شفیق الرحمان خبردار یہ پہلی دفعہ ہے ۔۔۔۔۔ازشفیق الرحمٰن

ابن جمال

محفلین
خبردار یہ پہلی دفعہ ہے
اگلے روز منصورنے پوچھا کہ اب ایک صحرانشیں شیخ سے ملوگے، میں نے بدوں کی مہمان نوازی کی کہانیاں سنی تھیں کہ جو بدو شہروں سے دور صحرا میں رہتے ہیں وہ واقعی مہمانوں کو سرآنکھوں پر لیتے ہیں ۔کوئی آجائے تو یہ کبھی نہیں کہاجاتا کہ صاحب گھر میں نہیں ہیں،یانہارہے ہیں بلکہ یہ شعر پڑھاجاتاہے اے ہمارے معزز مہمان آپ دور سے تشریف لائے ،ہماری عزت افزائی ہوئی۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم مہمان ہیں اورآپ صاحب خانہ۔ (مہمان بھی شرافت سے کام لیتاہے اوراگلی صبح کو روانہ ہوجاتاہے:))ایسے موقعوں پر میزبان کی بیوی کا نام نہیں لیاجاتا (اگر وہ ڈنر میں شامل نہ ہو تواسے دقیانوسی نہیں سمجھاجاتا;))اتفاقااس کاذکرآجائے تو مہمان ادب سے اسے العیال کہتے ہیں۔
یہ بھی سنا تھا کہ بدو کی دعوت ہمیشہ قبول کرلینی چاہئے۔ایک مرتبہ کسی شیخ نے ایک غیر ملکی کو شادی کی تقریب پر مدعو کیا اس نے معذوری ظاہر کی اورمعافی مانگ لی۔چنانچہ صحیح تاریخ پر اسے اغواکرلیاگیا اوردعوت میں شامل کرکے بعد میں واپس بھیج دیاگیا۔اگلے روز اسے شیخ کا خط ملا ج سمیں شمولیت کاشکریہ اداکیاگیاتھا۔
شیخ کا دعوت نامہ آیاتوہم سبب بھول گئے۔ کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد نخلستان آیا،شیخ ہمارامنتظرتھا۔ اسی کے لگ بھگ عمر،تانبے جیسارنگ،کشادہ سینہ مسکراتاہواچہرہ،بتیس دانتوں میں سے ایک بھی مصنوعی نہیں تھا اس جوان بوڑھے کو دیکھ کر ہم جوانوں پر بڑھاپاطاری ہوگیا۔کئی مودب ملازم کھڑے تھے لیکن وہ کسی کو ہمارے قریب نہ آنے دیتا ،خود سگریٹ پیش کرتا، سلگاتا،راکھدانی سامنے رکھتا،شربت بناکر دیتا۔ پھر ہم سب کو دوسرے کمرے میں لے گیا دروازہ بند کرکے الماری کھولی"میں خود تواس سے محروم ہوں لیکن معزز مہمان شوق فرمائیں"،اس نے انگریزی میں مخاطب ہوکر کہا۔ الماری میں وہسکی اورسوڈے کی بوتلین تھیں جن پر گرد جمع تھی۔ طشت میں برف کی ڈالیاں تھیں سب خاموش ہوگئے ،کسی نے ہاتھ تک نہ لگایا۔
ضیافت بے حد پرتکلف تھی لیکن اس نے ایک لقمہ نہ چکھا مہمانوں کے سامنے چیزیں رکھتارہا اوراتنی دیر تک کھڑارہا۔
"اس عمر میں ایسی قابل رشک صحت کاراز کیاہے"برٹن نے پوچھا ۔(جس کے آدھے حصے سے زیادہ دانت مصنوعی تھے)
"نخلستان میں کئی ایسے ہیں جو مجھ سے بڑے اورمجھ سے زیادہ تندرست ہیں"
"منصور کہتاہے کہ آپ کی ازدواجی زندگی بے حد خوشگوار رہی ہے۔ شادی ہوئے ساٹھ برس گزرگئے لیکن کبھی ام العیال سے لڑائی نہیں ہوئی۔ آپ نے یہ معرکہ کیسے مارا؟"برٹن نے پوچھا۔
میں اپنے کام میں مصروف رہتاہوں وہ اپنے کام میں‌لگی رہتی ہے۔اس کی نوبت ہی نہیں آتی۔
"آپ چھپارہے ہیں کوئی وجہ تو ضرور ہوگی"۔
"مدتیں گزری ایک معمولی ساواقعہ پیش آیاتھا میں بے حد مفلس تھا۔ کسی سے اونٹنی مانگ کر شادی کرنے گیا ۔سادہ سی رسم کے بعد بیوی کو اونٹنی پر بٹھاکر واپس روانہ ہوا ایک جگہ اونٹنی بلاکسی وجہ کے مچلنے لگے بہتراپیارتھپتھپایالیکن قابومیں نہ آئی۔نیچے اتر کر مہارکھینچی۔ بڑی مشکل سے سیدھی ہوئی۔ تواسے تنبیہ کی ۔ اونٹنی!یہ حرکت پہلی دفعہ کی ہے۔ پھر مت کرنا۔ ہم روانہ ہوئے بمشکل آدھ میل گئے ہوں گے کہ جھاڑیوں سے چند پرندے اڑے اوروہ بدک کر کودنے لگے میں چھلانگ لگاکر نیچے اترا، بڑی مصیبتوں سے اسے رام کیا۔اوراس کے سامنے کھڑے ہوکر کہا خبردار اونٹنی!یہ دوسری دفعہ ہے۔ آگے ایک کھیٹ میں ذرا ذرا پانی کھڑاتھا وہ پھر مستیاں کرنے لگی میں نے کندھے سے بندوق اتار کر وہیں ہلاک کردیا۔ بیوی یاتواب تک بالکل گونگی تھی یایکلخت بر س پڑی۔ مجھے خردماغ ،ظالم اوربیوقوف کہاکہ طیش میں آکر اپنانقصان کرلیا۔ میں نے سب کچھ سن کر اسے تنبیہ کی ۔خبرداربیوی!یہ پہلی دفعہ ہے۔ حضرات ساٹھ برس گزرگئے اوردوسری مرتبہ خبردار کرنے کی ضرورت نہیں پڑی:)
۔

اقتباس از دجلہ ،مصنف شفیق الرحمان
 
Top