محمد فائق
محفلین
خانہء خواب میں تعبیر کا امکان رکھا
ہجر کو سجدہ کیا وصل پہ ایمان رکھا
عشق خود سے بھی چھپایا کہ سرہانے اپنے
تیری تصویر نہیں، میرؔ کا دیوان رکھا
روح پر حاوی نہ ہونے دی بدن کی خواہش
عکس بے جلوہ رکھا، آئینہ حیران رکھا
اپنا اجڑا ہوا دل دیکھ کے شرمندہ ہوں
کس خرابے میں تری یاد کو مہمان رکھا
میں نے رکّھی نہ کسی فیض کی نسبت اس سے
عشق اک بت سے کیا، خود کو مسلمان رکھا
وہ امانت ہے مرے حقِ تصرف سے الگ
اس لیے ملتے ہوئے بیچ میں قرآن رکھا
اور کیا اس کے سوا عشق میں سر پھوڑتا میں
خود کو بے چین کیا، اس کو پریشان رکھا
ہاتھ وحشت میں بڑھا تھا مرا ساغر کی طرف
دستِ ہاتف نے وہیں لاکے قلمدان رکھا
ع۔ا
عارف امام صاحب
ہجر کو سجدہ کیا وصل پہ ایمان رکھا
عشق خود سے بھی چھپایا کہ سرہانے اپنے
تیری تصویر نہیں، میرؔ کا دیوان رکھا
روح پر حاوی نہ ہونے دی بدن کی خواہش
عکس بے جلوہ رکھا، آئینہ حیران رکھا
اپنا اجڑا ہوا دل دیکھ کے شرمندہ ہوں
کس خرابے میں تری یاد کو مہمان رکھا
میں نے رکّھی نہ کسی فیض کی نسبت اس سے
عشق اک بت سے کیا، خود کو مسلمان رکھا
وہ امانت ہے مرے حقِ تصرف سے الگ
اس لیے ملتے ہوئے بیچ میں قرآن رکھا
اور کیا اس کے سوا عشق میں سر پھوڑتا میں
خود کو بے چین کیا، اس کو پریشان رکھا
ہاتھ وحشت میں بڑھا تھا مرا ساغر کی طرف
دستِ ہاتف نے وہیں لاکے قلمدان رکھا
ع۔ا
عارف امام صاحب