صرف علی
محفلین
خانہِ خرابی بڑھتے بڑھتے اب گھر کی دھلیز پار کرتی، کیا بچے، کیا بوڑھے، کیا مرد، کیا عورت گھر کےسارے بے ہتھیار مکینوں تک آ پہنچی ہے.
موت برحق مگر اب سارے شہر پہ پوشیدہ قاتل کا گمان ہونے لگا ہے. اچانک ھی اچانک سب کچھ عجیب ھونے لگا ہے. خبریں بھی تو کچھ اس طرح کی آنے لگی ہیں کہ زندہ آدمی کو توھینِ رسالت کے نام پہ جلا دیا گیا اور آپ کچھہ بھی کہنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں اگلہ نشانہ کہیں آپ ھی کا سر نہ ھو۔
ایمان کی حالت یہ بنی ھے کہ کہیں کسی نے اپنے کانوں سے سنا نہ سنا وہ بھی ثوابِ دارین میں حصہ لینے بھاگتا دوڑتا دیکھتے ھی دیکھتے اس ھجوم کا حصہ بن جاتا، رسول کی حرمت آخر کیوں کر عزیز نہ ھوتی کہ آخرت نہیں اس طرح کے گستاخِ رسول اور قتلِ کافر سے تو دنیا بھی سنور جاتی ھے۔
کون پھر پوچھتا ھے ان عاشقانِ رسول سے، ثواب کمانے کا اس سےسستا طریقہ اور بھلا کیا ھوتا ھوگا کہ ھاتھ خون میں رنگ لیئے جائیں اور قاتل بھی نہ کہلائیں۔ اور کیا پوچھتے ھو گھات لگائے اس مجاھدِ اسلام کا، جس پہ کوئٹہ کےھزارہ برادری سے لیکر عباس ٹاؤں کے معصوم بچوں تک کا خون حلال ھوا۔
جہاں دشمن کو للکار کر لڑائی لڑی جاتی ھے اس میدان جنگ کے بھی کچھ اصول ھوتے ھونگے مگر یہ کیا کہ اس مجاھدِ اسلام کی یہ جنگ اب ایمان کے لبادے میں مسجدوں، اسکولوں اور مزارون کو نشانہ بناتی اب گھروں میں آن گھسی ہے۔
کمر تھامے بوڑھی آنکھوں سے پوتوں، پوتیوں کو کھیلتا دیکھہ کر کلیجہ ٹھنڈا کرنے والے سے لے کر پالنے میں سوتے دودھ پیتے بچے تک اس مجاھد کے اسلام کے لئے اسقدر خطرہ بن چکے ہیں کہ اسلام کو بچانے کے لیئے ان کا نشانہ باندھنا، اور بھر بربریت کے ساتھ ان کا قتل اس کے لیئے جزوِ ایمان ٹھرا۔
کیسے مان لیا جائے کہ سر پہ بارود و کفن باندھ کر گھروں کو نشانہ بنانے والا وہ مجاھدِ اسلام اس وقت جنت الفردوس میں ستر حوروں سے دادِ عیش وصول کرتا ھوگا جب کوئی ماں اپنے پہلوٹے پہ بین کرتی ھو تو کوئی چند ماہ کی بیوہ اپنی قسمت کوستی ھو، اور کوئی بوڑھا باپ چلّا چلّا کر پکارتا ھو کہ گھر تو گیا، میرے آنکھون کا نور بھی گیا۔
آخر کیسے مان لیا جائے کہ اس نوخیز مجاھدِ اسلام پہ اس وقت خدائے اسلام کی طرف سے نور کی بارش ھوتی ھوگی جب اسکے ایمان کی شکارخلق سڑک پہ ننگے آسمان تلے اسی خدا سے الجھنے کے بجائے اس ھی سے رحم کی طلبگار ھو تی ھے۔
دیکھتے جاؤ کہ کس طرح ھر دوسرہ بندہ بڑی ڈھٹائی سے پھر پالتو میڈیا پہ یہ عالمانہ رائے دینے لگتا ھے کہ دراصل اس قسم کے پاکستان کی سب سے بڑی وجہ لبرل سیاست کی ناکامی کی ھے جب کہ حقیقت اس کے الٹ ھے کہ یہ دراصل ریاست اور سیاست میں دین کی پیوندکاری کا پھل ھے۔ یہ اسلام کے ٹھکیداروں کی ناکامی ھے کہ اسلام کے نام پہ قتل عام کیا ھے۔
مان بھی لیں کہ دین کا معاملہ قرارداد مقاصد کے ساتھ ریاست کا اسلامی ھونا اور اس کے شہری کی حیثیت سے مذھبی شناخت کے ساتھ بالکل جڑا ھوا نہیں ھے۔
مگر اس سے انکار کس طرح ممکن ھوگا کے اقلیتیوں کو دوسرے بلکہ تیسرے درجے کے شہری بنانے کے باوجود ریاست یہ طئے کرنے میں ناکام ھی رھے گی کہ کون کون سے فرقے مسلمان ھیں اور کن کن پر کافر کا ٹیگ لگا کر ان کا قتل اسلامی ریاست کی روح سے عین ثواب بنایا جائے۔
ریاست نے ہی مہر کافر کی ابتدا احمدیوں سے کی اور یہ ھر شھری پہ فرض ٹھرا کہ وہ شناختی کارڈ کے پروانے و پاسپورٹ کے اجرا سے لیکر میٹرک کے امتحانی فارم تک جو بھی ریاستی فارم بھرے اس میں اس حلف نامے کی تصدیق کرتا چلے کہ وہ احمدیوں کے اس کفر کا شریک نہیں ھے۔
کیا سنی، کیا شیعہ، کیا لبرل، کیا سیکولر آنکھ بند کرکے سب کلمہ گو بغیر پڑھے، بغیر دیکھے اس حلف نامے پہ دستخط کرتے چلے گئے۔ پہلے عبادت گاھیں، پھر محلے حتی کہ قبرستاں تک الگ ھوئے۔ پاکستانی شھریت رکھتی یہ آبادیِ اقلیت قرار دیتے ھی اس ریاست میں جس سماجی تنھائی کے دوزخ سے گزر رھی ھے شاید نازیوں کے عتاب تلے رھنے والی یھودی آبادی کو اس کا کچھ احساس ھو۔
پاکستانی قوم، چھوٹی سی اس اقلیت کو تسخیر کرنے کے فخر سے باز نہ آئی۔ اس ریاستِ اسلامی میں صرف آوازِ بلند ھونے کی سزا نہیں ھوتی ھے یہاں تو خاموشی کی بھی ایک قیمت ھے سو مان لو قیمت چکانے کی باری اب کے شیعہ آبادی کے سر آئی ھے اور اس خوشفہمی کی عیاشی کو بھی زیادہ دیر کیا افورڈ کرنا کہ اب شیعون کو کافر قرار دے دیں تو کچھ سکونِ قلب میسر ھو کہ اب روح کو تکیف ھونے لگتی ھے جب بچوں ماؤں کی گود میں دم توڑتے ھوں یا پھر بوڑھے باپ کو جوان بیٹے کی میت کو کندھا دینا پڑے۔
ان کی عبادت گاہیں الگ ھوئیں، قبرستان الگ ھوئے، اب محلے بھی الگ ھونے لگے ھیں۔ اسطرح نشانے باز مجاھِد اسلام کا کام اور آسان ھوا ھے کہ اب نشانہ باندھنے سی پہلے داڑھی کی سائز نہیں دیکھنا پڑے گی اور اگر بس سے اتار کر گولی خرچ کرنا ھوئی تو شناختی کارڈ دیکھنے کی زحمت نہیں کرنی پڑے گی۔
مگر سکونِ قلب اگر اسی سے میسر ھو تو شاید وہ بھی کر گزریں، مگر بات یہاں ختم نہیں ھونی خون کا چسکہ گر ایک بار لگ جائے تو عادت آسانی سے نہیں جاتی اس لئے بات تو آگے تک جانی ھے کہ مزار پہ جانا بھی تو کفر قرار پایا ھے۔ کسی اور کلمہ گو کی ڈاڑھی دو انچ کم پڑ جائے تب بھی تو اسلام کو خطرہ لاحق ھو جاتاھے۔
گوجرہ اور جوزف کالونی کی تو بات ھی چھوڑیئے، وہ تو ان کرستانون کی بستیان تھیں جن کا دشمن قرار ھونے کی گواھی تو مقدس صحیفوں میں سے بھی کہیں نکال ھی لیں گے مگر توھینِ رسالت کو جس طرح آلہِ انتقام بنایا گیا ھے وہ اگر ایمان کی حرارت کے بجائےعقل کی روشنی میں دیکھا جائے تو یقیناً توھینِ اسلام کے زمرے میں آئے.
مگر یہاں پہ بات اس لئے نہیں ھو سکتی کہ منبر کے باریش امام کے جبے میں چھپی طاقت کی اصل مرکزیت کا راز نہ کھل جائے۔ پچاس کی دھائی میں پنجاب میں احمدی ایشو میں جسٹس کیانی کی رپورٹ میں جبے کے پیچھے چھپی اس وردی کا چہرہ صاف نظر آتا ھے جس نے جنرل ایوب کی خواھشِ اقتدار کے لئے احمدیوں کے قتل کو حلال کیا تھا ۔
اسکے بعد کیا ہوا ہم سب نے دیکھا کہ اقتدار کی ھوس میں مبتلا اس ٹولے نے کیا کیا دھشت گرد نہیں پالے جنھوں نے سرحد پار جہاد میں لال قلعے سے لیکر چیچنیا تک میں جاکر اپنی دھشت کے جھنڈے گاڑے۔
جھاد؛ اسلامی مملکت کا صرف نظریاتی ھی نہیں اکنامی کا حصہ بھی بنایا گیا، اس اکنامی نے اس ٹولے کو خوب امیر کیا، جہاد کے مال نے اس میں جو حرص و ھوس پیدا کی اس کی تسکین و تکمیل کے لئے یہ ایمان برائے فروخت کی فصل ضروری ٹھری۔
منہ کو خون و مال کا چسکہ لگتے ھی یہ ملّا ریاستی پروٹوکول میں جتنا بدمست و طاقتور بنا، اسکا دین اسلام اتنا ھی غیر محفوظ ھوا۔ پہلے احمدیوں اقلیتوں سے خوف کھاتا اسلام اب پالنے میں پڑے دودھ پیتے بچوں تک سے گھبرایا ھوا ھے کہ ان کا قتل بھی اسلام کی سر بلندی کے عیوض ستر حوروں تک پہنچا دے گا۔
اھل جبہ کی جان جس طوطے میں ھے اسکی پہچان ضروری ورنہ کیا اس ساری دھشت گردی کو دین کے غلاف میں اوڑھنا فقط اس باریش امام کی بس کی بات ھوتی جو جھادِ افغان سے پہلے اپنا مدرسہ و مسجد گاؤں کے چندے سے چلاتا تھا۔
احمدیوں پہ حملے ایوب کی وردی کی آمد کی سرخ قالین کی رادھداری ثابت ھوئے، پھر ضیا کی وردی سے خون کے داغ دھونے کا کام اسی اسلام کی لانڈری میں انجام پایا۔
اب جب منبر کی لڑائی گھر کی دھیز کا تقدس بھی بھلا بیٹھی ھے تو اس ریاستِ اسلامی میں صرف با آوازِ بلند ھونے کی سزا نہیں ھوتی ھے یہاں تو خاموشی کی بھی ایک قیمت ھے. پھر سے یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ اس ریاستِ اسلامی میں صرف آوازِ بلند کرنے ہی کی سزا نہیں ھوتی، یہاں تو خاموشی کی بھی ایک قیمت ھے، اور یہ خاموشی ھی کی قیمت ھے کہ پروین رحمان کے جنازے سے واپس آنکھون میں نمی لیئے سب کے قدم بھاری تھے اگلا نشانہ کون ھوگا۔
اس ریاست میں خاموشی کی سزا یہ کہ ایک جنازہ اٹھاتے دوسرے کی تیاری رکھو اور اگلا نشانہ بننے کے خوف میں جیتے رھو اور اگر باآوازِ بلند ھونے کی سوچو تو یاد رکھو کہ یہ للکار اجتماعی خوف کے خلاف تمھاری پہلی جیت ھوگی۔