خاک پر مہربان ہوتے تھے

راجہ صاحب

محفلین
خاک پر مہربان ہوتے تھے
ہم کبھی آسمان ہوتے تھے

آپ میں دھوپ آ گئی کیسے
آپ تو سائباں ہوتے تھے

اب تو اشجار بحث کرتے ہیں
پہلے یہ بے زبان ہوتے تھے

دشت، دریا، پہاڑ اور جنگل
سب میرے میزبان ہوتے تھے

ہم نے بھی خط سنبھال رکھے ہیں
ہم بھی آخر جواں ہوتے تھے
 

راجہ صاحب

محفلین
کتنے خوبصورت پیر
یوں انجانے میں ہلتے ہیں
کہ جیسے ان کے سینے میں بھی کوئی
دل دھڑکتا ہے
مچلتا ہے
یہ اپنی انگلیوں کا مان رکھتے ہیں
کبھی حد سے نہیں بڑھتے
مجھے بھی اپنی پوروں میں
کبھی محسوس کر دیکھو
میں ایڑھی کی طرح سے ہوں
جو سارا بوجھ سہتی ہے
مجھے بھی ناخنوں جیسی
عطا کردو کوئی سرخی
مجھے بھی بخش دو اعزاز
خوشبو کی زیارت کا
عبارت، محبت کا
مگر پھر سوچتا ہوں میں
مری اوقات ہی کیا ہے
کہاں ادنیٰ، کہاں اعلیٰ
میرا چہرا !
تمھارے پیر !
 

راجہ صاحب

محفلین
سچ


ادھورا ہے جیون یہ تیرے بنا
مگر سوچتا ہوں
محبت کی لہر میں
محبت کا دریا
مری آرزوؤں کے ساحل کی کشتی
ڈبو ہی نہ ڈالے
مرے دل میں دکھ کو
سمو ہی نہ ڈالے
ادھورے سے جیون میں
تم تو نہیں ہو
مگر یہ بھی کافی ہے
یادیں تو ہیں تیری
خوابوں کی صورت
عذابوں کی صورت
 
Top