رحمت فیروزی
محفلین
ایک با ر امیر خسروؒ بسنت کے دن اپنے شیخ نظام الدین اولیاء ؒ کی خانقاہ کی طرف جارہے تھے کہ راستے میں آپ نے دیکھا کہ ہندو مردوں اور عورتوں نے بسنتی لباس پہن رکھے ہیں اور بسنت کے گیت گا رہے ہیں ، آپ ؒ انہیں دیکھ کر بڑے محظوظ ہوئے ، آپ نے بھی سرسوں کے کچھ پھول توڑ کر، اپنی پگڑی میں لگا لیے، جب نظام الدین اولیاء ؒ کے پاس پہنچے تو وہ آپ کو اس حالت میں دیکھ کربڑے خوش ہوئے اور مریدین کو ہدایت دی کہ بسنت کا اہتمام کیا جائے، بڑے زورو شور سے نہ صرف اس وقت بسنت منائی گئی بلکہ ہر سال بسنت کا میلہ لگنے لگا، سلطان غیاث الدین تغلق جو بنگالہ کی مہم پر گئے ہوئے تھے نظاالدین اولیاء ؒ کو یہ پیغام بھیجا کہ میرے دلی پہنچنے سے پہلے ہی دلی سے چلے جائیں ، آپ ؒ نے وہ تاریخی جملہ فرمایا جو اب ضرب المثل بن چکا ہے ، ہنوز دلی دور است، غیاث الدین تغلق دلی پہنچے سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوگئے، وہ کیا وقت تھا جب اتنی عظیم شخصیات موجود ہوا کرتی تھیں، جن سے روحانیت و علم کے سرچشمے پھوٹتے تھے، گیت اور قوالی کی صورت میں انسانیت، روحانیت اور دین کا درس دیا جاتا تھا، امیرخسروؒ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اردو کی بنیاد رکھی اور برصغیر میں مروِج اکثر راگ آپ کے ہی ایجاد کردہ ہیں ، خانقاہی نظام بھی کیا شاندار نظام تھا ، جہاں علم و ادب ، انسانیت اور روحانیت کی تعلیم دی جاتی تھی ، برصغیر میں ہزاروں خانقاہیں تھیں، اردو ادب کی ترقی میں خانقاہوں نے بڑا اہم قردار ادا کیا ہے، اکثر صوفیائے کرام شاعر اور ادیب تھے، یہی وجہ ہے کہ اس وقت ایسی نفسانفسی اور مادیت پرستی نہیں تھی جو آج ہے ، آج کا نوجوان طبقہ ذہنی سکون کی تلاش میں بھٹک رہا ہے، یہ انتشار ہمارے ان تعلیمی اداروں کا پیدا کردہ ہے جو روحانیت جیسے اہم شعبے سے بلکل خالی ہیں، جہاں صرف لوگوں کا خون چوسنے کی تعلیم دی جاتی ہے، فرقہ واریت ، مولویت اور دربار کلچر نے خانقاہی نظام کو تباہ کردیا ہے، اکثر خانقاہیں ان امراض کی نظر ہو گئی ہیں، دوسرا اینٹی خانقاہی لٹریچر نے نوجوان طبقے کو اس کے خلاف کر دیا ہے، جدید طبقہ خانقاہوں سے وابسطہ ہونے کے بجائے ان سے دور بھاگتاہے، جو گدی نشین موجود ہیں ، ان کا شاہانہ انداز اور حکمیہ رویہ لوگوں کو قریب لانے کی بجائے دور کر رہا ہے، گدی نشینی کے لیے چناؤ زیادہ تر بیٹے کا ہی کیا جاتا ہے،بڑا بیٹاگدی نشین بنتا ہے، اس کی اہلیت اور نا اہلیت کو نہیں دیکھا جاتا، نہ ہی ظاہر ی و باطنی علوم میں مہارت کو مدنظر رکھا جاتا ہے ، خانقاہی نظام کی تباہی کے اثرات ہمارے معاشرے پر بھی پڑے ہیں، آج پورا معاشرہ اخلاقی اور روحانی طور پر اپا ہج نظر آتا ہے ، کیونکہ سکون درویشی اور روحانیت میں ہے ، مولویت اور مادیت پرستی ایسے کیڑے ہیں جو معاشرتی جسم کو بدبودار کرکے چھوڑتے ہیں ، انسانیت اور اخلاقیات ، روحانیات کے بغیر نابینا ہیں۔
پروفیسر احتشام صاحب فرماتے ہیں" اردو کو بادشاہوں اور امیروں نے منہ نہ لگایا اور نہ ہی اسے تہذیبی زبان کا درجہ دیا، لیکن وہ جن ناگزیر تقاضوں کے تحت پیدا ہوئی تھی ان ہی نے اس کو علاقائی حدبندیوں کو توڑ کر آگے نکل جانے کا مشورہ دیا، صوفیا اور فقیروں نے اپنا روحانی پیغام پہنچانے کے لیے اس کو منتخب کیا چنانچہ اردو کی ابتدائی شکل صوفیا اور فقیروں کی تصانیف اور ملفوظات میں ہی ملتی ہے۔"
پروفیسر احتشام صاحب فرماتے ہیں" اردو کو بادشاہوں اور امیروں نے منہ نہ لگایا اور نہ ہی اسے تہذیبی زبان کا درجہ دیا، لیکن وہ جن ناگزیر تقاضوں کے تحت پیدا ہوئی تھی ان ہی نے اس کو علاقائی حدبندیوں کو توڑ کر آگے نکل جانے کا مشورہ دیا، صوفیا اور فقیروں نے اپنا روحانی پیغام پہنچانے کے لیے اس کو منتخب کیا چنانچہ اردو کی ابتدائی شکل صوفیا اور فقیروں کی تصانیف اور ملفوظات میں ہی ملتی ہے۔"