خدا اور انسان ۔ مکمل کہانی ۔ از شاہد بھائی

شاہد بھائی

محفلین
خدا اور انسان
شرجیل کے لیے آج کے دن کی ایک خاص اہمیت تھی۔اس دن کا وہ بے چینی سے انتظا رکررہا تھا۔ آج اس نے شرمین کے سامنے اپنی محبت کے اظہار کا ارادہ کرلیا تھا۔ وہ خدا سے مدد مانگتے ہوئے یونیورسٹی کے گیٹ سے اندر داخل ہورہا تھا۔ شرجیل نے ایک ہی نظر میں شرمین کی نظروں کو اپنے دل میں اتار لیا تھا۔ آج اس واقعہ کو ہوئے دو ماہ گزر چکے تھے۔ان دو ماہ میں شرجیل خود کے اندر اس بات کی ہمت پیداکرنے میں لگ گیا تھا کہ وہ جائے اور شرمین سے محبت کا اظہار کردے۔ آج اس کے اندر یہ ہمت پیدا ہوچکی تھی۔کلاس میں داخل ہوتے ہی شرجیل کی نظر شرمین پر پڑی اور بس پڑی رہ گئی۔ شرجیل شرمین میں ایک ایسی کشش محسوس کرتا تھا جو اسے کھیچتی ہی جاتی تھی۔ شرمین اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ اس کی یہ مسکراہٹ بھی شرجیل اپنے دل میں اترتی محسوس کررہا تھا۔ کلاس کاآغاز ہوگیا۔ سر توفیق اند رداخل ہوئے اور لیکچر شروع ہوا۔ اب شرجیل کو انتظار تھا لنچ بریک کا۔ یہ ہی وہ وقت تھا جب شرمین تنہا لنچ کرنا پسندکرتی تھی اور یہی وقت شرجیل کے لیے کافی تھا جس میں وہ شرمین سے وہ سب کچھ کہہ دے جو وہ اس کے لیے اپنے دل میں محسوس کرتا تھا۔ خداخدا کرکے لنچ بریک کاوقت ہوگیا۔ سبھی کلاس والے کلاس سے باہر نکل گئے لیکن شرمین وہی پر بیٹھی رہ گئی۔ وہ ٹفن باکس ساتھ لایاکرتی تھی۔ شرجیل بھی کلاس میں ہی بیٹھا رہ گیا تھا۔ وہ شرمین کی طرف ڈرتے ڈرتے دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ قدم بڑھانے لگا۔ ہر قدم کے ساتھ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہورہی تھی۔ آج اس کی محبت کا اور ساتھ ہی زندگی کابھی فیصلہ ہونے لگاتھا۔ شرجیل کو اپنی طرف آتے دیکھ شرمین بھی اس کی طرف متوجہ ہوگئی۔ پاس آکر شرجیل نے شرمین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکہا:۔
’’محبت ۔۔۔ اس کی لفظ کی پہچان مجھے زندگی میں کبھی نہیں ہوئی تھی۔۔۔ شاید یہ لفظ ہی مجھ سے انجان تھا۔۔۔ لیکن پھر تم مجھ سے ملی۔۔۔اوراس لفظ سے میری واقفیت بڑھی۔۔۔اوراب یہ لفظ میری زندگی بن گیا ہے۔۔۔میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں شرمین۔۔۔بہت زیادہ۔۔۔کیا تم مجھ سے شادی کرو گی‘‘ شرجیل نے ایک ہی سانس میں اپنے سارے جذبات بیان کردئیے۔
’’ہاں شرجیل!۔۔۔تم بھی مجھے بہت پسند ہو۔۔۔ میں تم جیسے لائف پارٹر کاکیسے انکار کرسکتی ہوں‘‘ شرمین نے مسکرا کر شرجیل کے سامنے موتی بکھیر دئیے۔ یہ لمحہ شرجیل کی زندگی کا سب سے حسین لمحہ تھا۔
***
آج شرجیل کی شادی کا دن تھا۔ یہی وہ دن تھا جس کا انتظار شرجیل بے تابی سے کرتا آرہاتھا۔ آج شرمین ہمیشہ کے لیے اس کی ہوجانی تھی۔ شادی کے ہال میں شرجیل کے دوست بھی موجود تھے۔ وہ یونیورسٹی کے دنوں سے ہی شرجیل اور شرمین کی محبت کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے آئے تھے۔
’’ شرجیل !۔۔۔ تمہاری زندگی کاآغاز ہورہا ہے ۔۔۔ ہم چاہتے ہیں کہ تم کسی بھی طرح کا کوئی خطرہ نہ لو‘‘ شرجیل کے دوست روحان نے عجیب سے بات کہی۔ شرجیل چونک گیا۔
’’ کیا کہناچاہتے ہو۔۔۔کیساخطرہ‘‘ شرجیل کےماتھے کی لکیریں گہری ہوگئی تھیں۔
’’ دیکھو!۔۔۔ تم اچھی طرح جانتےہو کہ ہماری دوستی کس قدر گہری ہے ۔۔۔ ہم دونوں ایک دوسرے لیے بھائیوں سے بڑھ کرہیں ۔۔۔میں جانتا ہوں کہ تم کالا دھاگہ باندھے کے سخت خلاف ہو لیکن آج میری تم سے فقط اتنی سے درخواست ہے کہ شادی سے پہلے تم ایک بار یہ دھاگا باندھ لو۔۔۔میں چاہتا ہوں کہ تم شرمین کے ساتھ ہمیشہ خوش رہو اورتمہاری خوشی کے لیے ہی میں یہ بات کہہ رہاہوں‘‘روحان کی بات سن کر شرجیل سوچ میں پڑ گیا ۔ اس کے سامنے شرمین کا خوبصورت سامعصوم چہرہ تھا اور اس کے ساتھ جینا کی خواہش تھی ۔دوسرے ہی لمحے نہ چاہتے ہوئے بھی شرجیل نے اپنا دائیں ہاتھ روحان کے آگے کردیا۔
***
آج شرجیل اور شرمین کی شادی کو تین ماہ گزرچکے تھے۔ شرجیل اپنی زندگی کے حسین ترین دن گزار رہا تھا۔شرمین سے نکاح کرکے اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے پوری دنیا اس کی ہوگئی ہو۔ آج انہیں یونیورسٹی کے ایک دوست نے دعوت پر مدعو کیا تھا۔دعوت میں جاتے ہوئے شرجیل نے ایک نظرشرمیلی سنوری ہوئی شرمین پر ڈالی اور پھر اس کے خوبصورتی کے سمندر کی تہہ میں ڈوب کررہ گیا۔ یہاں تک کہ شرمین نے شرماتے ہوئے اپناچہرہ چھپا لیاتو وہ جیسےاپنے ہوش و حواس میں واپس آگیا۔دوسری طرف شرجیل کے دوست نے اس دعوت میں ہر طرح کا انتظام کررکھا تھا۔ جیسے جیسے رات بڑھتی جارہی تھی، دعوت ایک پرلطف پارٹی میں بدلتی جارہی تھی۔ یہاں بھی شرجیل اس پارٹی میں اپنی بیوی کے ساتھ ایک رومانوی لطف اٹھارہا تھا۔ تبھی شرجیل کے دوست اسے شرمین کے ساتھ دیکھ کر چھیڑتے ہوئے کھینچ کر اپنی طرف لے گئے اورشرجیل مسکرا کر ان کے پاس چلا آیا۔شرجیل مکمل طور پر اپنے دوستوں کے ساتھ مصروف ہوگیا۔ پھر اچانک پانچ منٹ کے بعد اسے پھردوباررہ شرمین کا خیال آیا۔اس نے پلٹ کر اس طرف دیکھا جہاں وہ شرمین کو چھوڑ کرآیا تھا لیکن اب وہاں شرمین موجود نہیں تھی۔ شرجیل کی آنکھوں میں پریشانی کی جھلک دکھائی دی۔وہ پارٹی کے میزبان اور اپنے دوست شایان کے پاس آیا۔
’’ شایان۔۔۔ شرمین کو دیکھا ہے۔۔۔ ابھی تو وہ یہی پر تھی‘‘ شرجیل فکرمند تھا۔
’’ ہاں!۔۔۔ بھابی ابھی یہاں کھڑی محمور سے کچھ بات کررہی تھیں‘‘ شایان کی بات نے شرجیل کو اور زیادہ پریشان کردیا۔ محمور وہی تھا جس کے ساتھ یونیورسٹی میں شرمین کا نام جوڑا جاتا تھا۔ یونیورسٹی میں شرمین خود بھی کافی وقت محمور کے ساتھ گزارتی تھی اوران کا یہ ساتھ شرجیل کوکافی تکلیف پہنچاتا تھا۔ آج پھر اِس ساتھ نے شرجیل کی آنکھوں میں بے چینی کاایک دریارواں کردیا تھا۔اس نے جلدی سے موبائل نکالا اور شرمین کو کال کی لیکن بیل بج بج کر بند ہوگئی۔ دوسری طرف سے کال نہ اٹھائی گئی۔اب شرجیل بے تابی سے پورے گھر میں شرمین کو ڈھونڈنے لگا۔ وہ دل ہی دل میں خدا کو پکار رہا تھا کہ شرمین اسے کہیں تو نظر آجائے۔ اچانک اسے گھر کے ایک کمرے میں مانوس آوازوں کی بھنبھناہٹ سنائی دی۔ شرجیل جلدی سےاس کمرے کی طرف بھاگا اور پھر کمرے کے اندر کے منظر نے اس کے وجود میں قیامت برپا کردی۔
***
شرجیل اور شرمین گھر میں داخل ہوتے ہوئے دو اجنبی انسان لگ رہے تھے۔ شرجیل بالکل ساکت تھا جبکہ شرمین کی آنکھوں میں ندامت اور شرمندگی کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ کمرہ میں داخل ہوتے ہی شرمین نے بلک بلک کررونا شروع کردیا۔ وہ تیزی سے شرجیل کی طرف آئی اور شرجیل کے پاؤں میں گرگئی۔شرجیل سکتے کے عالم میں اسے اس حالت میں دیکھنے لگا:۔
’’ شرجیل!۔۔۔مجھے معاف کردو۔۔۔ میں جانتی ہوں کہ میں معافی کے لائق نہیں ہوں لیکن تم تو مجھ سے بہت محبت کرتے ہو۔۔۔مجھے اپنے کئے پر بہت شرمندگی ہے۔۔۔میں تمہارے علاوہ کسی اور کا سوچ بھی نہیں سکتی ۔۔۔آج مجھ سے جو کچھ بھی ہوا میں پوری زندگی بھی تم سے معافی مانگتی رہوں تب بھی اپنے اس داغ کو مٹا نہ سکوں گی۔۔۔ مجھے معاف کردوشرجیل‘‘ شرمین یہ کہتے ہوئے بری طرح رورہی تھی۔ شرجیل نے بھرائے ہوئے انداز کے ساتھ شرمین کی طرف ایک نظر ڈالی اور پھر کہنے لگا:۔
’’میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔۔۔ میں نے تم سے کتنی محبت کی۔۔۔ تمہارے ساتھ کتنی اچھائی اور بھلائی کی۔۔۔ تم نے مجھ سے جو بھی فرمائش کی اسے ایک پل میں تمہارےسامنے رکھ دیا۔۔۔اور تم نے میرے سارے احسانات کا یہ صلہ دیا۔۔۔میرے جگہ کسی اور کو اپنا بنا لیا۔۔۔تم بہت بری ہو شرمین ۔۔۔بہت بری‘‘ یہ کہتے ہوئے ایک جھٹکے کے ساتھ شرجیل وہاں سے نکل گیا۔ شرمین تنہا کمرے میں سسکتی رہ گئی۔ اسے اپنے آپ سےنفرت محسوس ہونے لگی تھی۔دوسری طرف شرجیل گھر سے باہر نکل آیا تھا۔اس کا دماغ پھٹنے کے قریب تھا۔تبھی اچانک اس کی نظر اپنی کلائی پر پڑی۔ وہ ٹھٹھک کررہ گیا۔ سیاہ دھاگہ اب بھی اس کی کلائی پر بندھا اس کا منہ چڑارہا تھا۔ شرجیل نے تلملا کر دھاگہ توڑ کر زمین پر پھینک دیا۔ اسی وقت اس کے سامنے ماضی ایک تصویر گھو م گئی جہاں روحان اسے یہ سیاہ دھاگہ پہنارہا تھا اور شرجیل نہ چاہتے ہوئے بھی شرمین کی خاطر وہ دھاگہ پہن رہا تھا۔ شرجیل کی آنکھیں برسنے لگیں۔ کچھ دیر پہلے وہ شرمین کو برا بھلا اس لیے کہہ رہا تھا کہ اس نے شرجیل کے ساتھ بے وفائی کی تھی لیکن خود شرجیل تو اپنے خدا کے ساتھ بے وفائی کر چکا تھا۔یہ سوچتے ہی شرجیل تیزی کے ساتھ گلیوں سے نکلتاہوا جامع مسجد پہنچ گیا۔ وہ جلدی سے مسجد کے اندر داخل ہوا اور خدا کے آگاہ دورکعت نماز ادا کرنے کے بعد ہاتھ پھیلا دئیے اور گڑگڑا کرکہنے لگا:۔
’’میرے رحیم و کریم خدا!۔۔۔مجھے معاف کردیں۔۔۔مجھے اپنے کئے پر بہت شرمندگی ہے۔۔۔میں جانتا ہوں کہ میں معافی کے لائق نہیں ہوں لیکن آپ تو مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔۔۔ جو کچھ شادی کے دن مجھ سے ہوا میں پوری زندگی بھی آپ سے معافی مانگتا رہوں تو پھر بھی اپنے اس مشرکانہ داغ کو مٹا نہ سکوں گا۔۔۔میں آپ کے علاوہ کسی کو اپنا محافظ نہین سمجھتا ۔۔۔ اور یہ دو روپےکا دھاگا آپ جیسے عظیم خدا کے آگاہ کیا کرسکتا تھا۔۔میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا ۔۔۔ مجھے معاف کردیں میرے خدا!‘‘ شرجیل بلک بلک کر روتاجارہا تھا اوراپنے کئے کی معافی مانگتا جارہا تھا۔ کافی دیر تک گڑگڑانے کے بعد اسے اندر کا طوفان تھمنے لگا۔ تبھی اس کے ذہن میں بجلی سے کوندی ۔یہی تو وہ جملے تھے جو ابھی کچھ دیر پہلے شرمین نےاس سے کہے تھی اور اب یہی جملے شرجیل خدا سے کہہ رہا تھا۔ اس کا مطلب بالکل واضح تھا کہ جس جرم کی مرتکب شرمین شرجیل کے ساتھ ہوئی تھی اس سے کئی گنا بڑھ کر جرم شرجیل نے خدا کے ساتھ کیا تھا۔اگر شرجیل کسی بھی صورت شرمین کو معاف کرنے پر راضی نہیں تو خدا بھلا کیوں شرجیل کو معاف کرے گا؟اس سوال نے شرجیل کاچہرہ خوف سے سیاہ کردیا۔ اس کی سانسیں اٹک کر رہ گئی۔وہ اپنے خدا سے اپنارشتہ ٹوٹ جانے کاسوچ کرہی اپنی سانسیں ختم ہوتی محسوس کررہا تھا۔تبھی یک لخت اسے مسجد کے پچھلی طرف سے قرآن کی تلاوت سنائی دی۔ اس تلاوت نے شرجیل کے رونگٹے کھڑ ے کردئیے۔ تلاوت کرنے والا ترجمہ بھی ساتھ ساتھ پڑھا رہا تھا:۔
’’ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور و رحیم ہے۔‘‘خدا کے یہ الفاظ شرجیل کے دلوں میں ٹھنڈک کی طرح اتررہے تھے۔ اس کی آنکھوں میں خدا سے محبت کے آنسو تھے اور اس کی بے پناہ رحمت کا اقرار تھا۔ ساتھ ہی اس نے پیچھے تلاوت کرنے والے سے قرآن کی اس آیت کا ترجمہ سنا:۔
’’ اللہ کے بندوں کومعاف کر دینا چاہیے اور درگزر کرنا چاہیے، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کردے؟ اور اللہ تو معاف کرنے والا اوررحیم ہے۔‘‘خدا کے اس جملے نے شرجیل کی روح کے اندر شرمین سے محبت پھر سے پیدا کردی ۔ وہ جان گیا کہ خدا یہی چاہتا تھا کہ وہ شرمین کو معاف کردے کیونکہ خود خدا بھی تو اسے معاف کرچکا ہے۔ شرجیل نے فوراً پیچھے مڑ کر تلاوت کرنے والے کی طرف دیکھا لیکن وہاں تو کوئی بھی نہیں تھا۔ شرجیل کی آنکھوں میں حیرت کی لہر دوڑی۔ پھراس نے مسکرا کر اوپر دیکھا اور مشکور نگاہوں سے خدا کی تعریف کرنے لگا۔
***
گھر آتے ہی شرجیل فوراً اپنے کمرے میں آیا۔ شرمین زمین پر بیٹھی رو رو کر بے حال پڑی تھی۔ شرجیل کودیکھتے ہی شرمین چونک اٹھی اور ایک بار پھرسسکتے ہوئے اس کے قدموں میں گرنے لگی۔ لیکن اس بار شرجیل نے اسے یہ موقع نہیں دیا اور فوراً اسے گلے سے لگالیا۔ شرمین حیرت زدہ رہ گئی اور پھر شرجیل سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کررونے لگی۔ شرجیل اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا اور اسے دلاسا دینے لگا ۔شرمین حیران تھی کہ ایک گھنٹے میں شرجیل کو کیا ہوگیا اور اتنی بڑی بات اس نے کیسے نظر انداز کردی۔کچھ دیربعد شرمین کے ہاتھ پکڑ کر شرجیل اسے کہہ رہا تھا:۔
’’میں تمہیں کس منہ سے گناہ گار کہوں جب تم سے بٖڑا گناہ گار تومیں خودعہوں۔۔۔ حضرت مسیح نے فرمایا تھا کہ پہلا پتھر وہ پھینکے جو خود بے گناہ ہو۔۔۔میں تم پر کیسے پتھر پھینکوں۔۔ تم تو میرے ساتھ بے وفائی کی مرتکب ہوئی لیکن میں تو اپنے رب کے ساتھ بے وفائی کر بیٹھا۔۔۔ جب اس کے باوجود رب مجھے معاف کرسکتا ہے تو میں تمہیں معاف کیوں نہیں کرسکتا؟۔۔۔ شرمین !۔۔۔میں نے آج عہد کیا ہے کہ کسی بھی صورت دوبارہ ایسی حرکت اپنے خدا کے ساتھ کبھی نہیں کروں گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کروں۔۔۔ کیا تم بھی یہ عہد کرو گی‘‘ شرجیل شرمین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر محبت بھرے انداز میں بولا۔ جس پر شرمین نے دوآنسو پلکوں سے گراتے ہوئے تیزی سے سر ہلایااور پھر دوبارہ شرجیل کے گلے لگ کر سسکیاں بھرنے لگی۔ اس کے بعد کچھ ہی وقت میں شرجیل اور شرمین ایک بار پھر پہلے کی طرح محبت کی ایک لا زوال مثال قائم کرنے لگے ۔شرجیل شرمین کی آنکھیں میں ڈوبارہتا لیکن اس بار شرجیل اپنے خدا کو نہیں بھولا تھا۔شرجیل اچھی طرح سمجھ گیا تھا کہ انسان خدا کو بھول کر اپنا رشتہ اس کے ساتھ توڑکر آگے نکلنے کی کوشش کر تا ہے لیکن خدا اس رشتے کو کبھی بھی ٹوٹنے نہیں دیتا اور انسان کو معاف کرنے کے لیے ہر وقت پکارتا رہتاہے۔ خدااور انسان کا یہ رشتہ انسان کے گناہوں کی وجہ سے کمزور ضرور ہوسکتا ہے لیکن کبھی ٹوٹ نہیں سکتا۔اب شرمین کے شکم میں شرجیل کی ننھی اولاد خدا کے رحمتوں کےسائے میں سانسیں لے رہی تھی۔
***
ختم شدہ
***
 
آخری تدوین:
Top