خبر و نظر

تحریر سینئر صحافی پرواز رحمانی کی ہے
خبر و نظر
- See more at: http://www.asiatimes.co.in/urdu/Asi...3_Turkish-President-Says#sthash.DSU83dm4.dpuf

1417331812.jpg

">ترکی کے صدر کہتے ہیں ’

’مردوں اور عورتوں کو قدرت نے جسمانی لحاظ سے الگ الگ بنایا ہے، اس لئے امورِ زندگی کی انجام دہی میں وہ یکساں نہیں ہوسکتے اور فیمنٹس (عورتوں کو مردوں کے برابر سمجھنے والے افراد) عورت کو ماں بننے کے حق سے محروم کرناچاہتے ہیں.....بہت سے لوگ اِس حقیقت کو سمجھتے ہیں لیکن بہت سے اِس سے اِنکار کرتے ہیں.....‘‘ اِن خیالات کااظہار ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے 24 نومبر کو استنبول کی ایک کانفرنس میں کیا، جس کا موضوع تھا ’’عورتوں کے ساتھ انصاف ‘‘۔ کانفرنس میں بڑی تعداد میں صرف خواتین شریک تھیں جن میں خود ترک صدر کی بیٹی سُمیہ بھی شامل تھی۔ کانفرنس اور اس کے موضوع کا اہتمام خواتین کے لئے ہی کیا گیا تھا۔ موضوع پر بولتے ہوئے ترک صدر نے حاضرات کو یہ بھی بتایا کہ ’’ہمارے دین اسلام نے سوسائٹی کےاندر خواتین کا مقام متعین کردیاہے اور مدرہُڈ (عورت کاماں بننا اور بچوں کی پرورش کرنا) اُس کا اہم حصہ ہے‘‘ مزیدکہا ’’مجھے اپنی ماں کے قدموں سے جنت کی خوشبو آتی تھی.....‘‘ (اے ایف پی ٹائمس آف انڈیا ناگپور 25نومبر) ترک صدر نے خواتین کو یہ بھی بتایا ’’آپ یہ باتیں فیمنسٹوں کو نہیں سمجھاسکتیں اس لئے کہ وہ عورتوں کے مدرہُڈ کو تسلیم نہیں کرتے۔‘‘​
لہجے میں اعتماد کی وجہ
اور رجب طیب اردگان جب ترک خواتین کو یہ سب بتارہے تھے تو یہ نہیں کہ عورتوں کے سلسلے میں وہ اہلِ مغرب اور ان کےنقالوں کے خیالات سے ناواقف تھے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اِس قسم کی باتیں سن کر عورت کی بے لگام آزادی کے حمایتی آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور یہ کہ اُن کے اِس خطاب کے ختم ہوتے ہی اُن پر تنقید کی یلغار ہوجائے گی، انہیں دقیانوس، ظلمت پسند اور عورتوں کی آزادی کا دشمن کہاجائے گا اور چوں کہ وہ ایک مسلم ملک کے مسلم سربراہ ہیں، اپنے ملک میںاسلامی اقدار کی بحالی کی بات کرتے ہیں۔ اس لئے نقادوں کااصل ہدف اسلام ہوگا ، خود ترکی کے اندر وہ سیاسی عناصر جو خارجی قوتوں کی مدد سے اُن کی حکومت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، سرگرم ہوجائیں گے۔ لیکن پھر بھی انہوں نے اپنی بات کہی اور پورے اعتماد کے ساتھ کہی اُس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ ترک خواتین نے اردگان کی باتیں توجہ سے سن کر ان پرمثبت ردعمل ظاہرکیا— اور وجہ ترک صدر کے لہجے میں اِس اعتماد کی یہ تھی کہ انہیں اسلامی نظامِ اخلاقیات کی معقولیت پر یقین کامل ہے۔ وہ نجم الدین اربکان کے تربیت یافتہ ہیںاور سمجھتے ہیںکہ کسی مملکت میں اگر اس نظام کا عملی نمونہ پیش کردیاجائے تو انسانیت یقینا اس کی طرف متوجہ ہوگی۔
مشکلات کےباوجود
ترکی کی موجودہ حکومت بھی حالانکہ معیاری اسلامی حکومت نہیں ہے لیکن رجب طیب اردگان اور ان کی حکمراں جماعت بہرحال اسلام پسند سمجھے جاتے ہیں اس جماعت نے انتہائی مشکل حالات میں اقتدار سنبھالا ہے۔ آج بھی اسے بیرونی سازشوں اوراندرونی مشکلات کاسامناہے۔ سب سے بڑی مزاحمت یورپین یونین کی جانب سے ہے جس کاکہ ترکی مستقل رکن بننا چاہتا ہے لیکن اردگان کی دور اندیش قیادت میں یہ حکومت آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے۔ راہ کی بہت سی رکاوٹیں دُور کرچکی ہیں، بہت سی باقی ہیں ، مسلم دنیا میں یہ واحد حکومت ہے جو آج کے اسلام دشمن عالمی ماحول میں اسلامی اصول حکمرانی کی بات کرتی ہے۔ ورنہ بیشتر مسلم حکمراں، جن میں خلیج کا مالدار حکمراں طبقہ خاص طور سے شامل ہے، امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر اسلامی تحریکات کونیست ونابود کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دین اسلام میں عورت کا مقام ومرتبہ اُن اسباب میں سے ایک بڑا سبب ہے جن کی بنا پر اسلام دشمن قوتیں اسلام کو اپنے لئے خطرہ سمجھتی ہیں۔ اور ترکی کی موجودہ حکومت دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کررہی ہے کہ اسلامی نظام اخلاقیات، خطرہ نہیں، پوری انسانیت کے لئے بہترین نعمت ہے۔ اطمینان کی بات ہے کہ اس سلسلے میں ترک خواتین بھی حکومت کے ساتھ ہیں۔
- See more at: http://www.asiatimes.co.in/urdu/Asi...3_Turkish-President-Says#sthash.DSU83dm4.dpuf
 
Top