ہیں ہم
ہزار تلخیاں ہیں اپنی ذات کے ساتھ
میں کہاں بھٹک گئی ہوں تیری یاد کے ساتھ
قارئین کرام کو زیادہ دیر تک سسپنس میں رکھنا مناسب نہیں، لہٰذا ہم بتائے دیتے ہیں کہ مذکورہ اشعار گلوکارہ ناہید اختر کے ہیں۔ لاہور کے ایک اخبار میں موصوفہ کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ:’’ یوں تو مجھے شروع ہی سے شعر گوئی کا شوق تھا لیکن گلوکاری کی مصروفیات کی وجہ سے میں اپنا شوق پورا نہ کرسکی۔ گزشتہ تین چار برس سے شعر کہنے کا شوق پھر زور پکڑ گیا تو میں نے طبع آزمائی شروع کر دی اور اب تک کئی غزلیں لکھ چکی ہوں۔‘‘
محترمہ کا نمونۂ کلام دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں شعر کہنے کی صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہے۔ کاش وہ گلوکاری کی مصروفیات کو بہانہ بنا کر شاعری کے شوق کو نہ دبائیں۔ مصروفیات تو قتیل شفائی اور اقبال صفی پوری کی بھی تھیں لیکن انھوں نے کبھی اپنے شوق کو نہیں دبایا۔ ہمیشہ شاعری کو دباتے رہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ شاعری اس حد تک دب گئی ہے کہ آج ان دونوں کا شمار بڑے شاعروں میں ہوتا ہے۔
بہرحال یہ امر مسرت کا باعث ہے کہ گزشتہ تین چار برسوں سے ناہید اختر کا شوقِ شاعری زور پکڑ گیا ہے۔ شاید اسی زور آزمائی کا نتیجہ ہے کہ ان کے شعر عروض کی پٹڑی سے اتر گئے لیکن یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں۔ اچھے شعر کے لیے ضروری نہیں کہ وہ عروض کا پابند ہو۔ جب کسی شعر میں کام کی اور بہت سی باتیں ہوں، عروض تو کیا معنوں کو بھی بآسانی نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ محترمہ کے جو تین شعر اوپر درج کیے گئے ہیں ان میں بے شمار خوبیاں ہیں۔ مثلاً پہلے شعر ہی کو لیجیے۔ اس میں محترمہ نے اپنے لیے تذکیر کا صیغہ استعمال کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی سکت رکھتی ہیں۔ کسی کی بے وفائی کا سبب انھوں نے اپنے آپ سے پوچھا ہے، کوئی کم ہمت ہوتا تو فال نکالنے والے توتے سے پوچھتا۔
اگر ہم صاحبِ دیوان ہوتے تو اپنا دیوان دے کر محترمہ سے ان کے تینوں شعر لے لیتے۔ اب ہم یہی کر سکتے کہ محسن بھوپالی کے تینوں دیوان محترمہ کے حوالے کر دیں اور محترمہ کے تینوں شعر محسن بھوپالی کو سونپ دیں۔ سودا بُرا نہیں۔ محسن صاحب فائدے ہی میں رہیں گے کیوں کہ محترمہ نے اعلان کیا ہے کہ آیندہ وہ ٹی وی پر خود اپنا کلام گایا کریں گی۔ محسن بھوپالی کے کلام کو جب وہ اپنا کلام سمجھ کر گائیں گی تو یہ کلام زبان زدِ خاص و عام ہوجائے گا۔
ممکن ہے بعض لوگ یہ پوچھیں کہ ناہید اختر کے تین شعر محسن بھوپالی کے کس کام آئیں گے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ تینوں دیوان ناہید اختر کو دے دینے کے بعد محسن بھوپالی کے پاس کچھ نہ کچھ رہنا چاہیے۔ اگلے سال ساداتِ امروہہ کے مشاعرے میں انھیں کلام سنانا ہی ہوگا۔ یہ تین شعر وہاں کام آئیں گے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ساداتِ امروہہ کے مشاعروں میں شعروں سے زیادہ شاعر کام آتے ہیں۔
ناہید اختر نے بتایا کہ ان میں شعر گوئی کا شوق احمد فراز اور پروین شاکر کی شاعری کے مطالعے سے پیدا ہوا ہے۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ فراز اور پروین کی شاعری کے مطالعے کا کوئی مثبت نتیجہ ظاہر ہوا‘ ورنہ اب تک تو ہم نے یہی دیکھا تھا کہ ان دونوں کے کلام سے متاثر ہو کر لوگ شاعری ترک کر دیتے تھے۔
ویسے بھی آج کل زمانہ بہت خراب ہے۔ ہم نے کئی ایسے استاد دیکھے ہیں جو اصلاح کے بہانے شاگردوں کا کلام ہتھیالیتے ہیں۔ اس سلسلے میں استاد اختر انصاری اکبر آبادی کا ایک واقعہ ان کے شاگرد سلطان جمیل نے سنایا ہے۔ سلطان جمیل اب تو اپنے منہ کا مزہ بدلنے اور دوسروں کے منہ کا مزہ خراب کرنے کے لیے افسانے لکھتے ہیں لیکن کسی زمانے میں شعر بھی کہا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انھوں نے اپنی ایک غزل استاد کو اصلاح کے لیے دی۔ کچھ دنوں بعد شاگرد نے غزل واپس مانگی تو استاد نے کہا: ’’میاں طبیعت پر زور دے کر شعر کہا کرو تمھاری غزل تو بڑی بے مزہ تھی۔ اصلاح کی گنجائش بالکل نہیں تھی، اس لیے میں نے پھاڑ کر پھینک دی۔‘‘
کچھ عرصے بعد یہی غزل استاد نے اپنے رسالے میں اپنے نام سے شائع کر دی۔ شاگرد نے دیکھی تو شکوہ کیا: ’’استاد! آپ نے تو کہا تھا کہ غزل پھاڑ کر پھینک دی، پھر یہ رسالے میں آپ کے نام سے کیسے چھپ گئی؟‘‘ استاد نے فرمایا: ’’میاں غلطی ہوگئی۔ جیب میں تمھاری غزل رکھی تھی اور میری بھی۔ اپنی غزل میں نے پھاڑ کر پھینک دی اور تمھاری غزل کاتب کے حوالے کر دی۔ آیندہ اصلاح کے لیے مجھے تم دو غزلیں دینا تاکہ ایک پھاڑ کر پھینک دوں تو دوسری اصلاح کے بعد تمھیں واپس کر دوں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قافیہ و ردیف کا بوجھ
ہم تین چیزوں سے بہت ڈرتے ہیں۔ تجریدی مصوری سے، علامتی افسانے سے اور اساتذہ کے کلام سے۔ وجہ یہ ہے کہ اِن تینوں کے مفہوم اخذ کرنا ناظر یا قاری کی ذمہ داری ہے نہ کہ مصور، افسانہ نگار اور شاعر کی۔ مصور الوان و خطوط سے، افسانہ نگار الفاظ سے اور اساتذۂ سخن ردیف و قوانی سے فن پارے کو اِس حد تک گراں بار کر دیتے ہیں کہ اُس میں مزید کوئی بار اُٹھانے کی گنجائش نہیں رہتی۔ لہٰذا مفہوم و معنی کا یہ بار ہم جیسے ناتوانوں کو اُٹھانا پڑتا ہے۔ میر تقی میر کو بھی اِس قسم کا تجربہ ہوا تھا جس کا ذکر اِس شعر میں ملتا ہے:
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اُس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا
ہم تجریدی مصوری کی نمائشوں میں کبھی نہیں جاتے، یہاں تک احتیاط برتتے ہیں کہ جب شہر میں اِس قسم کی کوئی نمائش ہوتی ہے، تو گھر سے باہر نہیں نکلتے کہ کہیں فضائی آلودگی ہم پر بھی اثر انداز نہ ہوجائے۔ علامتی افسانے لکھنے والوں کا سامنا کرتے ہوئے گھبراتے ہیں کہ انھوں نے گفتگو میں علامتوں سے کام لیا تو ہمارا حشر بھی وہی ہوگا جو افسانے کی صنف کا ہوا ہے۔ اساتذۂ سخن کا ہم بے حد ادب کرتے ہیں اور اِسی وجہ سے ہم نے کبھی ان سے بے تکلف ہونے کی جسارت نہیں کی۔ یعنی ان کے دواوین کے قریب جانا اور چھونا تو کیا، انھیں دور سے دیکھنا بھی ہمارے نزدیک سوئِ ادب ہے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے، تو بڑی جماعتوں کے طالب علموں کو اُن کی شرارتوں پر جو سخت سزا دی جاتی تھی وہ یہ تھی کہ اُن سے استاد ذوق کی کسی غزل کی شرح لکھوائی جاتی تھی۔ یہی سبب ہے کہ ہم نے بڑی جماعتوں میں پہنچنے سے پہلے ہی سلسلۂ تعلیم منقطع کر لیا۔ معلوم نہیں آج کل اسکولوں میں اِس قسم کی سزائیں دینے کا رواج ہے یا نہیں۔ اگر ہوگا تو یقینا استاد اختر انصاری اکبر آبادی کا کلام سزا دینے کے کام آتا ہوگا۔ یہ بات ہم نے بلاوجہ نہیں کہی۔ سلطان جمیل نسیم نے یہ واقعہ ہمیں سنایا ہے کہ حیدرآباد میں ایک مجرم کو پندرہ کوڑے کھانے یا استاد کی پندرہ غزلیں سننے کی سزا دی گئی۔ سزا کے انتخاب کا حق استعمال کرتے ہوئے مجرم نے کوڑے کھانے کا فیصلہ کیا کیونکہ یہ سزا نسبتاً نرم تھی۔ سلطان جمیل نسیم چونکہ افسانہ نگارہیں، اِس لیے ممکن ہے بعض لوگ اِس واقعے کو درست نہ سمجھیں، لیکن ہمارا خیال ہے کہ کسی افسانہ نگار کا سہواً کسی واقعے کو صحیح بیان کر دینا خارج از اِمکان نہیں۔
استاد اختر انصاری شاعر ہی نہیں، ایک رسالے کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ رسالہ تو کبھی کبھی چھپتا ہے لیکن دیوان ہر سال باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں استاد کا بیسواں دیوان شائع ہوا تھا، تو وہ اُسے اپنے عقیدت مندوں میں قیمتاً تقسیم کرنے کے لیے کراچی تشریف لائے تھے۔ اِس سلسلے میں وہ ہم سے بھی ملے تھے۔ ہم نے عرض کیا تھا: ’’استاد! ہم اِس شرط پر قیمت ادا کریں گے کہ دیوان آپ کسی اور کو دے دیں۔‘‘ اس گزارش سے وہ بے حد خوش ہوئے اور فرمایا: ’’اگر سب عقیدت مند آپ کی طرح کے ہوں، تو پھر دیوان چھپوائے بغیر ہی اُس کا پورا ایڈیشن فروخت ہوسکتا ہے۔‘‘
جس طرح پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، اُسی طرح تمام استاد بھی یکساں طور پر استادی کے درجے پر فائز نہیں ہوتے۔ حضرت تابش دہلوی کا شمار بھی اساتذۂ فن میں ہوتا ہے۔ لیکن اُن کی خوش گوئی اور خوش فکری میں کلام نہیں۔ بلاشبہ وہ ہمارے مقبول شاعروں میں سے ہیں۔ ہمارے دل میں ان کا بے حد احترام ہے۔ اسی لیے ہم نے ان کے مجموعہ ہائے کلام کو ادباً دور ہی سے دیکھا ہے۔ ان کے نئے مجموعے کو قریب سے دیکھنے کی اتفاقی صورت یوں پیدا ہوگئی ہے کہ پچھلے دنوں ہم حیدر آباد سندھ جا رہے تھے، بس میں ہمارے ساتھ جو صاحب بیٹھے تھے، اُن کے ہاتھ میں ایک کتا ب تھی جسے وہ بڑے انہماک سے پڑھ رہے تھے۔ ہمیں اُن صاحب کی بد ذوقی پر حیرت ہوئی کہ بس کے تمام مسافر تو ڈرائیور کے ذاتی ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہونے والے نازیہ اور زوہیب کے نئے گانوں سے محظوظ ہو رہے ہیں اور یہ صاحب کتاب پڑھ رہے ہیں۔ اسی دوران میں بلا ارادہ ہماری نظر اُس صفحے پر پڑی جو موصوف کے سامنے کھلا تھا۔ اس پر جلی حرفوں میں یہ عنوان درج تھا: ’’شان الحق حقی کی شادی پر غالب سے معذرت کے ساتھ۔‘‘ ہم شان صاحب کے پرانے نیاز مند ہیں۔ اس لیے اس عنوان پر ہمیں بے حد تعجب ہوا۔ شان صاحب کی شادی پر غالب سے معذرت کی ضرورت ہماری سمجھ میں نہ آئی۔ شان صاحب غالب کے دیوان کی شرح لکھتے یا تضمین کرتے تو معذرت کی گنجائش تھی، مگر شادی تو بالکل ایک مختلف کام ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہم نے اپنے ہم سفر سے کتاب دیکھنے کی اجازت چاہی تو اُنھوں نے فوراً اُسے ہمارے حوالے کر دیا، جیسے وہ اسی انتظار میں ہوں کہ کوئی ان سے کتاب لے لے۔ اس کے بعد وہ تو گانے سننے میں اور ہم کتاب کی ورق گردانی میں مصروف ہوگئے اور یوں ہم نے جناب شان الحق حقی سے نیاز مندی کا رشتہ رکھنے کی پاداش میں حضرتِ تابش دہلوی کے چوتھے مجموعۂ کلام ’’غبارِ انجم‘‘ سے استفادہ کیا۔ اسے ہم اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں۔
Boost Post