نایاب
لائبریرین
علی زریون کی تازہ نظم
بشکریہ فیس بک
بشکریہ فیس بک
خدا ایک حل تھا .
عقائد کی اس افراتفری سے پہلے ،
خدا ایک حل تھا ..!
وہ دل جن کا دشت و بیابانِ دنیا کی غربت میں
کوئی سہارا نہیں تھا !
وہ آنکھیں !
جنھیں ریگزارِ مصیبت کی تپتی جھلستی فضاؤں میں
نخلِ محبّت کا سایا نہیں تھا !
تو ان سب دلوں ،زخم کھائی جھلستی نگاہوں کی
سب الجھنوں کا
سبھی مشکلوں کا فقط ایک حل تھا !
خدا ایک حل تھا !
اور اس وقت یوں تھا ،
زمیں پر ! کہ جب فلسفوں اور عقیدوں کی
زہریلی کھیتی کا نام و نشاں تک نہیں تھا ،
یہ مٹی !
جو اب اپنے ادھڑے ہوئے تن کی "ھیھات حالت " پہ نوحہ کناں ہے !
یہی زرد و لاچار مٹی بہت مطمئن تھی ..!
یہی چرخِ اول !
جو آج اپنی سیار بوڑھی مگر برگزیدہ نگاہوں سے
وحشت زدہ ہو کے ،
اہلِ زمیں کی طرف دیکھتا ہے !
تو یہ چرخِ اول ،یہ نیلا فلک
اپنی چاہت کا نیلم ،
محبّت کی بارش لٹاتا تھا ،
ہنستا تھا ،
گاتا تھا ..!!
اور بس وہی وقت تھا جب خدا ایک حل تھا !
مگر اب ؟؟
زمیں پر سہولت کی ارزانیاں ہیں !
وسیلوں دلیلوں کا انبار آدم کے بیٹوں کے پیروں
کی ٹھوکر پہ ہے
اور !!
خدا سے بڑی "کائناتی شکایت" کوئی بھی نہیں ہے ..!!
وساوس کا بازارِ مرگ اپنی رونق سجائے ،
دکانیں لگائے ،
"نظر کن ! کہ ایں جنسِ وحشت چہ ارزاں و عمدہ "
کی بولی لگائے ،
ہر اک سو ہر اک جا بر ابر بپا ہے ..!
اور اس عصرئيے میں !
خدا ! جو محبّت تھا اور ایک حل تھا ،
بنی نوعِ آدم کے ہاتھوں سے گر کے کہیں کھو گیا ہے !
محبّت بہت دیر سے لا پتا ہے۔