فائضہ خان
محفلین
بختوں پر چھائی ہے ایسی سیاہی جو کسی طور مِٹتے مِٹتی نہیں ہے
کسی در کو چھوڑا نہ دستک سے خالی' کسی سجدے سے بھی اُترتی نہیں ہے
کہاں ہیں وہ سارے خُدا ' جن کے ہاتھوں میں تھی لکیروں کی ڈوری
بلاو اُن کو کہو فلک سے زمیں پر اُتر کر تو دیکھیں
یہاں سے وہاں تک پھیلی محبتوں میں پَنَپتی عداوت کے بِیجوں کو دیکھیں۔۔۔
کہو اُن سارے خُداؤں کو ' کوئی اک ذرہ بھی پاکیزہ نہیں ہے
پر دامن کسی کا بھی مَیلا نہیں ہے
زمیں پر اُتر کے وہ اک شب گزاریں' اک صبح دیکھیں کہ خُدائی کے تختوں پر زمینی خُداؤں کی منڈی سجی ہے
کہ طاقچوں میں اب ہم سجاتے ہیں اُن کو ۔۔۔ اور ہم خود انگلیوں کے پوروں پر بیٹھے ہوئے ہیں
ہمارے لیے یہ تو جینے کی راہ ہے' ورنہ خُدایا یہاں سانس لینا سزا ہے
وہ اُن خُداؤں کو دیکھیں تو سمجھیں کیوں آسماں سے اُن کو بلایا گیا ہے کہ زمیں کی شدت سے حدت پھر نقلی خدائی کے تیور ۔۔ دیکھ لیں گر تو اُن کی بھی سانسیں رکنے لگیں گی۔۔۔
سارے خُداؤں سے پوچھو زندگی سسکتی ہوئی آس مانند سی کیوں لگ رہی ہے ۔۔۔۔ گلی کے نُکڑ پر بلکتی ہوئی' وہی دکھ اٹھانے ' وہی روگ رونے ' وہی زخم کھانے کو ننھی سی روح کے جنم کا جشن مناتے ہوئے نیگ لیتے ہوئے زَنخا لمبی عمر کی دعاؤں میں سسکتی ہوئی زندگی کی کہانی دہرانے کو پھر سے نئی آس جگاتے ہوئے کیوں اتنے خوش ہیں ؟
پھر پوچھو اُن خُداؤں سے کہ انگلی پکڑ کر چلاتے ہوئے بڑے بڑے سپنے سجاتے ہوئے اماں بابا اک دن اچانک سے کیوں مر گئے ہیں؟
دنیا کی ٹھوکر پے کیوں رکھ گئے ہیں؟
سارے خُداؤں کو شہِر محبت کا نقشہ دکھاو ۔۔ کہ محبت کی بازی میں ہارے ہوئے گھروں سے بھی چپ چاپ نکالے ہوئے لَعل ' کبھی پٹریوں پر کچلے ہوئے' کبھی ندیوں میں ڈوبے ہوئے' کبھی نیند کی گولیوں کی رَہینِ مِنت مردہ پائے گئے ہیں۔۔۔۔
یہ زمیں اب رہنے کے قابل نہیں ہے۔۔ یہاں گِدْھ ہیں جو نوچے ہیں سب کچھ' یہاں بھیڑیوں کی قطاریں سجی ہیں ۔۔۔
اپنے ہی ہاتھوں اُجاڑی ہوئی ڈولیاں بالن بنی ہیں۔۔۔ ستاروں سے بھرتی ہوئی مانگ میں خاک بھردی گئی ہیں۔۔۔۔ سرخ جوڑے میں لپٹی ہوئی شوخیاں ۔۔۔ رات پنکھے سے لٹکی ہوئی مل رہی ہیں ۔۔۔ محبت میں اجڑی ہوئی تتلیاں رات سیاہی میں رخصت ہونے لگی ہیں ۔۔۔
یتمی یہاں عام ہونے لگی ہے ۔۔۔
فائضہ خان
کسی در کو چھوڑا نہ دستک سے خالی' کسی سجدے سے بھی اُترتی نہیں ہے
کہاں ہیں وہ سارے خُدا ' جن کے ہاتھوں میں تھی لکیروں کی ڈوری
بلاو اُن کو کہو فلک سے زمیں پر اُتر کر تو دیکھیں
یہاں سے وہاں تک پھیلی محبتوں میں پَنَپتی عداوت کے بِیجوں کو دیکھیں۔۔۔
کہو اُن سارے خُداؤں کو ' کوئی اک ذرہ بھی پاکیزہ نہیں ہے
پر دامن کسی کا بھی مَیلا نہیں ہے
زمیں پر اُتر کے وہ اک شب گزاریں' اک صبح دیکھیں کہ خُدائی کے تختوں پر زمینی خُداؤں کی منڈی سجی ہے
کہ طاقچوں میں اب ہم سجاتے ہیں اُن کو ۔۔۔ اور ہم خود انگلیوں کے پوروں پر بیٹھے ہوئے ہیں
ہمارے لیے یہ تو جینے کی راہ ہے' ورنہ خُدایا یہاں سانس لینا سزا ہے
وہ اُن خُداؤں کو دیکھیں تو سمجھیں کیوں آسماں سے اُن کو بلایا گیا ہے کہ زمیں کی شدت سے حدت پھر نقلی خدائی کے تیور ۔۔ دیکھ لیں گر تو اُن کی بھی سانسیں رکنے لگیں گی۔۔۔
سارے خُداؤں سے پوچھو زندگی سسکتی ہوئی آس مانند سی کیوں لگ رہی ہے ۔۔۔۔ گلی کے نُکڑ پر بلکتی ہوئی' وہی دکھ اٹھانے ' وہی روگ رونے ' وہی زخم کھانے کو ننھی سی روح کے جنم کا جشن مناتے ہوئے نیگ لیتے ہوئے زَنخا لمبی عمر کی دعاؤں میں سسکتی ہوئی زندگی کی کہانی دہرانے کو پھر سے نئی آس جگاتے ہوئے کیوں اتنے خوش ہیں ؟
پھر پوچھو اُن خُداؤں سے کہ انگلی پکڑ کر چلاتے ہوئے بڑے بڑے سپنے سجاتے ہوئے اماں بابا اک دن اچانک سے کیوں مر گئے ہیں؟
دنیا کی ٹھوکر پے کیوں رکھ گئے ہیں؟
سارے خُداؤں کو شہِر محبت کا نقشہ دکھاو ۔۔ کہ محبت کی بازی میں ہارے ہوئے گھروں سے بھی چپ چاپ نکالے ہوئے لَعل ' کبھی پٹریوں پر کچلے ہوئے' کبھی ندیوں میں ڈوبے ہوئے' کبھی نیند کی گولیوں کی رَہینِ مِنت مردہ پائے گئے ہیں۔۔۔۔
یہ زمیں اب رہنے کے قابل نہیں ہے۔۔ یہاں گِدْھ ہیں جو نوچے ہیں سب کچھ' یہاں بھیڑیوں کی قطاریں سجی ہیں ۔۔۔
اپنے ہی ہاتھوں اُجاڑی ہوئی ڈولیاں بالن بنی ہیں۔۔۔ ستاروں سے بھرتی ہوئی مانگ میں خاک بھردی گئی ہیں۔۔۔۔ سرخ جوڑے میں لپٹی ہوئی شوخیاں ۔۔۔ رات پنکھے سے لٹکی ہوئی مل رہی ہیں ۔۔۔ محبت میں اجڑی ہوئی تتلیاں رات سیاہی میں رخصت ہونے لگی ہیں ۔۔۔
یتمی یہاں عام ہونے لگی ہے ۔۔۔
فائضہ خان