عبدالقیوم چوہدری
محفلین
آج فجر کی آخری نماز حرم پاک میں ادا کر کے کعبہ سے رخصت چاہی ہے....جیسے ہمارے بابا جی کبھی پیر صاحب سے راہداری مانگا کرتے تھے..
چھ دن اور چھ راتیں مکہ میں گزریں- حرم شریف میں نمازوں کی توفیق بھی حاصل ہوئی....طواف کعبہ کا شرف بھی حاصل کیا...حطیم میں دو نوافل بھی نصیب ہوئے..... شدید ترین رش میں در کعبہ کو چھو کر دلی مرادیں بھی مانگیں.....اعتکاف بھی کیا...آب زم زم کے دو کین بھی خریدے.....
اس سب کوشش و بسیار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ گو آتش حب الہی اس مقام پر آ کر خوب بھڑکتی ہے لیکن یہ آگ اسی قدر ہی جلتی ہے جس قدر ایمان کا ایندھن آپ ساتھ لے کر آتے ہیں....
کعبہ اینٹ اور پتھر سے بنی ایک عمارت ہے جو یقیناً خدا نہیں ہے....اور نہ ہی خدا اس کے اندر تخت لگا کر بیٹھا ہے....کعبہ ایک مسجد ہے.....کرہء ارض پر خدائے واحد کی عبادت کےلیے تعمیر ہونے والی سب سے پہلی مسجد.... جسے حضرت آدم نے تعمیر کیا اور ابراہیم خلیل اللہ نے دوبارہ اٹھایا.......یہی اس کا اعجاز اور فضیلت ہے...اور اسی وجہ سے اس کے دیدار....طواف...اور اس پر لگے جنتی پتھر کو بوسہ دینے کا حکم ہے......یہ سب مناسک کر کے ہم اپنے رب سے نہ صرف گزشتہ بد اعمالیوں کی کی معافی مانگتے ہیں بلکہ یہ یقین دلانے کی سعی بھی کرتے ہیں کہ ہم اس کے نبی ﷺ کے لائے ہوئے دین کے ساتھ مخلص ہیں......چاہے کافروں کو کتنا ہی برا کیوں نہ لگے-
میں نے یقینا کعبہ سے خوبصورت چیز آج تک نہیں دیکھی...اور طواف سے دلفریب منظر کبھی نہ دیکھ پاؤں گا - 24 گھنٹے ایک سا رش....ملک ملک کے لوگ.... رنگین پیرہن والے نیپالی......اور سفید لباس پر رنگین رومال پہنے انڈونیشیائی.....عورتیں مرد .....جب گروپ کی صورت طواف کرتے ہیں تو گویا فضا میں تیرتے رنگین پرندے....ایک دوسری کو بچوں کی طرع تھامے بڈھے لاچار.....اور ماؤں کی گود میں دبکے شیر خوار.....وہیل چیئر پر بوڑھی ماں کو طواف کراتا سعادت مند بیٹا....اور وہیل چیئر پر ڈس ایبل بیٹے کو طواف کراتی بے بس ماں....سن صغیر کو کندھوں پر اٹھائے باپ اور پیرانہ سال باپ کو شدید رش میں در کعبہ ٹچ کرانے والا بیٹا......احرام پہنے مطاف میں بھاگتا نوجوان اور اس احرام کا کونا پکڑے پیچھے پیچھے بھاگتی اس کی جورو....حجر اسود پر پٹھانوں اور سوڈانیوں کا قبضہ....اور اس آپا دھاپی سے بے نیاز کھڑا کعبہ کا شرطہ.....حطیم میں نوافل پڑھتے مردو زن اور ان کے سروں کو پھلانگتے مردوزن.....آب زم زم کی سبیلوں پر لگی قطار.......اور انہی سبیلوں سے چوری کین بھر کر 15 ریال میں بیچنے والے ساہوکار........معتمرین کو قہوہ پلاتے کھجوریں کھلاتے نیک دل....اور ان کے جوتے چرا کر سڑک پر بیچتے سنگدل.......گمشدہ گری پڑی اشیاء کے دفتر میں مالک کا انتظار کرتے موبائل اور پرس....اور حرم کے سامنے جیبیں کاٹتے بے ترس !!!! میں نے کعبہ کی دیوار سے لپٹ کر روتا سفید لمبی داڑھی والا بڈھا بھی دیکھا...اور اسی کعبہ کی صفائی پر معمور مخولیاں کرتا....کلین شیو نوجوان بھی !!!....کیا بتاؤں .....کیا کیا نہ دیکھا.....
نیک نیک ہوتا ہے چاہے شاہی قلعہ کے عقبی بازار میں کھڑا ہو....اور بد بد ہوتا ہے چاہے کعبہ کے دروازے سے لٹکا ہو....یہاں سے محبت الہی کی چنگاری تب ہی ملے گی...جب آپ کے پاس ایمان کا ایندھن موجود ہو......ورنہ نتیجہ زیرو بٹا صفر........
اب سمجھ میں آیا کہ ہمارے حکمران کعبہ کی عمارت کے اندر جا کر بھی زیرو بٹا صفر کیوں رہتے ہیں....اور سلطان باہو جیسے کعبہ سے سینکڑوں میل دور رہ کر بھی سلطان العارفین کیسے بن جاتے ہیں....
مرشد دادیدار وے باہو مینوں لکھ کروڑاں حجاں ہُو
اتنا ڈٹھیا مینوں صبر نہ آوے تے میں ہور کتھے ول بھجاں ہُو
لو لو دے منڈھ لکھ لکھ چشماں ہک کھولاںہک کجاں ہُو
۔۔۔
از ظفر اعوان
چھ دن اور چھ راتیں مکہ میں گزریں- حرم شریف میں نمازوں کی توفیق بھی حاصل ہوئی....طواف کعبہ کا شرف بھی حاصل کیا...حطیم میں دو نوافل بھی نصیب ہوئے..... شدید ترین رش میں در کعبہ کو چھو کر دلی مرادیں بھی مانگیں.....اعتکاف بھی کیا...آب زم زم کے دو کین بھی خریدے.....
اس سب کوشش و بسیار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ گو آتش حب الہی اس مقام پر آ کر خوب بھڑکتی ہے لیکن یہ آگ اسی قدر ہی جلتی ہے جس قدر ایمان کا ایندھن آپ ساتھ لے کر آتے ہیں....
کعبہ اینٹ اور پتھر سے بنی ایک عمارت ہے جو یقیناً خدا نہیں ہے....اور نہ ہی خدا اس کے اندر تخت لگا کر بیٹھا ہے....کعبہ ایک مسجد ہے.....کرہء ارض پر خدائے واحد کی عبادت کےلیے تعمیر ہونے والی سب سے پہلی مسجد.... جسے حضرت آدم نے تعمیر کیا اور ابراہیم خلیل اللہ نے دوبارہ اٹھایا.......یہی اس کا اعجاز اور فضیلت ہے...اور اسی وجہ سے اس کے دیدار....طواف...اور اس پر لگے جنتی پتھر کو بوسہ دینے کا حکم ہے......یہ سب مناسک کر کے ہم اپنے رب سے نہ صرف گزشتہ بد اعمالیوں کی کی معافی مانگتے ہیں بلکہ یہ یقین دلانے کی سعی بھی کرتے ہیں کہ ہم اس کے نبی ﷺ کے لائے ہوئے دین کے ساتھ مخلص ہیں......چاہے کافروں کو کتنا ہی برا کیوں نہ لگے-
میں نے یقینا کعبہ سے خوبصورت چیز آج تک نہیں دیکھی...اور طواف سے دلفریب منظر کبھی نہ دیکھ پاؤں گا - 24 گھنٹے ایک سا رش....ملک ملک کے لوگ.... رنگین پیرہن والے نیپالی......اور سفید لباس پر رنگین رومال پہنے انڈونیشیائی.....عورتیں مرد .....جب گروپ کی صورت طواف کرتے ہیں تو گویا فضا میں تیرتے رنگین پرندے....ایک دوسری کو بچوں کی طرع تھامے بڈھے لاچار.....اور ماؤں کی گود میں دبکے شیر خوار.....وہیل چیئر پر بوڑھی ماں کو طواف کراتا سعادت مند بیٹا....اور وہیل چیئر پر ڈس ایبل بیٹے کو طواف کراتی بے بس ماں....سن صغیر کو کندھوں پر اٹھائے باپ اور پیرانہ سال باپ کو شدید رش میں در کعبہ ٹچ کرانے والا بیٹا......احرام پہنے مطاف میں بھاگتا نوجوان اور اس احرام کا کونا پکڑے پیچھے پیچھے بھاگتی اس کی جورو....حجر اسود پر پٹھانوں اور سوڈانیوں کا قبضہ....اور اس آپا دھاپی سے بے نیاز کھڑا کعبہ کا شرطہ.....حطیم میں نوافل پڑھتے مردو زن اور ان کے سروں کو پھلانگتے مردوزن.....آب زم زم کی سبیلوں پر لگی قطار.......اور انہی سبیلوں سے چوری کین بھر کر 15 ریال میں بیچنے والے ساہوکار........معتمرین کو قہوہ پلاتے کھجوریں کھلاتے نیک دل....اور ان کے جوتے چرا کر سڑک پر بیچتے سنگدل.......گمشدہ گری پڑی اشیاء کے دفتر میں مالک کا انتظار کرتے موبائل اور پرس....اور حرم کے سامنے جیبیں کاٹتے بے ترس !!!! میں نے کعبہ کی دیوار سے لپٹ کر روتا سفید لمبی داڑھی والا بڈھا بھی دیکھا...اور اسی کعبہ کی صفائی پر معمور مخولیاں کرتا....کلین شیو نوجوان بھی !!!....کیا بتاؤں .....کیا کیا نہ دیکھا.....
نیک نیک ہوتا ہے چاہے شاہی قلعہ کے عقبی بازار میں کھڑا ہو....اور بد بد ہوتا ہے چاہے کعبہ کے دروازے سے لٹکا ہو....یہاں سے محبت الہی کی چنگاری تب ہی ملے گی...جب آپ کے پاس ایمان کا ایندھن موجود ہو......ورنہ نتیجہ زیرو بٹا صفر........
اب سمجھ میں آیا کہ ہمارے حکمران کعبہ کی عمارت کے اندر جا کر بھی زیرو بٹا صفر کیوں رہتے ہیں....اور سلطان باہو جیسے کعبہ سے سینکڑوں میل دور رہ کر بھی سلطان العارفین کیسے بن جاتے ہیں....
مرشد دادیدار وے باہو مینوں لکھ کروڑاں حجاں ہُو
اتنا ڈٹھیا مینوں صبر نہ آوے تے میں ہور کتھے ول بھجاں ہُو
لو لو دے منڈھ لکھ لکھ چشماں ہک کھولاںہک کجاں ہُو
۔۔۔
از ظفر اعوان