خاندانی منصوبہ بندی کی مخالفت کیوں؟

qaral

محفلین
میں نہ تو کوئی مفکر ہوں اور نہ کوئی مولانا پو ایک سیدھی سی بات لازمی جانتا ہوں اگر ایک غریب ماں باپ جن کے پاس اپنے پہلے بچوں کو کھلانے کیلئے روٹی پہنانے کیلئے کپڑا یا علاج کیلئے دوائیاں فراہم کرنے کیلئے وسائل نہیں اور پھر ایک اور بچہ تو وہ بچہ کیسے پروان چڑھتا ہوگا اس کا بلکنا اس کے والد ین کی بی بسی اور آئے دن اس طرح کے والدین کی خود کشی یا خود سوزی اور پھر اولاد کی محبت میں غلط رستے پر چلنا خاور بلال صاحب کیلئے شائید یہ مزاق ہو کہ پاکستان ان ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہو چکا ہے جہاں ایک سے پانچ سال کے نومولود بچوں کے مرنےکی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے اسلام نے ہر چیز اپنے وسائل میں رہ کر کرنے کا حکم دیا ہے یہ نہیں کے آپ بچہ تو پیدا کر لیں مگر اسلام میں متعین اس کے حقوق بھی پورے نہ کر سکیں
 

محمد وارث

لائبریرین
qaral صاحب، صحیح فرما رہے ہیں‌ آپ۔ لیکن ہمارے مولوی تو کہتے ہیں‌ کہ بچے درجنوں کے حساب سے پیدا کرلو، رزق انکو اللہ دے گا۔ باقی حقوق جائیں‌ جہنم میں۔

اور وسائل کے حوالے سے حدیث میں‌ نے پہلے بیان کرنے کی کوشش کی تھی، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بچے تو دور کی بات ہے اگر کسی کے پاس شادی شدہ زندگی گزارنے کیلیے وسائل نہیں‌ ہیں‌ تو وہ روزے رکھے۔ لیکن منقولات کے سامنے معقولات کون دیکھتا ہے۔

حقیقت خرافات میں‌ کھو گئی ہے
یہ امت روایات میں‌ کھو گئی ہے

(شعر میں اگر کوئی کمی بیشی ہے تو معذرت)
 

باسم

محفلین
اگر زیادہ بچوں میں ایسے ہی مسائل ہیں تو سب سے مولویوں کے بچے روڈوں پر لاوارث نظر آنے چاہییں؟
 

محمد وارث

لائبریرین
ابوشامل نے کہا:
لیکن منقولات کے سامنے معقولات کون دیکھتا ہے۔

وارث بھائی (بصد احترام) مجھے ایک چیز کی وضاحت کر دیں کہ آپ کی نظر میں منقولات کیا ہیں اور معقولات کیا ہیں؟

بھائی صاحب، منقولات تو وہی ہیں‌ جو ذاکر صاحب نے پیش کی ہیں‌ بحوالہ فلاں‌ امام وغیرہم۔

اور معقولات وہ ہیں‌ کہ شادی جیسی بدیہہ بات کو حضورپاک (ص) نے استطاعت سے منسلک کردیا اور قرآنی سزا کو حضرت عمر (ر) نے معطل کردیا۔

آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوؓں، ایک مجلس میں‌ سر سید احمد اور شبلی نعمانی تشریف فرما تھے، بات ترقی کی ہو رہی تھی، شبلی نے کہا کہ دنیا کی ترقی یہ ہے کہ وہ آگے بڑھتے چلے جائیں، اور مسلمانوں‌ کی ترقی یہ ہے کہ وہ پیچھے ہٹتے چلے جائیں کہ قرونِ‌اولٰی سے متصل ہوجائیں۔ یہ سننا تھا کہ سر سید نے شبلی نعمانی کو روکا اور انکی بات کی تردید کی۔

جب تک یہ پیچھے جانے والی ذہنیت تبدیل نہیں‌ ہوگی تب تک معقولات ہماری زندگی میں‌ کیسے آئیں‌ گے۔
 

ابوشامل

محفلین
بھائی صاحب، منقولات تو وہی ہیں‌ جو ذاکر صاحب نے پیش کی ہیں‌ بحوالہ فلاں‌ امام وغیرہم۔

اور معقولات وہ ہیں‌ کہ شادی جیسی بدیہہ بات کو حضورپاک (ص) نے استطاعت سے منسلک کردیا اور قرآنی سزا کو حضرت عمر (ر) نے معطل کردیا۔

آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوؓں، ایک مجلس میں‌ سر سید احمد اور شبلی نعمانی تشریف فرما تھے، بات ترقی کی ہو رہی تھی، شبلی نے کہا کہ دنیا کی ترقی یہ ہے کہ وہ آگے بڑھتے چلے جائیں، اور مسلمانوں‌ کی ترقی یہ ہے کہ وہ پیچھے ہٹتے چلے جائیں کہ قرونِ‌اولٰی سے متصل ہوجائیں۔ یہ سننا تھا کہ سر سید نے شبلی نعمانی کو روکا اور انکی بات کی تردید کی۔

جب تک یہ پیچھے جانے والی ذہنیت تبدیل نہیں‌ ہوگی تب تک معقولات ہماری زندگی میں‌ کیسے آئیں‌ گے۔

(بصد احترام)
یہی میں‌ سننا چاہ رہا تھا کہ قرآن مجید کی دو واضح ترین آیات جن کے حوالے میں نے بھی دیے تھے منقولات میں‌ شمار اور انسان کے ذہن میں‌ جو چیز سمجھ میں‌ آئے وہ معقولات قرار ....... !!!

ویسے حدیث کو آپ کیا کہتے ہیں؟ منقولات یا ؟؟؟؟
 

محمد وارث

لائبریرین
اچھا بھائی صاحب آپ ہی بتا دیں‌ کہ قرآنِ‌ مجید کی آیاتِ محکمات میں‌ سے کبھی کوئی معطل ہوئی، کس نے کی اور کیوں‌ کی؟
 

مہوش علی

لائبریرین
Sunan Abu Dawud

Book 11, Number 2166:

Narrated AbuSa'id al-Khudri:

A man said: Apostle of Allah, I have a slave-girl and I withdraw the penis from her (while having intercourse), and I dislike that she becomes pregnant. I intend (by intercourse) what the men intend by it.

The Jews say that withdrawing the penis (azl) is burying the living girls on a small scale. He (the Prophet) said: The Jews told a lie. If Allah intends to create it, you cannot turn it away.
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/abudawud/011.sat.html#011.2166


Sahih Bukhari
Book 008, Number 3371:

Abu Sirma said to Abu Sa'id al Khadri (Allah he pleased with him): 0 Abu Sa'id, did you hear Allah's Messenger (may peace be upon him) mentioning al-'azl? He said: Yes, and added: We went out with Allah's Messenger (may peace be upon him) on the expedition to the Bi'l-Mustaliq and took captive some excellent Arab women; and we desired them, for we were suffering from the absence of our wives, (but at the same time) we also desired ransom for them. So we decided to have sexual intercourse with them but by observing 'azl (Withdrawing the male sexual organ before emission of semen to avoid-conception). But we said: We are doing an act whereas Allah's Messenger is amongst us; why not ask him? So we asked Allah's Mes- senger (may peace be upon him), and he said: It does not matter if you do not do it, for every soul that is to be born up to the Day of Resurrection will be born.
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/muslim/008.smt.html#008.3371


Sahih Bukhari,
Book 008, Number 3374:

Abu Sa'id al-Khudri (Allah be pleased with him) (was asked if he had heard it himself), to which he said: Yes. (I heard) Allah's Apostle (may peace be upon him) as saying: There is no harm if you do not practise it, for it (the birth of the child) is something ordained (by Allah).
 

پاکستانی

محفلین
خاندانی منصوبہ بندی پر عمل میں میرے خیال سے کوئی قباعت نہیں اور یہ جائز بھی ہے۔ کہا جاتا ہے یہ ایک قتل ہے ۔۔۔ مگر کیسے ۔۔ میری سمجھ میں یہ بات آج تک نہیں آ سکی۔۔ قتل تو وہ ہوتا ہے جس کا وجود ختم کیا جائے اور جس کا وجود ہی نہیں ہے اس پر کیا قاتل اور کیا مقتول!!!!!!!

ویسے میں خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں ۔۔۔ شادی شدہ ہوں نا :lol:
 
تفصیل سے رائے تب دوں گا جب ذرا ماحول ٹھنڈا ہو جائے گا اس وقت تو قرال بھائی نے دھڑا دھڑ حملے شروع کر رکھے ہیں اور میں کئی متحرک مبحثین کو میدان چھوڑتا دیکھ رہا ہوں جس پر مجھے سخت افسوس ہے کیونکہ اس طرح وہی ماحول پیدا ہو جائے گا جو محفل کے آغاز میں تھا۔ اس لیے میں ایک دفعہ پھر بہت مودبانہ گذارش کروں گا کہ اپنی رائے دیں ، حوالے دیں مگر نرمی اور تحمل کے ساتھ اور اگر ایک بات کسی دوسرے نے صحیح کر دی ہو تو اسے ماننے کا حوصلہ بھی پیدا کریں نہ کہ صرف اپنے موقف کی اصابت کو ہر زاویے سے سچ ثابت کرتے رہیں۔ کئی مواقع ایسے آئے ہیں جہاں مخالفین کی رائے بہت مضبوط تھی مگر بجائے کسی حد تک اقرار کرنے کے بات کو پلٹا دیا جاتا ہے یہ بحث میں ہار سے بچنے کا طریقہ تو ہو سکتا مگر سیکھنے اور علم حاصل کرنے کا نہیں۔

سب سے بڑھ کر اختلاف کے باوجود دوسروں کی رائے کا احترام کریں بہت ممکن ہے کل کو آپ کو اپنی رائے بدلنی پڑے اور وہی رائے اختیار کرنی پڑے جس کی آپ نے نہ صرف پرزور مخالفت کی تھی بلکہ انتہائی سخت زبان استعمال کرکے لوگوں کی دل شکنی بھی کی تھی۔

ایک سوال

کیا خاندانی منصوبہ بندی فرد کا ذاتی معاملہ ہے یا حکومت کو اسے طے کرنا چاہیے ؟
 

پاکستانی

محفلین
میرے خیال سے تو یہ ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔

مزید یہ کہ اسے قومی مصلحت کے تحت جاری بھی رکھا جا سکتا ہے اور ختم بھی کیا جا سکے سکتا ہے۔
 

پاکستانی

محفلین
اصل میں دیکھنا یہ ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کا مطلب ہے کیا؟

عام طور پر اس کا مطلب نسل انسانی کا خاتمہ سمجھا یا بتایا جاتا ہے۔ حالانکہ اس کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ ایک اولاد کے بعد دوسری اولاد ہونے تک کے درمیان میں ایسا وقفہ رکھا جائے کہ کثرت اولاد والدین کی پریشانی کا سبب نہ ہو، یعنی اولاد کی جسمانی، مادی پرورش، روحانی و اخلاقی تربیت میں انہیں معاشی و معاشرتی تنگی محسوس نہ ہو۔
گویا خاندانی منصوبہ بندی کا مقصد نسل کشی نہیں بلکہ نسل انسانی میں اعتدال قائم رکھنا ہے۔
فرض کیجیئے مشرف کے اس دور میں ایک میاں بیوی اور ایک بچے کے ساتھ 4600 کی ماہوار آمدنی میں مشکل سے گزارا کر رہے ہیں، اب اگر آمدنی زیادہ ہونے سے پہلے دو چار اور بچے آ جائیں تو آمدنی کی تنگی نہ صرف والدین کے لئے بلکہ خود اولادوں کے لئے بھی پریشانی کا باعث ہو گی۔
 

ابوشامل

محفلین
بھائی وارث! انتہائی احترام کے ساتھ آپ سے یہ عرض کرتا ہوں‌ کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ کے لیے چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا کالعدم قرار دے دی تھی؟ ہر گز نہیں! یعنی مخصوص حالات میں کوئی خاص فیصلہ کرنے کا اختیار حکمران یا قاضی کو ہے، اس کی ایک مثال یہ لے لیجیے کہ ایک شخص روٹی یا آٹا چوری کرتا ہے، قانون کی رو سے اس کا ہاتھ کٹنا چاہیے؟ لیکن قاضی تحقیقات کے ذریعے معلوم کرتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے گھر میں کئی روز سے فاقے تھے تو قاضی کو اس فیصلے کا اختیار حاصل ہے کہ وہ کوئی اور نرم سزا دے کر اسے چھوڑ دے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں‌ ہوتا کہ اس نے قطع ید کی سزا کو ختم کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے میں یہی روح کارفرما تھی اور اگلے سال سے قطع ید کی سزا دوبارہ شروع کی گئی۔

بالکل اس طرح چند لوگ یہ کہتے ہیں‌ کہ موجودہ دور میں بھی یہی صورتحال ہے کہ Population Bomb پھٹنے والا ہے اگر اسے نہ روکا گیا تو بڑی تباہی ہوگی۔

لیکن اس واقعے کا جو مطلب آپ نے (بصد احترام عرض کرتا ہوں ناراض مت ہوئیے گا) نکالا ہے اس سے تو اسلام کی کئی بنیادوں‌ پر چوٹ پڑتی ہے آپ یہ کہہ دیں کہ میں‌ تو تین وقت نماز پڑھوں گا کیونکہ حج کے موقع پر تین وقت پڑھتے ہیں، میں تو روزے نہیں رکھوں گا کیونکہ سفر میں‌ روزوں کی چھوٹ ہے اور یہ زندگی بذات خود سفر ہے، میں تو جہاد نہیں‌ کروں گا کیونکہ اسلام امن کا مذہب ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ وآلہ وسلم نے بھی تو ایک عورت کو جو زنا کی مرتکب تھی، چھوڑ دیا تھا اور کہا تھا کہ بچہ ہو جائے تو پھر آنا! پھر وہ دوبارہ آئی تو آپ صلعم نے کہا کہ دودھ پلا دو پھر آنا وہ دو سال بعد پھر آن پہنچی تب آپ نے گناہ کے ارتکاب کے تقریبا تین سال کے بعد اس کو سزا دی، اس واقعے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ زانی کو سزا نہ دی جائے بلکہ آپ صلعم نے صرف اور صرف اس لیے اس پر رحم کیا کیونکہ وہ خود گناہ کا اعتراف کر رہی تھی جس کا واضح مطلب تھا کہ وہ پشیمان ہے اور اپنے عمل پر خلوص دل سے توبہ کی طالب ہے آپ صلعم نے اسے دو مرتبہ مہلت بھی دی لیکن وہ اپنے گناہوں‌کی سزا دنیا میں‌پاکر اللہ کے ہاں جانا چاہتی تھی اس لیے جب اسے سزا دی گئی اور سنگسار کرنے کے دوران اس کے خون کے چھینٹے چند افراد پر گرے اور انہوں نے ناگواری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کتنی گندی عورت تھی ہمارے کپڑے بھی گندے کر گئی تو نبی کریم صلعم نے کہا کہ ایسا مت کہو! اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اسے مدینہ کے باسیوں میں‌بانٹ دیا جائے تو ہر شخص کی مغفرت ہوجائے۔ اب کیا اس واقعے کو بنیاد بنا کر زانی اور زانیہ کو ہمیشہ چھوڑ دیا جائے؟ ہر گز نہیں! بلکہ قانون اپنی جگہ مقدم ہوگا، تاہم حالات و صورتحال میں‌تبدیلی کی صورت میں عارضی یا انفرادی طور پر کوئی بہتر فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔

میرے بھائی! اصل خرابی کی جڑ یہ ہے کہ ہم اپنے ذاتی فعل اور اپنی ذاتی سوچ کے لیے اسلام کی تاویل پیش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ واضح طور پر کہہ دیں کہ میں جو یہ بات کہہ رہا ہوں میں‌ اس پر عمل کرتا ہوں‌ اور اس کو درست سمجھتا ہوں لیکن ساتھ میں‌یہ بات بھی واضح کر دیں کہ اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں، بس بات ختم ہو جائے گی لیکن اپنے ایک ذاتی فعل کے لیے اسلام کی توجیہہ پیش کرنے کا "غامدیانہ" عمل ہر گز اہل حق کا شیوہ نہیں۔

اب میں‌ آپ کو دوسرا پہلو دکھاتا ہوں‌ کہ اگر معالجین یہ کہتے ہیں کہ اگر خاتون حاملہ ہو گئی تو اس کی جان کو خطرہ ہے یا اس نے دوسرا بچہ جنا تو اس کی زندگی کا بھروسہ نہیں‌ تو اس صورت میں مقدم اُس عورت کی جان ہوگی۔ بالکل اسی طرح اگر حمل کے دوران عورت کی جان کو خطرہ لاحق ہو جائے تب بھی اسقاط جائز ہے اور اس کے حوالے سے مختلف علمائے دین کے فتاویٰ جات بھی موجود ہیں۔

مہوش بہن نے اوپر ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے جس میں‌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

If Allah intends to create it, you cannot turn it away

میں بھی اسی اصول کا قائل ہوں۔ ایک طرف اللہ ہے اور دوسری طرف ہم۔

اور اس حدیث کے بارے میں تمام حضرات کا کیا خیال ہے؟

The Prophet (pbuh) is reported to have said: “Marry the one who is loving and fertile, for I will be proud of your great numbers before the nations [i.e., on the Day of Resurrection].” (Abu Dawood Hadith no. 2050, Classed as saheeh by al-Albaani in Saheeh Abi Dawood, 1805)


آخری بات یہ کہ لگتا ہے یہاں‌ سارے ناتجربہ کار ہیں :wink: :wink: :wink: !!
اگر عورت ایک بچے کو جنتی ہے تو اسے دو سال تک اسے دودھ بھی پلانا ہوتا ہے، اور breast feeding کے نتیجے میں حمل کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں اس طرح اللہ کے بنائے ہوئے نظام کے تحت تو دو سال کا وقفہ از خود ہوجاتا ہے۔ اس بارے میں آپ لوگ کیا کہیں گے؟؟‌


میری اوپر کی تمام گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ : اسلام کے احکامات اپنی جگہ پر مقدم ہیں، اگر آپ کوئی ایسا فعل کرتے ہیں‌ جو اس کے خلاف ہے تو اسے قبول کرنا چاہیے کہ ہم اسلام کی روح کے خلاف کام کر رہے ہیں لیکن برائی تب پیدا ہوتی ہے جب ہم اپنے غلط کے لیے اسلام کی تاویل پیش کرتے ہیں اور اسے اسلام کے مطابق قرار دینے کی سعی لا حاصل کرتے ہیں یعنی
دِیں بھی گیا دنیا بھی گئی


والسلام
اللہ سب کو خوش رکھے اور ہدایت دے
 

زیک

مسافر
معلوم نہیں آپ کہاں سے اپنا لاجک لا رہے ہیں ابو شامل۔ تقریباً تمام علماء نے coitus interruptus کو جائز قرار دیا ہے۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ contraception اور birth control جائز ہے۔

بات رہی سقط حمل کی تو اس بارے میں بھی کافی علماء کا کہنا تھا کہ fetus میں روح 120 دنوں کے بعد پھونکی جاتی ہے۔ سو کئی علماء (مثلاً حنفی) اس سے پہلے سقطِ حمل کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ہاں سقطِ حمل کے بارے میں کافی اختلافات ہیں اور شرائط بھی۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
زکریا بھائی اپ تو وہی بات دہرا رہے ہیں کہ “نماز نہ پڑھو “ لیکن بعد میں کیا ہے اگر تم نشے کی حالت میں ہوں۔
اور مجھے تو سخت افسوس ہورہا ہے کہ یہاں پر چند ساتھی قرآن و حدیث کو سیکینڈری اور اپنے مغرب زدہ خیال کو ان پر ترجیح دے رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ابوشامل

محفلین
زکریا نے کہا:
معلوم نہیں آپ کہاں سے اپنا لاجک لا رہے ہیں ابو شامل۔ تقریباً تمام علماء نے coitus interruptus کو جائز قرار دیا ہے۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ contraception اور birth control جائز ہے۔

بات رہی سقط حمل کی تو اس بارے میں بھی کافی علماء کا کہنا تھا کہ fetus میں روح 120 دنوں کے بعد پھونکی جاتی ہے۔ سو کئی علماء (مثلاً حنفی) اس سے پہلے سقطِ حمل کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ہاں سقطِ حمل کے بارے میں کافی اختلافات ہیں اور شرائط بھی۔

بھائی ذرا واضح کریں گے کس "لاجک" کی بات کر رہے ہیں؟ اور اسقاط حمل کے حوالے سے میں‌ اپنی بات واضح کر چکا تھا ملاحظہ کرلیجیے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ ابو شامل صاحب۔

آپ نے واقعی لاجواب تجزیہ کیا ہے، اور جو مطالب اخذ کیے ہیں، مجھے ان سے کلی اتفاق ہے یعنی کہ

-ۡقرآن کریم کی آیاتِ ٘محکمات بھی “٘مخصوص“ حالات میں “مؑعطل“ ہو سکتی ہیں۔

-آپکے بقول سربراہِ مملکت تو کیا ایک قاضی بھی ایسا کر سکتا ہے۔

تو بھائی صاحب یہی تو میں‌ عرض‌ کرنے کی کوشش کر رہا تھا، ایک قاضی کی وہ کیا سوچ ہے جس سے اسنے قرآنی سزا بھی معطل کردی۔ کیا اسے اجتہاد نہیں‌ کہیں گے۔

برائے مہربانی بتائیے گا:

-کیا اب بھی ایسے واقعات ہو سکتے ہیں جو آپ نے اپنی امثال میں‌ پیش کیے ہیں۔

-اگر ہو سکتا ہے تو اسے کیا کہیں‌ گے، “اجتہاد“ یا کچھ اور۔

-اور اگر نہیں‌ ہو سکتا تو کیا اجتہاد صرف وہی تھا جو آئمہ کرام صدیوں‌پہلے کر گئے۔

امید ہے آپ میرے ناقص علم میں‌ اضافہ فرمائیں‌ گے۔

اور بھائی صاحب، اس میں‌ نے ناراض ہونے والی کون سے بات ہے، اچھے اور علمی مباحث تو بہت ضروری ہیں۔
 

زیک

مسافر
واجدحسین نے کہا:
اپ تو وہی بات دہرا رہے ہیں کہ “نماز نہ پڑھو “ لیکن بعد میں کیا ہے اگر تم نشے کی حالت میں ہوں۔

بات واضح کریں۔ سقطِ حمل کی بات چھوڑیں کہ وہ مسئلہ کافی مشکل ہے مگر contraception پر تو پرانے وقتوں کے بہت سے علماء راضی ہیں۔

اور مجھے تو سخت افسوس ہورہا ہے کہ یہاں پر چند ساتھی قرآن و حدیث کو سیکینڈری اور اپنے مغرب زدہ خیال کو ان پر ترجیح دے رہے ہیں

اور مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ کچھ لوگ بڑے بڑے جید علماء (امام غزالی، امام ابو حنیفہ، وغیرہ) کو چھوڑ کر سعودیہ کو ترجیح دے رہے ہیں۔ :p
 
Top