خاورچودھری کے افسانے

خاورچودھری

محفلین
[بے انت

توت کی مخروطی اُنگلیوں پرجگہ جگہ ااُبھارظاہرہورہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہیں کہیں یہ انگلیاں زمرد سار ہونے لگی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بارش کے ننھے منھے قطرے ان اُبھرتے اورظاہرہوجانے والے حصوں پرسے یوں پھسل رہے تھے جیسے توت کوبارکے لطف سے آشناکرکے رُخصت ہورہے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیشہ کے لیے، کبھی نہ پلٹنے کے لیے۔صحن کی کچی مٹی بارش کے پانی سے گارے میں بدل چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تب اچانک اس کے دھیان میں چاک آگیااورایک کمہارکمال ہنرمندی سے اپنے سامنے پھیلے ہوئے چاک کے اُوپر اس گارے کوچڑھانے لگاجواس کے صحن کی مٹی سے بارش نے خودبہ خودبنادیاتھا۔ہنرمندہاتھ اپنی فنکارانہ اداوٴں اورسبک مزاجی سے چاک پرچڑھی مٹی کے گردطواف کررہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوریہ مٹی بہ یک وقت کئی صورتوں میں ڈھل گئی،کئی شکلیں تخلیق ہوئیں۔پھران ہاتھوں نے ایک انسانی چہرہ تخلیق کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ چہرہ جوایک زمانے سے اس کے دل ودماغ میں اپنی جگہ بناچکاتھا۔خوب صورت،معصوم اور کھلکھلاتا چہرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دفعتاًاُسے اپنی گودمیں گرمی محسوس ہوئی۔اس کے پہلوگرمی کی شدت ،نٹ کھٹ اورشریربچے کے لمس سے چٹخنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یوں جیسے اس کی جھولی میں کسی نے سُرخ انگارے انڈیل دیے ہوں۔وہ بے تابی سے اپنی جگہ سے اُٹھی اوراپنادامن جھاڑکرکچی مٹی سے بنے ہوئے باورچی خانے میں جا بیٹھی ۔ مٹی کی ہانڈی ٹھنڈی ہوگئی تھی۔اس نے جلدی سے خاشاک کے تنکے بجھے ہوئے چولھے میں رکھے اور پھر دائیں گھٹنے پرہاتھ رکھ کرقدرے جھکی اورپھربجھتی ہوئی راکھ میں چنگاریاں تلاش کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی چند لمحے پہلے جس قدر اُس کی جھولی سلگ رہی تھی اس سے کہیں زیادہ یہ چولھاسردہوچکا تھا۔ پھونکیں مارمارکراُس نے خودکونڈھال کرلیامگرکوئی چنگاری سُلگ کرہی نہ دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے پھیلے ہوئے پینڈے کواُس نے سمیٹااور دونوں ہاتھ گھٹنوں پررکھ کراپنی کمرسیدھی کی۔باورچی خانے کی پست چھت کے ٹیڑھے شہتیرمیں ٹکی ہوئی دیاسلائی کی ڈبیااس نے کھینچی اورکچے فرش پر گرا دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اورپھرسے اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں پررکھ کرزمین پرڈھیرہوگئی۔اُس کے سسرکامعمول ہے کہ وہ ظہرکی نمازپڑھنے سے دوگھنٹے پہلے دوپہرکاکھاناکھاچکتاہے اوراگرذراسی بھی دیرہوجائے تووہ ساری متانت، پرہیز گاری اور اخلاص ایک طرف رکھ کراس کے خاندان کے بخیے اُدھیڑدیتاہے۔اپنے پرکھوں کی قبریں کُھدنے کے خوف سے وہ اپنی ساری قوتیں جمع کرکے چولھے میں آ گ سلگانے کی کوشش کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دھریک کی خشک ٹہنی سے اُپلوں کے ڈھیرمیں سے کچھ اُپلے اپنی طرف لڑھکاتی ہے اورپھراپنے کھردرے ہاتھوں میں ایک اُپلاپکڑکراسے دوٹکڑوں میں بانٹ دیتی ہے۔ چولھے میں ایک ٹکڑادائیں اورایک بائیں رکھ کرخاشاک کے تنکوں کوان سے اُوپراٹھاتی اورپھراپنی قمیص کے پلوسے ہوادینے لگتی ہے۔ آگ سے پہلے دھواں اٹھتاہے اورکچھ ہیولے سے بن جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس کے تصورمیں وہی موہنی صورت پھرجاگ اٹھتی ہے۔وہ دیکھتی ہے کہ من موہ لینے والایہ خوش شکل چہرہ اس کی چھاتیوں سے ٹکراتا ہے اوروہ اُس کا مانوس لمس جب اپنے سینے پرمحسوس کرتی ہے توایک دم سے پھربدک کرچولھے میں آگ ٹھیک کرنے لگتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اس کامعمول ہے جب بھی کبھی وہ کام سے فارغ ہوتی ہے یاپھرزیادہ اُلجھ جاتی ہے تویہ چہرہ اوراس کالمس اسے ستانے لگتے ہیں۔
بارش تھم چکی ہے مگرتوت کے پھیلے ہوئے ہاتھ کی اُنگلیاں ابھی تک اس کے اثر میں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان انگلیوں سے قطرہ قطرہ پانی صحن میں ٹپکتاہے۔بیٹھک سے اس کے سسرکے کھانسنے کی آوازآتی ہے تو یہ سلورکی تھالی میں سالن ڈال کرچنگیرمیں روٹیاں رکھتی ہے اورپھراس کے منوں بھاری قدم بیٹھک کی طرف اُٹھنے لگتے ہیں۔چارپائی پربیٹھے بوڑھے سسر کے سامنے کھانارکھ کرپانی لینے کے لیے واپس پلٹنے لگتی ہے توگرج دارآوازتحکمانہ اندازمیں گونجتی ہے:
”کبھی سلیقے سے بھی پکالیاکرو،غلہ ضائع کرتی رہتی ہو۔“
وہ خاموشی سے نکل کرٹپائی پرپڑے ہوئے کائی زدہ گھڑے سے مٹی کے بٹھل میں پانی ڈالتی ہے اور اسی خاموشی کے ساتھ جاکرسسرکے سامنے رکھ دیتی ہے۔بیٹھک کے کچے فرش پراپنے ٹوٹتے وجود کو احتیاط کے ساتھ رکھتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مباداکہیں کوئی جوڑالگ ہوکرزمین پرآن ہی پڑے!
”طفیل کافون آیاتھا؟“وہی گرج دارآوازدوبارہ گونجتی ہے۔
”نہیں بابا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “
”یہ موبیل بھی شیطانی کاآلہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہروقت عزت لٹنے کادھڑکالگارہتاہے۔طفیل کاخیال نہ ہوتواسے پتھر کے اُوپررکھ کرپیس دوں۔“بوڑھایہ کہہ کرہاتھوں کے اشارے سے کھانے کے برتن اُٹھانے کاحکم دیتا ہے۔
ایک گرم انگارہ اس کے کانوں کوچیرتاہوادماغ تک پہنچ جاتاہے مگروہ اپنے چہرے سے کوئی تاثر ظاہر نہیں کرتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس احتیاط سے بیٹھی تھی اسی احتیاط سے اُٹھ کربرتن سمیٹتی اورباورچی خانہ میں گھس جاتی ہے۔اسی تھالی میں اپنے لیے سالن ڈالتی ہے اوروہیں ننگی زمین پرکھانے کے لیے بیٹھ جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جوں ہی پہلالقمہ اس کے حلق سے اُترتااورہاتھ دوسرے نوالے کی طرف بڑھتاہے ،وہی خوش شکل اور معصوم چہرہ اس کی آنکھوں میں اُترآتاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بے دھیانی میں گم ہوجاتی ہے اورنوالہ اپنے منہ میں ڈالنے کی بجائے ہاتھ سامنے کی طرف بڑھادیتی ہے۔پھرکتنے ہی نوالے اُس نے من موہنی صورت والے معصوم کے منہ میں ڈالے اوراپنی بھوک بھول گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”چاچی!مرغیوں کوسالن کے ساتھ کھاناکھلاناکب سے شروع کیاہے؟“اس کے دیورکے منجھلے بیٹے نے چہکتے ہوئے پوچھا
”ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں تو“وہ کچھ سٹپٹاسی گئی۔جب اپنے سامنے بکھرے ہوئے نوالوں پرمرغیوں کوٹوٹ پڑتے دیکھاتوحیرت سے اس کامنہ کھلے کاکھلارہ گیا۔اُس کے میل چڑھتے رُخساروں پردوگرم آنسوبہہ نکلے تھے۔اپنی قمیص کی میلی اوردھوئیں میں رچی ہوئی آستین سے اپنے چہرے اورآنکھوں کوصاف کرتی ہے اورپھرسے لقمے اپنے منہ میں ڈالنے لگتی ہے۔
000
صحن کے کچے فرش پرآٹے اورچوکھرکی خالی بوریاں بچھی ہوئی ہیں اوران پرمحلے کے بچے قبلہ رُخ بیٹھے قرآن شریف پڑھناسیکھ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جب سے یہاں بیاہ کر آئی ہے،اسی معمول سے بچے آرہے ہیں۔بارہ سال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !بارہ سال بہت ہوتے ہیں۔کئی بچوں نے قرآن پاک ختم کرلیاہے اور کئی لڑکیاں توشادی کرکے اپنے گھروں کی بھی ہوگئی ہیں، بل کہ ان میں سے اکثرکے ہاں دودوایک ایک بچہ بھی پیداہوچکاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوراب اس کے سامنے بیٹھی عاصمہ بھی قرآن مجیدختم کرنے والی ہے ، ٹھیک دوماہ بعداس کی بھی شادی ہوجانی ہے اور پھراس کے ہاں بھی خوب صورت چہرے اُتریں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ احسن التقویم کہے گئے ننھے منھے انسان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی انھی بوریوں پربیٹھ کراس سے اپناپہلاسبق لیں گے۔
محلے کی بوڑھی پھپھاکٹنی زہرہ ماسی کوآتے دیکھ کروہ اورزیادہ محویت سے بچوں کوپڑھانے لگتی ہے تاکہ زہرہ ماسی اسے مصروف جان کراُس کی دیورانی کے کمرے میں چلی جائے۔ وہ محلے کی ایسی بوڑھیوں سے ہمیشہ چڑکھاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بوڑھیاں جب بھی آتی ہیں اس کے غم میں اضافہ کرجاتی ہیں اور پھرخوش شکل چہرہ اوراس کالمس اسے ستانے لگتے ہیں۔ زہرہ ماسی اپنے چہرے پرمصنوعی مسکراہٹ پھیلائے اسی کے پاس آبیٹھتی ہے اورآتے ہی پہلاتیراس کے سینے میں پیوست کردیتی ہے۔
”اری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں ان پرجان گالتی ہے؟یہ کم بخت مارے کون ساتیرے بطن جنے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ اپنی فکر کر ۔ کب تک دوسروں کے بچوں کے لیے مشقت اٹھائے گی۔میں توکہتی ہوں اس بار طفیل چھٹی آئے تو اس کے ساتھ کسی سیانے ڈاکٹرکے پاس چلی جا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھرلے جھولی اپنی۔“
زہرہ ماسی کاسبق طول پکڑنے لگاتواس نے بات کاٹتے ہوئے کہا
”ماسی یہ سب بچے میرے ہی توہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بھی جَن لوں گی ،کون سابوڑھی ہوگئی ہوں۔توجااند ر شیداں بیٹھی ہے،اس سے گل کتھ کرمیں ذراسبق پڑھالوں۔“
ماسی توتیرپھینک کرچلی گئی مگرآنے والی ساری گھڑیاں اسے بے تاب کررہی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھوں کابندنہ توڑ سکنے والے خون کے قطرے اس کے حلق کے راستے سے دل میں اُترگئے۔
”لوگوں کودوسروں کی فکرکیوں ہوتی ہے؟کیوں یہ لوگ مجھے آرام سے جینے نہیں دیتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں یہ مجھے بانجھ ہونے کااحساس دلاتے رہتے ہیں؟“وہ سوچتی ہے اورپھر مسلسل کرب کی آندھیوں کی لپیٹ میںآ جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تب اچانک اس کی دیورانی شیداں اس کے سامنے آلتی پالتی مارکربیٹھ جاتی ہے۔شیداں پھرامیدسے ہے اوراس کے ہاں یہ ساتواں بچہ ہوگا۔نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی نظریں شیداں کی چھاتیوں اورپیٹ کاطواف کرنے لگتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سینے کے اُبھاربھرے ہوئے ہیں اورا ن کے سرے بھیگ چکے ہیں۔دوایک روز میں شیداں پھرماں بن جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سوچتی ہے وہ کیوں نہیں بن سکتی ماں؟اس کی چھاتیاں کیوں دودھ سے نہیں بھرتیں،اس کی چوٹی کوئی بچہ کیوں نہیں کھینچتا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ یوں محسوس کرتی ہے جیسے غم سے اس کاسینہ پھٹ جائے گااوروہ وجودجوایک عرصہ سے اس نے سنبھال کررکھاہے لیرلیرہوجائے گا۔اس کا جسم چھیتڑوں میں بدل جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شیداں کی آوازکسی اندھے کنویں سے آرہی تھی:
”ماسی ٹھیک کہتی ہے؛طفیل آجائے تواپناچیک اَپ کراہی لے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صادق بھائی کے ہاں بھی تو اولاد نہیں ہو رہی تھی،انھوں نے علاج کرایاتواب ماشاء اللہ ان کی پیاری سی بیٹی ہے“
”شیداں!بس کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “
یہ کہہ کروہ اپنی جگہ سے اُٹھتی ہے اوراپنے خستہ اورکچے کمرے میں پڑی بان کی چارپائی پرآکرڈھیرہوجاتی ہے۔اس کے دماغ پرمختلف تصویریں رقص کررہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے سسرکی کڑوی کسیلی تو وہ برداشت کرہی رہی تھی اب پورے گاوٴں کے منہ پرہاتھ کون رکھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہرکوئی اس کے خالی آنگن میں جھانکتااوراسے مشورے دیتاہے۔اب توطفیل کے لیے دوسری لڑکی تلاش کی جا رہی ہے تاکہ اس کے لوٹتے ہی دوبول پڑھالیے جائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باباکہتاہے :
”بانجھ شجرسے امیدلگاناکم عقلی اورنادانی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طفیل ماشاء اللہ وجیہ ہے،گبرواورجوان ہے۔کب تک اس شنڈعورت کاانتظارکرے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانی سرسے گزرجائے گاتوہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔“
اسے یوں محسوس ہورہاہے جیسے اس کے دماغ کی رگیں چٹخ رہی ہوں،آنکھوں سے آنسووٴں کی جگہ خون جاری ہواوردل کی جگہ پارہ پڑاہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچانک سیلولرفون کی گھنٹی بجتی ہے اور وہ اپنے اوسان بہ حال کر کے کارنس سے فون اٹھاکررندھی ہوئی آوازمیں”ہیلو“کہتی ہے۔دوسری طرف طفیل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا مجازی خدا؛جولوگوں کی نظرمیں روزی کمانے کے لیے عرب ممالک کی خاک چھان رہا ہے۔وہ اپنی بیوی کو تنہا چھوڑکرنہیں جاناچاہتاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے گاوٴں کے لڑکوں اوربوڑھیوں نے اس کاجینادوبھر کر رکھا تھا۔ ہرکوئی اس کی مردانگی پرشک کرتا تھا یا پھراسے دوسری شادی کے لیے اُکساتاتھا۔وہ لفظوں کی تلواروں سے بچنے کے لیے اپنی پیاری محبوبہ بیوی کے ہجرکی سزاکاٹ رہاتھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دس دن بعدوہ اپنے گھرلوٹ آئے گا۔
وہ اپنے سن ہوتے وجودمیں زندگی کی حرارت محسوس کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غم اورخوشی نے مل کرایک ایسی گھڑی تشکیل دی ہے جواس سے پہلے اس پرنہیں اُتری تھی۔طفیل کے آنے کی خوشی ہے تو اس کے چھن جانے کاخوف بھی موجودہے۔اگرطفیل نے دوسری شادی کرلی تواس کی زندگی بالکل ہی بے رنگ ہو جائے گی،بے لطف وغارت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے اپنے منہ پرہاتھ پھیراتویوں محسوس ہواجیسے کسی کھردری اورسخت لکڑی سے ہاتھ چھواہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ احساس اسے پہلے توکبھی نہیں ہواتھایاپھرشایداُس نے کبھی اپنے رخسارچھوئے ہی نہیں تھے اورچھوتی بھی کس لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب سراہنے والاہی موجودنہیں تھا۔اب جووہ آرہاہے تواسے اپنے سراپے کی فکر ہوئی۔
اُسے اپنے کالج کے دن یادآنے لگے جب وہ بن سنورکراپنی سکھیوں کے ہم راہ اپنے قصبے کے کالج جایاکرتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کالج کے راستوں پرلڑکے تاکنے کے لیے بیٹھے ہوتے اور یہ اپنی ہمجولیوں کی بھیڑمیں سب سے نمایاں ہوتی۔طفیل سے اس کی مڈبھیڑاسی زمانہ میں ہوئی تھی۔مارچ کااخیرتھااوریہ کسی عزیزکے ہاں شادی پرموجودتھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تب طفیل سے اس کی آنکھیں چارہوئیں اوردونوں ایک دوسرے کو دل دے بیٹھے۔بہت منت سماجت کے بعداس کے گھروالوں نے رشتہ دینے پررضامندی ظاہرکی تھی۔اگرچہ دونوں خان دانوں میں پہلے سے رشتہ داریاں موجودتھیں لیکن اُس کاخان دان طفیل کے خان دان کی نسبت نہ صرف خوش حال تھابل کہ زیادہ ترلوگ پڑھے لکھے تھے۔شادی کادن مقرر ہوا اور یہ طفیل کے خستہ اورکچے مکان میں اُترآئی جواس کے لیے جنت سے کم نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب ہم سفرچاہنے والا اور جان چھڑکنے والاہوتوپھرسفرکی صعوبتیں کہاں نظرآتی ہیں؟وہ ایک دوسرے کی رفاقت میں چلتے رہے چلتے رہے ،چلتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک سال،دوسال،تین ،چار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھ اورپھرآٹھ سال گزرگئے۔بہ ظاہر دونوں میں کوئی نقص نہیں تھامگرپھربھی اس کی گودخالی تھی۔پہلے توطفیل اسے تسلیاں دیتا ، اس کا دل بہلاتا پھروہ خودبھی مایوس ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگرکبھی وہ کسی ڈاکٹرکے پاس جانے کی بات کرتی تووہ ٹال جاتا۔ یوں اس کی خواہش اس کے اندرہی ٹوٹتی بنتی رہتی۔اب توطفیل بھی چار سال ہوئے اُس سے دُوررہنے لگا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سارے غم،طعنے اورجھڑکیں اس اکیلی جان کے لیے رہ گئے تھے مگروہ ثابت قدم رہی ۔اس لیے کہ اس کاخاوندآج بھی اس سے بے پناہ محبت کرتاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لا محدوداورناقابل یقین حدتک۔یادوں کے جھروکوں میں جھانکنے سے اسے نظرآیاکہ طفیل جب پچھلی بارچھٹی آیاتھاتواس نے اپنے باباکے سامنے دوسری شادی سے صاف انکارکرتے ہوئے کہاتھا:
”لائبہ سے شادی میں نے اولادکی خاطرنہیں کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیاہوااگراولادنہیں ہوئی تو،میں دوسری شادی نہیں کروں گا۔“
طفیل کے اس کورے جواب سے وہ کس قدرسرشارونہال ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے دل کی دھڑکن سانس کی لے پرمسلسل رقص کرتی رہی اوروہ اپنے آپ میں سمٹتی اورپھیلتی رہی۔اسے یقین تھا کہ اس کے گھرمیں نقب کوئی نہیں لگاسکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اب ایک بارپھرگھرمیں طفیل کی دوسری شادی کی باتیں پھیلی ہوئی ہیں۔
ooo
بہت خوشامدکرکے وہ طفیل کوڈاکٹرکے پاس جانے کے لیے رضامندکرچکی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دونوں ڈاکٹر کے پاس جائیں گے اوراپناعلاج شروع کروائیں گے۔ان کے ہاں بھی بچہ پیداہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مٹی کے کچے صحن میں جب وہ چوکڑیاں بھرے گاتویہ خوشی سے نہال ہوجائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اماں باواکی صدائیں جب باباسنیں گے تووہ بھی لائبہ کوجھڑکناچھوڑدیں گے اوریہ کچاا ور خستہ مکان ایک بارپھرگھربن جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹرنے دوائیں لکھ دی ہیں اورطفیل رپورٹس بھی لے آیاہے۔خوشی خوشی دوائیں کھائی جارہی ہیں اور دونوں ایک دوسرے پرجان چھڑک رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن طفیل نے توواپس جاناہے۔
لائبہ ایک بارپھرتنہاہے اورکمرے کاسناٹااسے کاٹ کھانے کودوڑتاہے،طبیعت میں اضطراب اوربے کلی بھی سواہوگئی ہے۔جوخوشی اورراحت تھی وہ توجانے والے کے ساتھ چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب وہی دن رات ہیں کہ جوتھے ۔گھرمیں بھی چہ میگوئیاں جاری ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنے والے مہمان کی باتیں ہورہی ہیں۔باباکارویہ پہلے سے بہترہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیورانی کے لہجے میں بھی تلخی نہیں ہے اورزہرہ ماسی اپنے مشورے کے بارآورہونے پرچھاتی پھیلائے پھرتی اورکہتی ہے:
”میں نہ کہتی تھی،علاج کراوٴعلاج!جھولی بھرجائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھناکہیں اس خوشی کے موقع پرمجھے بھول نہ جانا۔“
دن گزرتے جاتے ہیں اورگھروالوں میں انتظارکی طاقت بھی کم پڑتی جارہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باباچاہتاہے طفیل کو جلدخوش خبری سنائی جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگروقت ہے کہ بھاری سل تلے آیاہواہے۔
ooo
لائبہ اپنے میکے میں موجودہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی بہن عارفہ جوپہلے ہی دوبچوں کی ماں ہے ایک اور بچے کوجنم دینے جارہی ہے۔اتفاق ہی نہیں بہت بڑااتفاق ہے کہ ایک ہی شب کو دونوں بہنوں کے ہاں بچے پیداہوئے اوردونوں مرد۔بابایہ خبرسن کربہت خوش ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب لائبہ اپنے طفیل کے سامنے سرخ روہوجائے گی۔اب مکان گھرمیں بدل جائے گا، خوشیاں لوٹ آئیں گی۔نیامہمان صحن میں دوڑتاپھرے گاتوکچی مٹی کی سوندھی خوش بوسانسوں کومعطرکرجایاکرے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شادی کا تیرہواں سال گزرگیاتواس کی گودگرم ہوئی ۔ گاوٴں بھر میں قدرت کی اس مہربانی کاتذکرہ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مٹھائیاں بٹ رہی ہیں،مبارک باددیں جاری ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لائبہ کے لیے پریشانی یہ ہے کہ ننھامہمان اس کا دودھ نہیں پیتااس لیے مجبوراً اسے کچا دودھ پلاناپڑرہاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیرکیاہوا؟بہت سی مائیں اپنے شیرخوار بچوں کوگایوں اوربھینسوں کادودھ پلاتی ہیں۔یہ کوئی اَن ہونی نہیں۔
اب وہ خستہ اورکچے گھرمیں اپنے بیٹے سہیل کوگودمیں لیے ہوئے ہے۔بابانے اپنے پوتے کا نام سہیل رکھتے ہوئے فخرسے کہاتھا:
”اب میں دوبارہ جوان ہواہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سہیل ہوبہ ہوطفیل کی مانندہے۔“
سیلولر فون کی گھنٹی بجتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لائبہ خوش ہے کہ وہ طفیل کو مردثابت کرچکی ہے۔اب کوئی اسے شنڈاوراس کے خاوندکوبانجھ نہیں کہہ سکتااورنہ ہی کوئی طفیل کودوسری شادی کامشورہ دے سکتا ہے۔سہیل جب دنیا میں آیااُسی وقت طفیل کوبتادیاگیاتھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگرلائبہ کے ماں بننے کے بعداس کی پہلی گفتگوہونے والی تھی۔ مٹی کی کارنس سے فون اُٹھاکرلائبہ نے اپنے کان سے لگایا۔ آج اس کے لہجے میں سارے جہان کی شیرنیاں اُترآئی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ چاہتی تھی کہ ساری مٹھاس طفیل کے کانوں میں گھول دے۔اُس نے ایسا ہی کیا،بہت اہتمام سے نپے تلے انداز میں جملے اداکیے مگرطفیل کالہجہ آگ برسارہاتھا۔یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی گرم سیسہ لائبہ کے کانوں میں انڈیل رہاہے اوروہ گرم سیسہ اس کے دماغ کوبے کارکرکے چھوڑے گا:
”میں نے کہاتھانالائبہ!تمھیں اولادجننے کی مشین سمجھ کرمیں نہیں لایاتھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے تم سے محبت کی تھی ، تمھیں پوجاتھا۔کیاہوتااگرتمھارے ہاں اولادنہ ہوتی۔میں سہیل کواپنابیٹاکیسے مان لوں جب کہ ڈاکٹرز نے مجھے بتایاتھاکہ میں ساری عمرباپ نہیں بن سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھرتم مجھے کیوں کردھوکادے سکتی ہو؟اپنی حرام اولاد میرے سرمت تھوپو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اورمیری زندگی سے نکل جاوٴ۔ میں تمھیں طلاق دیتاہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طلاق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طلاق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “
”طفیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طفیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیاکیاتم نے،مجھے جیتے جی ماردیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری بات توسنتے۔“
بندسیلولرپروہ چیخی اورپھراُسے زمین پرپٹخ دیا۔
”طفیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے مجھ سے چھپایاکہ تم باپ نہیں بن سکتے لیکن میں نے رپورٹ پڑھ لی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے گلہ کیانہ ہی رنجیدہ ہوئی کیوں کہ میں نے بھی تمھاری پوجاکی ہے،تمھیں اپنی ذات سے زیادہ چاہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں جانتی تھی کہ تم کبھی باپ نہیں بن سکوگے لیکن میں تمھارے ہجرکی سولی پرچڑھی رہی، تمھیں سوچتی اوریادکرتی رہی۔لیکن تم نے مجھے حرام کارکہہ کرمیری توہین کی ہے،مجھے زمانے میں رسوا کر دیاہے۔تم کیاجانومحبت کیاشے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اورپوجاکسے کہتے ہیں۔“
توت کے پھیلے ہوئے ہاتھ کی مخروطی انگلیاں بانجھ ہوچکی ہیں اوراُن پراٹھنے والے ابھار ظاہر ہونابھول گئے ہیں۔دھوئیں میں سے خوش شکل معصوم کاچہرہ معدوم ہو گیا ہے۔ سہیل کی موجودگی میں بھی لائبہ کی گودبرف سے ٹھنڈی ہے اوراس کالمس ہراحساس سے عاری ۔جس کے لیے اس نے یہ سب کچھ کیاوہ اسے طلاق دے چکاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب وہ میکے میں ہے اور بان کی کھری چارپائی پرسرکھولے رو رہی ہے۔اس کی بہن عارفہ چارپائی کی پائنتی پر بیٹھی اُسے دلاسے دے رہی ہے اورعارفہ کی جھولی میں سہیل مضطرب پڑاہے۔اُس کااپناسہیل جو اس نے لائبہ کی زندگی میں خوشیاں بکھیرنے کے لیے اُس کی گودمیں ڈالاتھا۔
ooo
 

خاورچودھری

محفلین
روشنی ( افسانہ)

روشنی
(افسانہ)
خاورچودھری

کوٹھی کے دالان میں زمردیں گھاس پر شبنمی قطرے ہلکی ہلکی ہوا سے رقص کناں تھے۔وجہی حسبِ معمول ننگے پاوٴں ٹھنڈی گھاس کا لمس اپنے وجود میں اُتاررہاتھا۔ابھی سورج پوری طرح بلند نہیں ہوا تھا۔مشرق کی طرف سے اُٹھنے والی لالی کوٹھی کے چھت پر پھیلے ہوئے سفید جنگلے کواپنے رنگ میں رنگ رہی تھی۔آم کے بے ثمرپیڑپرسے کووٴں اورچڑیوں کی آوازیں اُٹھ رہی تھیں۔چیکوکے درخت کی جھکی ہوئی ٹہنیوں کے کناروں سے اوس قطرہ قطرہ سبزگھاس پر ٹپک رہی تھی۔ہواسے گرجانے والے پیلے پتے بھی اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے تھے ۔نومبرکی اس صبح کو خنکی نے پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھامگرموسم گئے برس کی طرح سرد نہیں ہوا تھا۔پچھلے سال توا ن دنوں میں غضب کی سردی پڑی تھی۔وجہی بانسی ساختہ دائروی کرسی کوگھسیٹتے ہوئے باہر لے آیاتھا۔اُس کے ایک ہاتھ میں باجرے کی تھیلی تھی اور دوسرے میں پیتل کی تھالی۔دایاں ہاتھ تھیلی میں ڈال کر اُس نے ایک خاص ادا سے باجرا نکال کر تھالی میں ڈالا،دوسری اور تیسری بار یہی عمل دہرا چکا توتھیلی کو وہیں گھاس پرایک طرف رکھ کراُٹھ کھڑا ہوا۔تھالی ہاتھ میں لیے وہ چیکوکے درخت کی جانب بڑھا۔چیکو کی ٹہنی سے بندھی ہوئی طشتری میں اُس نے باجرہ ڈالااورواپس آکراپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔بیرونی دروازے کے اُوپرسے ہاکر اخبارپھینک کراگلی منزل کی جانب بڑھ چکا تھا۔وجہی کے وجود میں ایک بارپھرحرکت پیدا ہوئی ۔اخباردونوں ہاتھوں میں پھیلاکرتیزی سے کچھ ڈھونڈنے لگا۔اُسے اپنی تصویرنظرآگئی۔گزشتہ روز اُس نے ایک این جی او کے تعاون سے چلنے والے اسکول کو بلیک بورڈز اور ڈیسک فراہم کیے تھے اوردو بہترین طالب علموں کے ایک سال کے اخراجات اوروظیفے کا ذمہ لیاتھا۔دوسرے صفحے پرایک اور رپورٹ کی سُرخی میں اس کا نام موجود تھا۔ اخبار نے چوکٹھے میں اس کے بیان کو چھاپاتھا۔یہ گزشتہ سہ پہرکوٹیکنیکل کالج میں ہونے والی تقریب میں اس کے خطاب کی رپورٹ تھی۔
وجہی نے اخبارایک طرف زمین پرڈالتے ہوئے اپنے دونوں بازووٴں کوایسے پھیلایا جیسے آسمانوں کی وسعت کوسمیٹ رہا ہو۔پھرانتہائی پھرتی سے اپنی نشست سے اُٹھ کر ورزش کے سے انداز میں اپنے بازووٴں کو زور زور سے گھمانے لگے۔چندمنٹ کی اس مشق کے بعدوہ کوٹھی کے اندرچلاگیا۔غیرملکی برتنوں سے آراستہ باورچی خانے میں داخل ہوا۔گیس کے چولھے کودیاسلائی دکھائی اورنل سے کیتلی میں پانی بھرنے کے بعداُسے چولھے پرچڑھادیا۔اعلیٰ قسم کی کافی تیارکرنے کے بعدبڑے پیندے کے پیالے میں ڈالی اورپھرباہردالان میں چلا آیا۔
یہ وجہی کے روز کا معمول تھا۔ٹھیک نو بجے تک وہ تیار ہوکر اپنے دفترچلاجاتا ۔اُس نے یہ کوٹھی شہر کے ایک کونے میں بڑی چاہ سے بنائی تھی مگراسے گھر بننا کبھی نصیب نہ ہوا۔پندرہ سال پہلے اُس کی شادی اُس کی چچازاد کے ساتھ دُھوم دھام سے ہوئی تھی۔والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کے ناطے سے ہر رسم نبھائی گئی۔دُورنزدیک کے سبھی رشتہ دار اورکاروباری دوست شادی میں شریک ہوئے تھے۔ شادی کو ایک برس بیتا،دو،چار اورپھرپندرہ برس بیت گئے مگروجہی کاآنگن بنجرہی رہا۔صحراوٴں میں برسنے والی بارشیں اپناثبوت مٹاتی رہیں۔ اسی عرصہ میں والد دُنیا سے اُٹھ گئے اور ماں کی بھی تمام امیدیں دَم توڑچکی تھیں۔ڈھکے چھپے لفظوں میں کئی ایک بار ماں نے دوسری شادی کاکہابھی تووجہی نے ہنس کرٹال دیا۔باپ کے مرنے کے بعدساری ذمہ داریاں وجہی کے سرآپڑی تھیں۔ وہ کاروبار میں یوں اُلجھاکہ بیوی کوپڑھی ہوئی کتاب کی طرح شیلف میں رکھ کر بھول گیا،لیکن اتنابھی نہیں کتاب سے گرد جھاڑنے کے لیے کبھی کبھارگھرہوہی آتا۔ وہ شہر کی کوٹھی میں تنہارہتا تھا،بالکل تنہا۔خانساماں کھاناتیارکرکے برف خانے میں رکھ جاتا اور پھر صبح اُس کے دفترجانے سے پہلے آجاتا۔ ایک بے زبان چوکیدار تھا۔مالی اور خاکروب اُس کے چلے جانے کے بعد آتے اوراُس کے آنے سے پہلے ہی پلٹ جاتے۔البتہ ہفتے میں دو ایک مرتبہ کوٹھی میں کوئی تقریب ضرور برپا ہوتی جس میں اُس کے قریب ترین اور معتمد ساتھی شریک ہوتے اور کبھی کبھار کوئی نیا بھی آجاتا۔
لوگوں کا کہناتھا کہ بے اولادی کے سبب اُس کے دل پر بہت اثر ہوا ۔وہ شہر کے اسکولوں اور کالجوں میں خودجاتااوروہاں سے طالب علموں کا انتخاب کر کے اُن کے اخراجات اپنے ذمے لیتا۔اُن اداروں کی ضروریات کا خیال رکھتا۔کبھی ٹھنڈے پانی کی مشین نصب کروا دیتا،کبھی ڈیسک،کبھی کھیلوں کا سامان،کبھی غریب طالب علموں کی یونی فارم۔یہ سلسلہ کم و بیش ہر دوسرے ادارے کواپنے اندر لیے ہوئے تھا۔
بیشترملکی اور غیر ملکی این جی اوزکے سرکردہ افراداُس سے رابطے میں رہتے۔اُس کے مشوروں کوا ہمیت دیتے۔جن منصوبوں کو وہ اولیت دیتا،بلاجھجک وہ لوگ اُس کی ہاں میں ہاں ملا دیتے۔شہرکے نام وَرصحافی،سیاست دان،بیوروکریٹ،تاجراوراساتذہ بھی اُس کے دفترآتے اورتبادلہٴ خیالات کر کے فیض یاب ہوتے۔
سلسلہٴ روز وشب اسی اندازسے آگے بڑھتاجارہاتھا۔کبھی کبھاراُسے مشورہ دیاجاتاکہ وہ اپنے فلاحی کاموں کو لڑکیوں کے تعلیمی اداروں تک بڑھائے۔وہ ایسے مشوروں کو توجہ سے سُنتااورپھرکہتا:
”اچھے وقت کا انتظار کیجیے،میں کچھ سوچتا ہوں۔“
اس کے وظیفہ خوار نوجوانوں کواُس کے دفتر میں بلا روک ٹوک آنے کی اجازت تھی۔وہ کسی بھی وقت اپنی ضرورت کے لیے یہاں آسکتے تھے۔کبھی بھی فون کرسکتے تھے،کسی بھی دوسرے نوجوان کو لا سکتے تھے۔دفتر کے ملازمین کوسختی سے ہدایت تھی کہ وہ روشنی بانٹنے کے اس عمل میں سستی کا مظاہرہ نہ کریں۔جس طالب علم کے لیے جووظیفہ مقرر ہے وہ بروقت دیا جائے۔اس اچھے کام میں دیر اُس کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔
اُس روز کالج کی سالانہ تقریبات کے سلسلے کی آخری کڑی تھی۔وہ بہ طورمہمانِ خصوصی مدعوتھا۔اُس نے نئے طلبا کے لیے وظیفوں کا اعلان کرنا تھا اورپُرانے طالب علموں کو انعامات دینا تھے۔وجہی نے اپنے معمولات میں ذرا رد وبدل کرکے اُس تاریخ کے لیے خود کو فارغ کر لیا تھا۔جوں ہی اُس کی گاڑی کالج کے گیٹ سے داخل ہوئی طلبا نے اُس کے حق میں فلک شگاف نعرے لگائے۔دوکم سن طالب علموں نے آگے بڑھ کر اُس کا استقبال کیا اورپھول پیش کیے۔وجہی کے ہاتھ شفقت سے اُن کے سروں تک پہنچ گئے تھے۔اساتذہ نے اُس سے مصافحہ اور معانقہ کیا۔وہ سفید لٹھے کے لباس میں یوں دِکھ رہا تھا جیسے کوئی فرشتہ آسمان سے اُترا ہو۔اساتذہ اُسے اپنے دائرے میں اسٹیج تک لے گئے۔اسٹیج پر موجود محکمہ تعلیم کے افسران نے اُٹھ کراُسے گلے لگایا اوردرمیانی نشست پر بیٹھنے کی درخواست کی۔تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا۔اسٹیج سیکرٹری نے وجیہ اختر کی علم دوستی اورطلبا پروری کے جذبے پر روشنی ڈالی اورکالج پرکیے گئے احسانات کاتذکرہ کیا۔دیگر مقررین نے بھی اُس کے جذبے کو سراہا۔وہ سامنے بیٹھے ہوئے طلبا کے مسرورچہروں کودیکھ دیکھ کر خوش ہوتارہا۔اسٹیج سیکرٹری نے انتہائی اَدب سے خطاب کے لیے اُس کا نام پکارا۔وہ وقار کے ساتھ اپنی نشست سے اُٹھااوردھیمے اندازسے اپنی گفتگو شروع کی۔ ابھی وہ یہی کہہ پایا تھا:
” میرے قابلِ فخر بچو!“
کہ ماحول میں شور بلند ہوا۔اساتذہ اسٹیج کی طرف لپکے۔وجہی پرپنڈال میں سے کسی نے کانچ کی بوتل پھینکی تھی۔اُس کے داہنے رُخسار سے لہو کا چشمہ پھوٹ بہاتھا۔لٹھے کی سفید قمیص پر خون نے پھول کھلا دیے تھے۔اُسے چندلمحوں میں ہسپتال پہنچا دیا گیا۔تقریب درہم برہم ہو گئی۔ حملہ آورکا علم نہ ہوسکا۔پرنسپل صاحب خود اُس کے ساتھ ہسپتال گئے اورمرہم پٹی تک وہیں رہے۔پرنسپل نے شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
” جناب !میں نہیں جانتا ہوں،یہ گھٹیا حرکت کس کی ہے مگر میں احتجاجاً دو روز تک اپنا ادارہ بند رکھوں گااوروالدین کوکالج بلاوٴں گا۔“
وجہی نے نرم لہجے میں کہا
” نہیں پروفیسر صاحب!____آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔میں ٹھیک تو ہوں۔“
” دیکھیے ناں اگربوتل آنکھ سے ٹکراجاتی تو بینائی ضائع ہوسکتی تھی“
” ہاں مگر ہوئی تو نہیں____بس آپ یوں کیجیے کہ یہ بات اخبارات تک نہ جانے پائے۔“
” آپ بے فکر رہیے، ایسا ہی ہوگا۔“
پرنسپل نے کہا اوروجہی کو ہسپتال سے لے آیا۔
اس واقعے نے وجہی کو محتاط کردیا تھا۔اَب اُس سے ملنے والوں کو مکمل آزادی نہیں تھی۔دفترمیں آنے والے طلبا سے کہہ دیا گیا تھا جو بھی بات ہوفون پرکر لیا کریں اوروظیفے کے حصول کے لیے صرف شعبہ حسابات کے سربراہ سے رابطہ کیا جائے۔اس برس اُس نے کسی دوسرے ادارے کی تقریب میں شرکت نہ کی۔
اگلے برس کااپریل اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا۔کوٹھی کے وسیع صحن کے درمیان فرشی نشست پرتکیے اہتمام سے رکھے ہوئے تھے اور ان سے پشت ٹکائے ہوئے چند افرادپورے انہماک سے مقامی گلوکارکی آواز میں مشہورغزل خواں کی گائی ہوئی غزل
غم سے ہوں بے نیاز پیتاہوں
ہے کچھ ایسا ہی راز پیتا ہوں
لوگ پانی ملا کے پیتے ہیں
میں تو نظریں ملا کے پیتا ہوں
سن رہے تھے ۔سامعین میں وجہی بھی شامل تھا۔ان تمام کے ہاتھوں میں بغیرسوڈاملے شراب کے گلاس موجود تھے،البتہ برف کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے گلاسوں میں ضرور موجود تھے۔گانے کی محفل ختم ہوئی مگرجام کادورچلتا رہا۔رات نصف سے زیادہ بیت چکی تھی۔کم ظرف لڑکھڑا کر گررہے تھے۔ اسی اثنا میں کوٹھی میں ایک گاڑی داخل ہوئی۔وجہی کے خاص آدمی کے ساتھ ایک اورشخص گاڑی سے اُترا۔اُس نے دونوں کو گھورا۔پھرہاتھ کے اشارے سے اندرجانے کو کہا۔وہ دونوں اندرچلے گئے۔
وجہی نشے میں دُھت لوگوں کو وہیں چھوڑ کراندرچلاآیا۔خاص آدمی نے کہا
” یہ صہیب ہے،اس کے تعلیمی اخراجات اپنے ذمہ لینے کا آپ نے اعلان کیا تھا۔“
” او______ہاں_____تم جاوٴ “ خاص آدمی باہرنکل جاتا ہے۔وجہی نوجوان کو ہاتھ سے پکڑکر ایک کمرے میں لے جاتا ہے۔پھرکوٹھی کو روشن کرنے والے تمام قمقمے گل ہوجاتے ہیں۔
ooo​
 

خاورچودھری

محفلین
دیوانہ (افسانہ)

دیوانہ
خاورچودھری

یہ خلافِ معمول ہی تھاکہ میں صبح سویرے اُٹھتے ہی حجام کے پاس چلاآیا۔شیوتومیں گھرپرہی بنا لیتا ہوں مگربال بنانے کے لیے حجام کے پاس آنا ہی پڑتا ہے۔صبح آنے کا ایک فایدہ یہ ہوا کہ حجام بالکل فارغ بیٹھا تھاالبتہ تین آدمی لکڑی کے بنچ پرپاوٴں لٹکائے یوں بیٹھے تھے جیسے زندگی کے منتظر ہوں۔ میں سلام کہہ کرآئینے کے سامنے پڑی گھومنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔کمرسیدھی کرتے ہوئے میں نے اپنے سامنے آئینے میں دیکھا تواُس میں سے اُن افراد کا عکس واضح نظر آرہا تھاجوپیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔وہ لوگ اَب بھی خاموش تھے،شایدمیرے آنے کی وجہ سے اُن کا سلسلہ ء کلام منقطع ہوگیا تھایاپھرلفظوں کی پوٹلی خالی ہوگئی تھی۔ جو بھی تھا اُن کے لبوں پر تالے پڑے ہوئے تھے۔ میں نے غور سے تینوں کے چہروں کاجائزہ لیا۔وہی بے چہرگی تھی جوکہ ایسے موقعوں پر ہوتی ہے۔ تاثر سے خالی ان چہروں میں کوئی بھی تو خاص بات نہیں تھی۔البتہ چوہے کی سی مونچھوں والے اورسرپرتازہ استراپھروائے ہوئے شخص کی آنکھیں کچھ کہنا چاہتی تھیں۔ چالیس کے سن کو چھوتا ہوا پختہ رنگت کاحامل یہ شخص بار بار اپنی گول اور سیاہ آنکھوں کو یوں گھماتا جیسے گاڑی کاپہیہ گھومتا ہے۔پھربے زاری ظاہر کرتے ہوئے باہر دیکھنے لگتا۔کبھی کبھار وہ اپنے ہاتھ کو ساتھ بیٹھے ہوئے دوسرے شخص گھٹنے پریوں مارتا جیسے زندگی کے دروازے پردستک دے رہا ہو۔حجام کی دکا ن میں موجودہم پانچوں افرادسکوتِ پیہم میں مبتلا تھے۔تاہم قینچی چلنے کی آوازسے زندگی کا ثبوت مل رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے میرے دماغ میں یہ بات آئی کہ شاید یہ حجام کی دکان نہیں ،ورنہ اس قدر خاموشی نہ ہوتی۔ میں نے اپنے گلے پرلپٹے ہوئے کپڑے کی سختی کو اُنگلی سے کم کرتے ہوئے اپناسانس تازہ کیااورحجام سے کہا
” نصرت فتح علی خان کی قوالی ہی سنا دو“
”کون سی سنیں گے ؟“
” تم اک گورکھ دھندہ ہو“
ڈیک میں کیسٹ ڈالتے ہوئے حجام نے کہا:
”پروفیسر نیازی جب بھی آتے ہیں یہی کیسٹ سنتے ہیں اوریہ عمرحیات بھی بار باراسی کیسٹ کوسنانے کا مطالبہ کرتا ہے“
” او_____اچھا“
میں نے آئینے میں سے دوبارہ بولتی ہوئی آنکھوں والے عمرحیات کا جائزہ لیا۔اِدھرنصرت فتح علی خان کی آواز برآمد ہوئی اُدھرعمرحیات کی بولتی ہوئی آنکھوں پر پلکوں کا پردہ آن پڑا______وہ اپنے سر کوخاص اندازسے گھمانے لگا،یوں جیسے کسی بات کی تردیدکررہا ہو۔میں نے بھی اپنی آنکھیں میچ کردھیان قوالی پر لگا لیا۔ اَب حجام کی قینچی کی آوازطبلے کی تھاپ اور قوالوں کے الاپ میں کہیں کھو گئی تھی بالکل اُسی طرح جیسے کچھ دیر پہلے ان تین آدمیوں کی آوازیں معدوم تھیں۔ نصرت فتح علی خان کی آواز کا جادوہمیشہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔میں تو جب بھی اس کو سنتا ہوں،دل و دماغ کی حالت بدل جاتی ہے،جس احتیاط سے یہ لفظوں کو ادا کرتا ہے کسی اورقوال کے ہاں وہ بات نہیں______ اورپھرآواز______!
اَب جو آنکھ کھولی تو کیا دیکھتا ہوں عمرحیات اُٹھ کرباقاعدہ جھوم رہا ہے اور اُس کے ہونٹ بھی مسلسل ہل رہے ہیں۔پھریکایک ساکت ومبہوت ہماری طرف گھورنے لگتا ہے۔ایک زوردارچیخ اُس کے حلق سے برآمد ہوتی ہے اورپھرحجام سے کہتا ہے:
” بند کرو ______ میں کہتا ہوں بند کرواسے“
حجام میری طرف دیکھتا ہے تو میں آنکھوں کے اشارے سے اُسے اجازت دیتا ہوں۔سرگوشی کے سے انداز میں حجام کہتا ہے:
” اسے دورہ پڑا ہے،اَب نہ جانے یہ کیا کیا کہے گا‘میں تو کہتا ہوں یہ کھسکا ہوا ہے“
میں نے حجام کی بات سنتے ہوئے دوبارہ آئینے میں سے عمر حیات کا جائزہ لیا۔اَب وہ بنچ پر دوبارہ بیٹھ چکا تھااوراپنی داہنی ہتھیلی سے اپنے گھٹنوں پر مسلسل دستک دیتا جا رہا تھا۔خاموشی نے ایک بارپھرڈیرے ڈال لیے تھے۔کچھ دیر تومیں نے اُس کا جائزہ لیاپھر کسی اَن ہونی کے ظاہر نہ ہونے پرآنکھیں موند لیں۔چند ساعتیں ہی گزری ہوں گی کہ ایک گونج دارآوازنے ماحول پر لرزہ طاری کردیا
” میں حرامی ہوں______میں؟
اور وہ حرامی نہیں ہیں جودوسروں کاخون چوستے اورماس کھاتے ہیں،کم سِن بچوں اوربچیوں کواستعمال کرتے ہیں،جانوروں اور بے زبانوں کے ساتھ منہ کالا کرتے ہیں۔وہ حرامی نہیں ہیں جوسود دیتے اور منشیات بیچتے ہیں؟اور وہ جوقوم اور دین کی خدمت کا نعرہ بلند کرکے ووٹ لیتے اور بھول جاتے ہیں۔
میں حرامی ہوں تویہ سب کون ہیں؟“
عمر حیات کا اَنگ اَنگ غصے سے کانپ رہا تھا۔یوں لگتا تھا جیسے وہ اچانک کوئی چیز اُٹھا کر ہم میں سے کسی کے سر پر دے مارے گا۔اُس کی بے لاگ چیخ آمیز باتوں کا سلسلہ جاری تھا۔حجام بار باراُسے چلے جانے کے لیے کہتامگروہ اپنی جگہ سے نہ ہلتا۔میں نے حجام سے پوچھایہ روزانہ یہاں آتا ہے تواُس نے بتایا نہیں مگرجب بھی آتا ہے ،پریشان کرتاہے۔اس سے جان چھڑانا مشکل ہوجاتی ہے۔عمرحیات بولے جارہا تھا
” چاند میں بیٹھ کر جب تم نے پانچ سائے نیچے پھینکے تھے ، میں انھیں دیکھ رہا تھا۔اُن کے چہرے دوسری طرف تھے لیکن میں نے کوشش کر کے سب کو پہچان لیا تھا، یہ سائے ،اُلو،سور،بندر،بلی اور گائے کے تھے۔اُن سب کے سرنیچے اور پاوٴں اُوپرکی طرف تھے۔تم نے انھیں اُلٹا کر پھینکا تھا۔ میں بے دھیانی میں درختوں کے جھنڈ سے باہر نکل آیا تھا، تب اچانک یہ پانچوں سائے سانسوں کے راستے سے میری رگوں میں اُتر گئے اور پھر میرے خون میں شامل ہو گئے۔ میں بہت چیختا چلاتا رہا مگروہاں میری مدد کے لیے کوئی نہ آیا۔اَب میں تھا ______اورصحراوٴں کی ویرانی تھی۔پھر میں ایک سمت میں چلنے لگا۔کتنے ہی سال چلتا رہا تب کہیں جاکرمجھے میرے جیسے لوگ ملے۔ میں اجنبی تھا اوروہ مجھے اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے،میری بات کا اعتبار نہیں کرتے تھے______پھر انھوں نے مجھے قتل کرنا چاہالیکن تم نے مجھے لکڑی کے تختے پر بٹھا کرپانی کی لہروں پر ڈال دیا۔میرے خون میں اُترے ہوئے سائے مجھے اَب بھی بے چین کرتے تھے۔ میں پہاڑوں ، جنگلوں،بیابانوں اور غاروں میں پناہ ڈھونڈتا رہامگرسکون کہیں نہ ملا۔میرے پاوٴں زخمی ہوچکے تھے اور میرے ہونٹوں پرپیپڑیاں بن چکی تھیں۔
لق و دق صحراوٴں میں چلتے چلتے میں پیاس اور بھوک سے نڈھال ہو چکا تھا۔تب میں زمین پر گرپڑا اورتڑپتے ہوئے اپنے پاوٴں زمین پررگڑنے لگا______ میرے پاوٴں ریت سے اُلجھ اُلجھ کرریتلے اور گرم ہو چکے تھے پھرتپتے ہوئے صحرا کے سینے سے چشمہ جاری ہوگیا اورمیں نے خوب سیر ہوکرپانی پیا اوراپنے اندراورباہر کو دھویا۔“
” اوئے عمرحیات______ چل اُٹھ اَب نکل ادھرسے“
حجام نے ایک بارپھر اُس سے کہا مگروہ یوں اپنی گفتگو میں محوتھاجیسے اُس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔حجام نے اُسے بازو سے پکڑ کراُٹھاناچاہامگرناکا م رہا۔اُس نے اپنا بازو چھڑاتے ہوئے حجام سے کہا،چائے منگواوٴپھرچلتا ہوں۔لیکن حجام اُسے چائے پلانا نہیں چاہتا تھا۔
” دو پہاڑوں کے بیچ کیاہوتا ہے______ تم جانتے ہو۔ روحیں توہزاروں سال سے اُتر رہی ہیں اور اُترتی رہیں گی۔میرے اندرپانچ سائے لڑتے رہیں گے اور تم چاند میں بیٹھے رہو گے۔“
میں عمرحیات کی باتیں سُن کربہت دُور نکل آیا تھا،اتنی دورکہ اگرعمرحیات پھر نہ چیختا تومیں واپس نہ پلٹ سکتا۔
” میں ہوں حرامی______ میں؟
______اگرمولوی کے ہاں پیدا ہوا ہوتا تولوگ میرے ہاتھ چوم رہے ہوتے،پاوٴں میں بیٹھتے اورنذرونیازدیتے۔تم مجھے حرامی کہتے ہو______تم؟ میری بہن کے پرس میں کنڈوم نہیں ہوتا______میں تودوسروں کے گھروں میں نہیں جھانکتا______
اورتم؟ _____تم اور تمہاری بہن______“
قینچی کی دھار کام دکھا چکی تھی۔عمرحیات کی پسلیاں خون آلود تھیں اوروہ ایک طرف بے سدھ پڑا تھا۔
ooo​
 
Top